2024 میں بی بی سی اُردو کی ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں کون سی تھیں؟

بی بی سی اردو  |  Dec 31, 2024

سنہ 2024 قومی اور بین الاقوامی خبروں سے بھرپور رہا ہے۔ اس سال ناصرف اسرائیل، حماس اور روس، یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگیں بدستور جاری رہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر کئی نئے محاذ گرم ہوئے جیسا کہ لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ اور شام میں بشار الاسد حکومت کا باغی گروہوں کے ہاتھوں خاتمہ۔

اسی طرح پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات ہوں یا امریکہ میں صدارتی انتخاب، سیاسی معاملات بھی خبروں میں کافی گرم رہے۔

بی بی سی اُردو نے ناصرف اِن تمام معاملات کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی بلکہ صارفین کی ایک بڑی تعداد نے بھی تازہ ترین پیش رفت سے آگاہی کے لیے ہماری ویب سائیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا رُخ کیا۔

پھر چاہے وہ سپورٹس سے متعلقہ خبریں ہوں، یا کرائم کے دل دہلا دینے والے واقعات، پاکستان کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے لا اینڈ آرڈر کے واقعات ہوں یا ان پر سیرحاصل تبصرے صارفین نے ہر خبر میں دلچسپی ظاہر کی۔

اس رپورٹ میں ہم بی بی سی اُردو کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ان دس خبروں کی تفصیل پیش کر رہے ہیں جنھیں صارفین نے سب سے زیادہ پسند کیا اور یہ رواں برس کے دوران سب سے زیادہ پڑھی گئیں۔

یاد رہے کہ بی بی سی اُردو کی ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبروں میں ہمارے لائیو پیج تھے جن میں اہم واقعات اور خبروں کی احسن انداز میں کوریج کی گئی اور ان کو لاکھوں افراد نے ہماری ویب سائٹ پر آ کر پڑھا۔

ذیل میں وہ دس خبریں ہیں جو لائیو پیجز کے علاوہ ہیں یعنی کسی ایک واقعے سے متعلق مکمل اور تفصیلی رپورٹس۔

ہلال امتیاز، سونے کا تاج اور کروڑوں روپے: پاکستان کے لیے اولمپکس میں 40 برس بعد گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم

8 اگست 2024 کو پاکستان کے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولن تھرو کے مقابلوں میں نیا اولمپک ریکارڈ قائم کرتے ہوئے نہ صرف طلائی تمغہ حاصل کیا بلکہ پاکستانی قوم کا ان عالمی کھیلوں میں میڈل کے حصول کا تین دہائیوں سے جاری انتظار بھی بالاخر ختم ہوا۔

ارشد نے یہ کارنامہ 92.97 میٹر فاصلے پر نیزہ پھینک کر سرانجام دیا تھا جو اُن کے کریئر کی اب تک کی بہترین کارکردگی تھی۔

ارشد ندیم کے اس کارنامے پر جہاں وہ عالمی ایتھلیٹکس فیڈریشن کی جانب سے 50 ہزار ڈالر کے انعام کے حقدار قرار پائے ہیں وہیں پاکستان میں بھی سرکاری اور نجی سطح پر ان کے لیے بڑے انعامات اور اعزازات کے اعلانات کیے گئے ہیں۔

یہ کارنامہ سرانجام دینے پر سرکاری سطح پر انھیں ہلال امتیاز دیا گیا تو چند پاکستانی شہریوں کی طرف سے سونے کا تاج، پلاٹ، گاڑیاں اور اس طرح کے دیگر انعامات دیے گئے۔

بی بی سی اُردو نے اس تاریخ ساز موقع کی مکمل رپورٹنگ کی جس کی مکمل تفصیل یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے۔

کیا پاکستان واقعی ایسا میزائل بنا سکتا ہے جو امریکہ تک پہنچ جائے؟Getty Images

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے امریکی تشویش بڑھتی ہی جا رہی ہے اور دسمبر 2024 میں امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر حکومتی اہلکار نے باضابطہ طور پر دعویٰ کیا کہ پاکستان نے ایک ایسی ’کارآمد میزائل ٹیکنالوجی‘ تیار کر لی ہے جو اسے امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کے قابل بنائے گی۔‘

امریکی تھنک ٹینگ کارنیگی انڈاؤمنٹ کے زیرِاہتمام منعقد ہونے والی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اور ایسے دیگر ہتھیار بنا لیے ہیں جو ’اسے بڑی راکٹ موٹرز کے (ذریعے) تجربات کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔‘

امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے لیس طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر منسلک چار اداروں پر پابندیاں عائد کی تھیں، ان میں اس میزائل پروگرام کی نگرانی کرنے والا سرکاری ادارہ نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) بھی شامل تھا۔

اس حوالے سے بی بی سی اُردو نے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کا وہ میزائل پروگرام جو حالیہ امریکی پابندیوں کا نشانہ بن رہا ہے، وہ کیا ہے؟ اس میں کون کون سے میزائل شامل ہیں اور امریکہ کو اِن سے کیا خدشات ہیں؟ اس تحریر میں ہم نے یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ امریکی پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کو کیسے متاثر کر سکتی ہیں اور کیا واقعی پاکستان ایسا میزائل بنا سکتا ہے جو امریکہ تک پہنچ جائے۔

اس حوالے سے شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

ڈسکہ میں زہرہ قدیر کا قتل: ’بیٹی کے سسرال میں دھلا فرش دیکھا تو چھٹی حِسّ نے کہا کچھ بہت بُرا ہو چکا ہے‘

دس نومبر کی صبح زہرہ قدیر کے فون کی گھنٹی بار بار بج رہی تھی مگر کوئی فون اٹھا نہیں رہا تھا۔ آج سے قبل ایسا بہت کم ہوا تھا کہ زہرہ کے فون پر اتنی بار کالز کرنے کے باوجود کوئی جواب نہ آیا ہو۔

زہرہ کو سعودی عرب سے واپس آنے کے بعد والد کے گھر سے اپنے سسرال گئے ابھی تین دن ہی ہوئے تھے۔

زہرہ کے والد شبیر احمد اسی سوچ میں تھے کہ انھیں زہرہ کے شوہر کا سعودی عرب سے فون آیا اور انھوں بھی یہی بات دہرائی کہ زہرہ سے رابطہ نہیں ہو رہا۔

زہرہ کا یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ دن میں دو تین بار اپنے والد اور شوہر کو فون کر کے ان کی خیریت دریافت کرتی تھی۔ وہ سعودی عرب میں مقیم اپنے شوہر کو بھی دن میں متعدد مرتبہ کالز کر کے اپنے اڑھائی سالہ بیٹے اور اپنی خیریت سے متعلق آگاہ کرتی تھی۔

ایسے میں جب زہرہ نو ماہ کی حاملہ تھیں تو ان کے شوہر اور والد کی جانب سے ان کے فون نہ اٹھانے پر پریشان ہونا فطری تھا۔ شاید اسی لیے وہ زہرہ سے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے تھے۔

یہ رپورٹ پنجاب کے شہر ڈسکہ میں ایک حاملہ خاتون کے قتل سے متعلق تھی۔ جب زہرہ قدیر پر کیے گئے ظلم کا راز افشا ہوا تو پورا علاقہ اس ہولناک واردات سے سکتے میں آ گیا۔ مکمل خبر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

کرّم: سیزفائر کے اعلانات کے باوجود مزید جھڑپیں، ہلاکتوں کی تعداد 200 سے بڑھ گئیGetty Images

خیبر پختونخوا کا قبائلی ضلع کرم گذشتہ بہت عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث خبروں میں رہتا ہے۔

حالیہ کشیدگی کا آغاز رواں برس نومبر میں اس وقت ہوا جب مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد شروع ہونے والی کشیدگی نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کیا اور اب تک ہلاکتوں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔

بی بی سی نے حالیہ کشیدگی پر یہ تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں پیش آئے واقعات کا جامع انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ مکمل تفصیلات کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

’میرے ہاتھوں پر شوہر کا خون ہی خون تھا‘: پی ٹی آئی کے خلاف گرینڈ آپریشن کے بعد اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بی بی سی کی ٹیم نے کیا دیکھاGetty Images

نومبر 2024 کے آخری ہفتے میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاج اور مظاہرین پر حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد پاکستان میں جو چیز سب سے زیادہ موضوعِ بحث رہی وہ اس دوران ہونے والی ہلاکتیں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد تھی۔

تحریکِ انصاف کے مختلف رہنماؤں کی جانب سے جماعت کے کارکنوں کی ہلاکتوں کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تعداد 20 سے 280 کے درمیان ہے جبکہ سینکڑوں کارکن زخمی ہوئے تو دوسری جانب حکومت کا دعویٰ تھا کہ 'گرینڈ آپریشن' میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے سرے سے گولی چلائی ہی نہیں گئی۔

سو سوال یہ تھا کہ اس کارروائی میں کتنے لوگ جان سے گئے اور کتنے زخمی ہوئے اور کیسے؟ اور اس واقعے کے بعد اسلام آباد کے ہسپتالوں کی صورتحال کیا تھی؟ بی بی سی کی ٹیم نے یہی جاننے کے لیے ہسپتالوں کا دورہ کیا تھا جس کی تفصیلی رپورٹ کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

ڈاکٹر شاہنواز: ’ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھ رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے‘

’لوگوں کو جو مولوی اُکسا رہا تھا اُس کے پاس ڈاکٹر شاہنواز نے قرآن پڑھنا سیکھا تھا۔ اس کو شاہنواز کی ذہنی صحت کے بارے میں بھی علم تھا لیکن وہ باز نہیں آیا۔‘

یہ ڈاکٹر شاہنواز کی ایک قریبی رشتہ دار کے الفاظ ہیں جنھوں نے بی بی سی سے ڈاکٹر شاہنواز کی موت اور انھیں دفنانے کی تگ و دو کے دوران پیش آنے والے واقعات سے متعلق بات کی تھی۔

ستمبر 2024 میں صوبہ سندھ کے شہرعمرکوٹ میں توہینِ مذہب کے مقدمے کا سامنا کرنے والے مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد ان کے لواحقین نے ان کی تدفین کی کوشش کی تھی تاہم مشتعل مظاہرین نے ان کی لاش کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔

ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ مقامی مسجد کے خطیب کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور اُن کی شان میں گستاخی کی۔

یہ مکمل مقدمہ کیا تھا اور کن حالات میں ڈاکٹر شاہنواز کو پولیس مقابلے میں مارا گیا اور ان کی لاش کو نذر آتش کیا گیا۔ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

موٹروے پولیس اہلکار کو گاڑی تلے روندنے کا الزام: ملزمہ کو دو روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیاBBC

اپریل 2024 میں صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی ایک مقامی عدالت نے موٹر وے پولیس اہلکار پر گاڑی چڑھا دوڑنے اور اسے زخمی کرنے کے واقعے میں ملوث ملزم خاتون کو جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والاچار ماہ سے زیادہ پرانا یہ واقعہ صوبہ پنجاب کے علاقے نارتھ چکری کا تھا۔ اس واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق موٹر وے پولیس نے ایک خاتون کو حد رفتار سے تیز گاڑی چلانے پر روکا تو انھوں نے پولیس اہلکاروں سے بدتمیزی کی اور بعدازاں ایک اہلکار پر گاڑی چڑھا دوڑی جس کے باعث وہ زخمی ہو گئے تھے۔

اس مکمل کیس کی تفصیلات یہاں پڑھی جا سکتی ہیں۔

رینجرز کی ڈی چوک پر کارکن کو کینٹینر سے دھکا دینے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟Getty Images

نومبر میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈی چوک پر احتجاج کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں احتجاج میں شریک ایک کارکن کو سکیورٹی اہلکار کنٹینر سے نیچے دھکا دے رہے ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر راستہ روکنے کے لیے رکھے گئے کنٹینرز کی چھت پر ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا اور ایسے میں ڈھالیں اور ڈنڈے پکڑے چار رینجرز اہلکار اس کے پاس آتے ہیں۔

ایسے میں ایک رینجرز اہلکار اس شخص کو دھکے دیتا ہے اور اس نتیجے میں پہلے یہ شخص خود کو بچانے کے لیے کنٹینر کا کونا پکڑ کر لٹک جاتا ہے اور چند ہی سیکنڈز بعد نیچے گر جاتا ہے۔

یہ ویڈیو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ واٹس ایپ گروپس میں بھی گردش کر رہی تھی۔

بی بی سی سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز، تصاویر اور وہاں موجود ایک عینی شاہد کے بیان کی مدد سے اس شخص کے گرنے کے واقعے کی تصدیق کرنے میں کامیاب ہوا تھا: مکمل خبر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

جنگی مشق یا ’بارش سے متاثرہ فصل خشک کرنے کی کوشش‘: سوشل میڈیا پر فوجی ہیلی کاپٹروں کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟

مئی 2024 کے آغاز میں پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک ایسی ویڈیو وائرل نظر آئی جس میں گندم کے کھیتوں کے ساتھ ہی ساتھ چند فوجی ہیلی کاپٹر فصل سے کچھ ہی فاصلے پر ہوا میں تقریبا معلق نظر آتے تھے۔

اس ویڈیو میں زمین پر موجود چند افراد، جو غالباً فون کے کیمرے سے ان مناظر کی ویڈیو بنا رہے ہیں، کچھ کہتے ہوئے بھی سنائی دیتے ہیں تاہم ان کی آواز ہیلی کاپٹر کے شور میں دب جاتی ہے۔

اس ویڈیو کے بارے میں سوشل میڈیا پر طرح طرح کی آرا موجود تھیں تاہم ایک بڑا دعویٰ یہ سامنے آیا تھا کہ یہ ہیلی کاپٹر گندم کو سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چند افراد نے یہ دعوی بھی کیا کہ یہ فوجی مشق ہے۔

لیکن حقیقت کیا تھی اور اس ویڈیو میں کیا ہو رہا تھا، بی بی سی نے اس رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی تھی۔ رپورٹ کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

پاکستان کی فوج میں اختلاف رائے کا تاثر: ’ذہن سازی‘ اور پالیسی میں ’تبدیلی‘ کا ٹکراؤ کیسے ہوا؟

پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ مضبوط ترین ریاستی ستون سمجھی جاتی ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں نہ صرف مداخلت کرتی ہے بلکہ سیاسی جوڑ توڑ ان کے اشاروں پر ہی ہوتا ہے۔

خود فوجی افسران عوامی سطح پر عوامی یا سیاسی معاملات پر رائے دینے کے مجاز نہیں ہیں اور ملک کا آئین انھیں ایسے کسی بھی اقدام سے روکتا ہے جس سے ان پر کسی سیاسی جماعت کی جانبداری کا تاثر ملے۔ اپنی پالیسیوں کا دفاع کرنا اور عوام سے رابطہ قائم رکھنا، یہ امور عام طور پر وہ فوجی افسران سرانجام دیتے رہے ہیں جو حاضر سروس نہ ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ ریٹائر ہونے والی فوجی افسران اکثر اخبارات اور ٹی وی سکرینز پر عسکری پالیسیوں، اقدامات اور فیصلوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ قانون کے تحت کوئی بھی فوجی افسر اپنے عہدے سے سبکدوشی کے تین سال ختم ہونے کے بعد نہ صرف سیاسی معاملات پر اپنی رائے دے سکتا ہے بلکہ سیاست میں کسی بھی عام شہری کی طرح حصہ بھی لے سکتا ہے۔

بی بی سی اُردو نے ایک سیریز کے ذریعے پاکستان کے اداروں میں تقسیم اور اختلاف کا جائزہ کیا تھا۔ مکمل تفصیلات کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

ہلال امتیاز، سونے کا تاج اور کروڑوں روپے: پاکستان کے لیے اولمپکس میں 40 برس بعد گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم پر انعامات کی بارش کیا پاکستان واقعی ایسا میزائل بنا سکتا ہے جو امریکہ تک پہنچ جائے؟ڈسکہ میں زہرہ قدیر کا قتل: ’بیٹی کے سسرال میں دھلا فرش دیکھا تو چھٹی حِسّ نے کہا کچھ بہت برا ہو چکا ہے‘’میرے ہاتھوں پر شوہر کا خون ہی خون تھا‘: پی ٹی آئی کے خلاف گرینڈ آپریشن کے بعد اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بی بی سی کی ٹیم نے کیا دیکھاڈاکٹر شاہنواز: ’ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھ رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے‘موٹروے پولیس اہلکار کو گاڑی تلے روندنے کا الزام: ملزمہ کو دو روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیارینجرز کی ڈی چوک پر کارکن کو کینٹینر سے دھکا دینے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟جنگی مشق یا ’بارش سے متاثرہ فصل خشک کرنے کی کوشش‘: سوشل میڈیا پر فوجی ہیلی کاپٹروں کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟پاکستان کی فوج میں اختلاف رائے کا تاثر: ’ذہن سازی‘ اور پالیسی میں ’تبدیلی‘ کا ٹکراؤ کیسے ہوا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More