انقلاب ایران: امریکی صدر کی وہ غلطیاں جنھوں نے شاہ ایران کا تختہ الٹنے کی راہ ہموار کر دی

بی بی سی اردو  |  Jan 02, 2025

Getty Images

صرف ایرانیوں کے لیے نہیں بلکہ امریکی معاشرے اور سیاست کے لیے بھی جمی کارٹر کا نام ہر چیز سے زیادہ ایران سے ہی جڑا ہے۔ ایک ایسے امریکی صدر جنھوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنے وقت کا بڑا حصہ ایران سے متعلقہ معاملات کو دیکھتے گزارا اورآخرکار یہ ایران ہی تھا جو اُن کی دوسری بار صدارت کے انتخاب میں شکست کی وجہ بنا۔

امریکہ میں موجود ناقدین کی نظر میں جمی کارٹر وہ صدر تھے جنھوں نے مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کے سب سے اہم سٹریٹیجک اتحادی (شاہِ ایران محمد رضا پہلوی) کو کھو دیا اور پے در پے غلطیوں کی وجہ سے وہ ایران میں امریکی یرغمالیوں سے متعلق ڈیل کرنے میں بھی ناکام رہے۔

ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایران کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی کے اہم خدوخال کا تعین کرنے میں کبھی بھی فیصلہ کن کردار ادا نہ کر سکے اور شاید اِسی وجہ اُن کے دور صدارت میں واشنگٹن نے ایران سے متعلق متعدد بار اپنی پالیسی تبدیل کی۔

یہ اور بات ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی خارجہ پالیسی کو سب سے اہم کامیابی جمی کارٹر کے دور اقتدار میں ہی حاصل ہوئی یعنی ان ہی کے دور میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا اور اسرائیل اور مصر کے درمیان امن کی راہ ہموار ہوئی۔

کیمپ ڈیوڈ معاہدہ دراصل اسرائیل کی قانونی حیثیت کو جواز بخشنے اور اسے بڑھاوا دینے کے علاوہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جاری سلسلہ وار جنگوں کو ختم کرنے کا نقطہ آغاز تھا۔

متعدد مبصرین سمجھتے ہیں کہ کارٹر انتظامیہ کی غلطیوں کی بدولت ہی شاہ ایران کے زوال میں تیزی آئی اور انھی امریکی پالیسیوں کی بدولت روح اللہ خمینی کی زیر قیادت نئی اسلامی حکومت کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملی۔

ایران کے ساتھ معاملات میں جمی کارٹر کا نظریہ بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کے بارے میں دو بالکل مختلف نظریات پر مبنی تھا، جو آج تک مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کی خارجہ پالیسی سے جڑا ہے: اخلاقی سیاست بمقابلہ حقیقت پسندانہ سیاست۔

امریکہ اپنے آپ کو ’آزاد دنیا کے قائد‘ اور دنیا میں ’انسانی حقوق اور جمہوریت‘ جیسی بنیادی اقدار کے حامی اور علمبردار کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن کیا خارجہ پالیسی میں اس ملک کی کارکردگی بھی اِن نعروں کی عکاس ہے؟ ایسا دعویٰ کرنے والا ملک دوسرے ممالک میں برسراقتدار آمروں سے دوستی کیسے کر سکتا ہے، کیسے انھیں مضبوط کر سکتا ہے اور دیگر ممالک میں جابرانہ حکومتوں کے تسلسل کا دفاع کر سکتا ہے؟

Getty Imagesانسانی حقوق میں دلچسپی

جمی کارٹر امریکی ریاست جارجیا کے اُن دیہی علاقوں میں پلے بڑھے جنھیں امریکہ کے ’بائبل بیلٹ‘ کا دل کہا جاتا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پروٹسٹنٹ عیسائیوں کا بہت اثر و رسوخ اور طاقت ہے۔ جمی کارٹر اس ماضی کو کبھی نہیں بھولے اور اُن کے مسیحی عقائد اُن کی شناخت کا ایک اہم حصہ رہے۔

اِن مذہبی عقائد پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ ’انسانی حقوق‘ کے حامیوں اور امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے مخالفین کے علمبرداروں میں سے ایک بن گئے۔ وائٹ ہاؤس پہنچنے سے قبل اُن کے سیاسی کریئر کا ایک اہم حصہ نسل پرستی کے خلاف کام کے لیے وقف تھا۔

جنوری 1977 میں جب جمی کارٹر نے صدر کے طور پر حلف اٹھایا تو انھوں نے کہا کہ ’انسانی حقوق کے لیے ہمارا عزمپختہ ہونا چاہیے۔‘

شاہ ایران (محمد رضا پہلوی) کے لیے یہ الفاظ نئے نہیں تھے۔ کارٹر سے پہلے امریکی صدور نے بارہا ’انسانی حقوق‘ کا دفاع کیا تھا اور یہاں تک کہ جان ایف کینیڈی جیسے کچھ صدور نے تو اُن پر اصلاحات کے لیے دباؤ بھی ڈالا لیکن آخر میں ایران کے بارے میں اپنے ملک کی پالیسی کے تعین میں تمام سابق صدور کی رہنمائی سیاسی جبر یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں تھیں بلکہ جغرافیائی سیاسی ضروریات اور ان کے ملک کے مفادات تھے۔

یہ ایسا المیہ تھا کہ جس کا صدر بننے کے بعد جلد ہی جمی کارٹر کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف وہ ایران میں سیاسی دباؤ، گھٹن، پھانسیوں اور اپوزیشن کو دبانے جیسے واقعات کو نظر انداز کرتے رہے تو دوسری طرف وہ انسانی حقوق کے لیے اپنی حتمی وابستگی کا دعویٰ کرتے رہے۔

سنہ 1953 میں امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی سے ایران کی فوج نے ملک میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ جمی کارٹر کے دور میں ایران میں منتخب حکومت کے خلاف اس بغاوت کو 25 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا تاہم ایران میں انتخابات یا اقتدار کی منتقلی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔ یہ وہی دور تھا جب ایران کے شاہ نے عملی طور پر تمام معاملات کو ذاتی طور پر اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا۔

شاہِ ایران، جن پر اُن کے مخالفین اختلافی آوازوں کو جابرانہ انداز میں دبانے کا الزام عائد کرتے تھے، وہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ایک ایسے وقت پر سب سے اہم اتحادی تھے جب دنیا سرد جنگ کے دوران مشرق اور مغرب کے دو مسابقتی بلاکوں میں تقسیم تھی۔

مغربی میڈیا میں شاہ کے حامیوں کا اصرار تھا کہ وہ دراصل اپنے ملک میں کمیونسٹوں کو دبا رہے ہیں اور اگر کمیونسٹ کامیاب ہو گئے تو ایران سویت یونین کے پلڑے میں چلا جائے گا۔

اسی وجہ سے جمی کارٹر کی حکومت کا ایران کے ساتھ دوہرا رویہ اور معیار اُن کی صدارت کے پہلے ہی سال سے شروع ہو گیا تھا۔

Getty Imagesسال کے آخری دن نیروان پیلس میں ایک سرکاری ڈنر پارٹی کا انعقاد کیا گیا۔ اس پارٹی میں شاہ نے ایران اور امریکہ کے قریبی تعلقات کے بارے میں کئی منٹ تک بات کی۔ پھر جمی کارٹر کی باری تھی۔ ان کی تقریر شاہ ایران کی تقریر سے بھی طویل تھیانسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ہتھیار فروخت کرنے کی پالیسی

کارٹر کے اقتدار میں آنے سے چند ماہ پہلے سائرس وینس کی سربراہی میں امریکی محکمہ خارجہ نے تاریخ میں پہلی بار دنیا کے کونے کونے سے انسانی حقوق سے متعلق ایک رپورٹ تیار کی۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس کے لیے ہنری کسنجر ایک سال پہلے تک تیار نہیں تھے۔

اس رپورٹ میں ارجنٹینا، ہیٹی، انڈونیشیا، پیرو اور فلپائن کے ساتھ ساتھ ایران کو اُن چھ ممالک میں شامل کیا گیا جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی تھی مگر ساتھ یہ وہ ممالک تھے جنھیں امریکہ ہتھیار بھی فراہم کر رہا تھا۔

جمی کارٹر نے کہا کہ وہ امریکی ہتھیاروں کی دیگر ممالک کو فروخت سے متعلق پالیسی کو تبدیل کر دیں گے۔ ایران اُس وقت امریکی ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار تھا۔

اس اعلان کے بعد نیویارک ٹائمز نے جون 1977 کو امریکی حکام کے حوالے سے خبر دی تھی کہ امریکہ نے ایران کو 250، F-18 لڑاکا طیاروں کی فروخت روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اخبار کے مطابق چار ارب ڈالر کا یہ معاہدہ جمی کارٹر کی امریکی ہتھیاروں سے متعلق نئی پالیسی کی وجہ سے روک دیا گیا۔

اُس وقت امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس بھی جمی کارٹر کی کابینہ کے ان اراکین میں شامل تھے جو ہتھیاروں سے متعلق اس پالیسی کے سخت حامی تھے۔

جمی کارٹر کے انسانی حقوق کے دفاع کی وجہ سے مغربی میڈیا اور انسانی حقوق کی معروف تنظیموں کے سامنے ایران کے حالات ماضی کے مقابلے میں زیادہ کُھل کر سامنے آئے۔

جب شاہ ایران نے مغرب کو متنبہ کیا کہ ’ہمیں پرشیا نہ پکارا جائے‘’رضا شاہ پہلوی کو ایران ہی میں دوبارہ احترام کے ساتھ دفن کیا جائے‘’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہامریکی صدر کارٹر کے طنزیہ الفاظ 'ہمارے دیرینہ دوست بھٹو کے ساتھ بہت برا ہوا!'

شاہ ایران کے مخالفین کا خیال تھا کہ اگر امریکہ نے ماضی میں شاہ ایران کا ساتھ نہ دیا ہوتا جیسا کہ اس نے 1953 میں کیا تھا، تو ان کے پاس رضا پہلوی حکومت کا مقابلہ کرنے کا بہتر موقع ہوتا۔

دوسری طرف جمی کارٹر کی کابینہ میں ایسی شخصیات بھی تھیں جو ایک حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کی حامی تھیں اور اُن کا خیال تھا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان سٹریٹجک اتحاد کی اہمیت، جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے مسائل سے کہیں زیادہ ہے۔

جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر زیبگنیف برزینسکی جیسی شخصیات کا خیال تھا کہ سرد جنگ کی وجہ سے امریکہ کو کبھی بھی شاہ ایران کو تنہا چھوڑنا نہیں چاہیے تھا۔

خلیج فارس سے برطانیہ کے انخلا کو سات سال گزر چکے تھے اور ایران خطے میں غالب فوجی طاقت تھا، اس نے اس اہم آبی گزرگاہ کی حفاظت مؤثر طریقے سے سنبھال رکھی تھی۔ برزینسکی کا اصرار تھا کہ امریکہ کو خطے کا کنٹرول سوویت یونین یا اس پر منحصر حکومتوں کے ہاتھ میں نہیں جانے دینا چاہیے اور اس لیے امریکہ اور شاہ ایران کے درمیان قریبی تعلقات واشنگٹن کے سٹریٹجک مفادات کے لیے بہت ضروری ہیں۔

Getty Imagesجیسے جیسے ایران میں شاہ کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کا امکان زیادہ سنگین ہوتا گیا، امریکی حکومت نے کارٹر کے دور کی پالیسی کو نظر انداز کرنے اور جمی کارٹر سے پہلے کے دور کی طرح شاہ ایران کی حمایت میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کیاکارٹر کا مشرق وسطیٰ کا دورہ

جیسے جیسے ایران میں شاہ کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کا امکان زیادہ سنگین ہوتا گیا، امریکی حکومت نے کارٹر دور کی پالیسی کو نظر انداز کرنے اور جمی کارٹر سے پہلے کے دور کی طرح شاہ ایران کی حمایت میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔

سنہ 1977 کے موسم گرما میں نیویارک ٹائمز کی متنازعہ رپورٹ کے فوراً بعد امریکی حکومت نے کانگریس کو ایران کو سات جدید اواکس طیارے فروخت کرنے کی تجویز بھیجی۔ ایسا لگتا تھا کہ ’مثالی‘ صدر بین الاقوامی سیاست میں اپنے نظریات اور اقدار سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

جمی کارٹر پر دوغلے پن کا الزام تھا اور یہ کہ وہ دوسرے امریکی صدور کی طرح شاہ کے قریبی دوست رہے ہیں۔ ایسی تنقید سے کارٹر کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ایرانی حکومت کے غیر جمہوری رویوں، سیاسی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے قطع نظر امریکہ نے شاہ اور اُن کی اہلیہ کا امریکہ میں سرکاری طور پر خیرمقدم کیا۔

اس سفر کے دوران وائٹ ہاؤس کے سامنے شاہ ایران کے مخالفین کی جانب سے کیے جانے والے مظاہرے پرتشدد ہو گئے اور امریکی پولیس نے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔

لیکن ہوا کے رخ کی وجہ سے آنسو گیس وائٹ ہاؤس میں جو تقریب منعقد ہو رہی تھی وہاں تک پہنچ گئی اور شاہ ایران کو بھی آنکھوں پر رومال رکھنا پڑا۔

حزب اختلاف کے لیے یہ ایران میں شاہ کی حکومت کے خلاف عوامی عدم اطمینان کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے ایک اہم ترین لمحہ تھا۔

جیسے جیسے مظاہرے بڑھتے گئے ایران میں شاہ کی حکومت دن بدن کمزور ہوتی گئی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو فیصلہ کرنا پڑا کہ ایران کے حالات سے کیسے نمٹا جائے۔

حتمی نتیجہ آئیڈیلسٹ نظریات کے حامل رہنماؤں کا زوال اور حقیقت پسندوں کا عروج تھا۔ جمی کارٹر نے ایران کے شاہ کی حمایت زور و شور سے جاری رکھی اور مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران انھوں نے تہران کا بھی سفر کیا۔

Getty Images

سال کے آخری دن نیروان پیلس میں ایک سرکاری ڈنر پارٹی کا انعقاد کیا گیا۔ اس پارٹی میں شاہ نے ایران اور امریکہ کے قریبی تعلقات کے بارے میں کئی منٹ تک بات کی۔ پھر جمی کارٹر کی باری تھی۔ ان کی تقریر شاہ ایران کی تقریر سے بھی طویل تھی۔

جمی کارٹر نے اپنی تقریر کا ایک بڑا حصہ شاہ ایران اور ان کے کارناموں کی تعریف کے لیے وقف کیا اور اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ ’شاہ کی شاندار قیادت کی بدولت ایران ایک بہت کشیدہ خطے میں استحکام والا جزیرہ ہے۔‘

ان الفاظ کو شاہ کے لیے امریکہ کی مضبوط حمایت سے تعبیر کیا گیا۔ اس تقریب کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد ’ایران اور سرخ و سیاہ نوآبادیاتی نظام‘ کے عنوان سے ایک مضمون اخبار میں شائع ہوا جس میں روح اللہ خمینی پر سخت حملہ کیا گیا۔ خمینی کے حامیوں کا ردعمل سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں اور بین الاقوامی سطح پر شاہ مخالف پروپیگنڈے کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔

مگر اس کے باوجود شاہ ایران کو اپنے ہی ملک کی سڑکوں پر احتجاج کی بڑھتی ہوئی شدت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک ایسی صورتحال جس نے واشنگٹن کے سیاستدانوں کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکی حکومت میں بتدریج دو مختلف نظریات سامنے آئے۔ ان دو نظریات میں سے ایک، جس کا برزینسکی حامی تھا، یہ کہ امریکہ کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ شاہ ایران کی حمایت کرنی چاہیے۔ برزینسکی نے یہاں تک تجویز دی کہ امریکہ اندرونی بغاوت کے ذریعے دوسری بار شاہ کی حکومت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے۔

مخالف گروپ امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کی قیادت میں ایک بالکل مختلف نقطہ نظر رکھتا تھا اور وہ شاہِ ایرانکے بعد کے دور کے لیے امریکی حکمت عملی کو ڈیزائن کرنے سے متعلق زیادہ فکرمند تھا۔

اس گروپ کا خیال تھا کہ امریکہ کو ایران میں دوبارہ مداخلت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح کی مداخلت حالات کو مزید خراب کر دے گی۔

برسوں بعد شائع ہونے والی سرکاری امریکی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس دوران امریکہ میں سیاستدان شدید اختلافات کا شکار تھے اور یہاں تک کہ تہران میں امریکی سفیر ولیم سلیوان نے بھی واشنگٹن کے بہت سے احکامات کو نظر انداز کر دیا تھا۔

آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران کے حالات کو پرسکون کرنے کے لیے شاہ ایران کو ملک چھوڑ دینا چاہیے۔ اپنی ایک رپورٹ میں ولیم سلیوان نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایران میں شاہ کا کام ختم ہو گیا۔

Getty Imagesجمی کارٹر اور شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی’پیٹھ میں چُھرا گھونپنا‘

یہاں سے کارٹر حکومت، جو بظاہر شاہ کی کٹر حامی تھی، نے جنرل رابرٹ ہیزر کو ایک ایسی کارروائی کے لیےتہران بھیجا جس نے شاہِ ایران کی پوزیشن اور حکومت کو نمایاں طور پر کمزور کر دیا۔

تہران میں جنرل ہیزر کا مشن عملی طور پر ایران میں پہلوی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ ایک ایسا واقعہ جو بادشاہت اور خود بادشاہ کے مداحوں کو کبھی نہیں بھول پایا۔

دراصل جمی کارٹر انتظامیہ نے جنرل ہیزر کو بھیج کر شاہ ایران کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ایران میں فوج اس صورتحال میں غیر جانبدار رہے۔

اس کے بعد موسم سرما کے وسط میں شاہ ایران کی حکومت کے خاتمے سے بھی واشنگٹن میں متزلزل پوزیشن اور سٹریٹجک اختلافات ختم نہیں ہوئے۔

اس عرصے کے دوران سائرس وینس کا خیال تھا کہ جلد از جلد ایران کی نئی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے چاہییں اور روح اللہ خمینی اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے موصول ہونے والے پیغامات کی بنیاد پر ان کا خیال تھا کہ ایران میں نئے انقلابیوں کو امریکہ سے کوئی مسئلہ نہیں۔

لیکن ساتھ ہی خمینی نے ان پیغامات میں یہ واضح کیا تھا کہ وہ امریکی مداخلت کے امکان اور شاہ کی اقتدار میں واپسی کے بارے میں کتنے فکر مند تھے۔

جب بنیاد پرست اسلامی طلبا کے ایک گروپ نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا اور 50 سے زائد امریکی ملازمین کو یرغمال بنایا، تو خمینی ان کے پیچھے کھڑے تھے۔

یہ دراصل جمی کارٹر کی صدارت کا سب سے اہم موڑ ثابت ہوا۔

جمی کارٹر پر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ تھا لیکن اس بار یہ واضح نہیں تھا کہ امریکی حکومت کس راستے پر جائے گی: یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سفارت کاری اور مذاکرات کرے گی یا فوجی کارروائی؟

امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنانے کے 444 دن کے دوران، امریکہ نے وسیع پیمانے پر اقدامات اٹھائے جن میں ایرانی اثاثوں کو منجمد کرنا، ایران کے خلاف تجارتی پابندیوں کے پہلے دور کا نفاذ، ایرانی طلبا کو امریکہ سے بے دخل کرنا، ثالثی کے لیے یاسر عرفات کو تہران بھیجنا وغیرہ شامل تھا۔

آخر کار جمی کارٹر کی صدارتی مدت کا آخری سال شروع ہو گیا اور وہ اس دوران داخلی سطح پر اپنے حریف رونالڈ ریگن سے مقابلہ کرتے رہے۔ ان کے وزیر خارجہ سائرس وینس نے آپریشن ایگل کلاؤ کی مخالفت میں ایک غیر معمولی اقدام میں استعفیٰ دے دیا تھا اور جمی کارٹر نے اپنی تقریباً تمام ناکام کوششوں کے ساتھ دوبارہ انتخابی مہم کا آغاز کیا۔

الجزائر کی ثالثی میں امریکی یرغمالیوں کی رہائی کی بات چیت آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور یہ افواہیں تھیں کہ ریگن نے انتخابات کے بعد ایران سے یرغمالیوں کو رہا کرنے کو کہا تھا۔

کارٹر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میرے پاس جو ہتھیار ہیں میں ان سے ایران کو دنیا کے نقشے سے مٹا سکتا ہوں۔‘

وہ الیکشن ہار گئے اور رونالڈ ریگن کے صدارت کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی یرغمالیوں کو رہائی مل گئی۔

جمی کارٹر نے اپنی باقی زندگی مقدس کتاب انجیل کی تبلیغ اور شہری امور پر تعلیم دیتے ہوئے گزاری۔

جمی کارٹر کا پاکستان کے جوہری پروگرام پر دباؤ اور ’مرجھائے تعلقات‘ سے اولین دوست بننے تک کا سفرایران میں امریکہ کا وہ خفیہ آپریشن جس پر صدر جمی کارٹر کو پچھتاوا رہاجب شاہ ایران نے مغرب کو متنبہ کیا کہ ’ہمیں پرشیا نہ پکارا جائے‘’رضا شاہ پہلوی کو ایران ہی میں دوبارہ احترام کے ساتھ دفن کیا جائے‘خمینی کی ’شیطانِ بزرگ‘ سے دوستی اور دشمنی ’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More