برطانیہ کا انسانی سمگلرز کے خلاف سخت قوانین کا منصوبہ

اردو نیوز  |  Jan 03, 2025

برطانوی حکومت غیر قانونی نقل مکانی کے خلاف سخت اقدامات اور سرحدی سلامتی کو مضبوط بنانے کی کوششیں تیز کر رہی ہے۔

برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق برطانیہ میں مشتبہ انسانی سمگلروں کو نئے قوانین کے تحت سخت پابندیوں اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جمعرات کو دیے گئے حکومتی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مشتبہ افراد پر سفری پابندیاں، سوشل میڈیا پر پابندیاں اور فون کے استعمال پر پابندی لگائی جائے گی تاکہ حکومت کو ’منظم امیگریشن جرائم کے نیٹ ورک کو ختم کرنے‘ میں مدد مل سکے۔‘

وزیر داخلہ یوویٹ کوپر نے سرحدی سلامتی کو حکومت کے حالیہ ’ تبدیلی منصوبے‘ کی بنیادوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے اختیارات دیں گے تاکہ یہ ادارے مکروہ گینگ نیٹ ورکس کا پیچھا کر کے انہیں روک سکیں۔

جولائی 2024 میں اپنے عہدے پر فائز ہونے والے برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے غیر قانونی نقل مکانی سے نمٹنے کو ترجیح دی ہے۔

سمندری راستہ اپنانے کی غیرقانونی کوشش میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے (فوٹو: روئٹرز)برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ ’دنیا کے سب سے مصروف شپنگ روٹس میں سے ایک انگلش چینل کے راستے غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے افراد کو فرانس سے برطانیہ سمگل کرنے والے گروہوں کے خلاف خاص طور پر سخت کارروائی کی جائے گی۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں 36800 سے زائد افراد نے خطرناک سمندری سفر کر کے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کی جو سال بہ سال 25 فیصد اضافہ ہے۔ 

انگلش چینل دنیا کے سب سے مصروف شپنگ روٹس میں سے ایک ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)اس غیرقانونی کوشش میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور ریفیوجی کونسل نے اسے اس طرح کی کراسنگ کے لیے سب سے مہلک سال قرار دیا۔

بیان میں کہا گیا ہے’منصوبہ بند عبوری سنگین جرائم کی روک تھام کے احکامات مشتبہ سنگین جرائم، بشمول منظم امیگریشن جرائم کو فوری طور پر روکنے کی اجازت دیں گے۔‘

نئے اختیارات اس وقت استعمال ہونے والے قوانین کی عکاسی کے لیے تیار کیے گئے ہیں جو دیگر جرائم جیسے چاقو دکھا کر کی جانے والی وارداتیں اور انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More