’دنیا کا سب سے بڑا ڈیم‘: چین کا وہ منصوبہ جو انڈیا کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے

بی بی سی اردو  |  Dec 28, 2024

Getty Imagesدریائے یرلانگ ژانگبو انڈیا میں براہماپترا کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ انڈیا سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش تک جاتا ہے

چین نے تبت سے نکلنے والے یرلانگ ژانگبو دریا پر دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے جس سے تبت میں آبادیوں کے بے گھر ہونے اور انڈیا اور بنگلہ دیش میں ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

یہ ڈیم یرلانگ ژانگبودریا کے نچلے حصے میں واقع ہو گا اور موجودہ دنیا کے سب سے بڑے تھری گورجز ڈیم کے مقابلے میں تین گنا زیادہ توانائی پیدا کر سکے گا۔

چین کے تھری گورجز ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 22500 میگاواٹ ہے اور یرلانگ ژانگپو دریا پر اس سے تین گنا بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو گی۔

چونگی واٹر ریسورسز بیورو کے تخمینے کے مطابق اس منصوبے پر 127 ارب ڈالر( ایک ٹریلین یوان) تک لاگت آ سکتی ہے۔

چینی سرکاری میڈیا نے اس منصوبے کو ’ایک ’محفوظ اور ماحول دوست‘ منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مقامی خوشحالی کو فروغ دے گا اور بیجنگ کے ماحولیاتی اہداف کے حصول میں معاون ہو گا۔

تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین نے اس منصوبے کے اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے اس سے مقامی آبادیاں بے دخل ہونے کے ساتھ ساتھ، قدرتی منظر نامے تبدیل اور مقامی ماحولیاتی نظامکو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

چین اس پہلے بھی تبت میں کئی ڈیم تعمیر کر چکا ہے۔ تبت کا خطہ 1950 کی دہائی میں چین کے ساتھ الحاق کے بعدسے بیجنگ کے سخت کنٹرول کے زیرِ اثر ہے۔

تبتکی آبادی زیادہ تر بدھ مت کے ماننے والوں کی ہے جنھوں نے ماضی میں کئی بار جبر کا سامنا کیا ہے۔

رواں سال کے اوائل میں چین کی حکومت نے ایک اور ڈیم کے خلاف احتجاج کرنے والے سینکڑوں باشندوں کو گرفتار کیا۔ ڈیم کی تعمیر کے خلاف مقامی لوگوں کا احتجاج گرفتاریوں اور مارپیٹ پر ختم ہوا جس میں بعض افراد شدید زخمی ہوئے۔ بی بی سی نے یہ معلومات اپنےذرائع اور مصدقہ فوٹیج کے ذریعے حاصل کیں۔

یہ مظاہرین گنگتاؤ ڈیم اور پن بجلی پلانٹ کی تعمیر کے منصوبوں کی مخالفت کر رہے تھے۔

تاہم بیجنگ کا کہنا تھا کہ اس نے مقامی لوگوں کو دوبارہ بسانے اور معاوضہ دینے کے ساتھ ساتھ اہم مجسموں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا ہے۔

یرلانگ ژانگبو ڈیم کے معاملے میں چینی حکام کا موقف ہے کہ اس منصوبے سے کوئی بڑا ماحولیاتی اثر نہیں ہو گا لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ اس سے کتنے لوگوں کو بے گھر ہونا پڑے گا۔

تھری گورجز ڈیم کے لیے چودہ لاکھ افراد کونئی جگہ آباد کیا گیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق اس بڑے منصوبے کے لیے کم از کم چار 20 کلومیٹر لمبی سرنگوں کی ضرورت ہو گی جو نمچا باروا پہاڑ سے نکالی جائیں گی اور یرلانگ ژانگبو کے بہاؤ کو موڑ دیں گی۔

ماہرین اور حکام نے یہ خدشات بھی ظاہر کیے ہیں کہ یہ ڈیم چین کو سرحد پار دریا کے بہاؤ کو کنٹرول یا موڑنے کی طاقت دے سکتا ہے جو جنوب کی طرف انڈیا کی ریاستوں اروناچل پردیش اور آسام میں بہتا ہے اور آگے بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔

سنہ 2020 میں آسٹریلیا کے تھنک ٹینک لوئی انسٹی ٹیوٹ کی شائع کردہ ایک رپورٹ میں کہا کیا گیا کہ تبت سے بہنے والے دریاؤں پر کنٹرول حاصل کر کے چین انڈیا کی معیشت پر اپنی گرفت مضبوط کر سکتا ہے۔

چین کی جانب سے 2020 میں یرلانگ ژانگبو ڈیم منصوبے کے اعلان کے فوراً بعد ایک سینئر انڈین سرکاری اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ انڈیا کی حکومت ایک بڑے پن بجلی ڈیمکی تعمیر کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ چینی ڈیم منصوبوں کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔

چین کی وزارت خارجہ نے 2020 میں مجوزہ ڈیم کے حوالے سے انڈیا کے خدشات کے جواب میں کہا تھا کہ چین کو دریا پر ڈیم بنانے کا جائز حق حاصل ہے۔

Getty Imagesیہ دریا دنیا کی سب سے گہری گھاٹی سے گزرتا ہے، جہاں ایک حصہ صرف 50 کلومیٹر کے اندر 2,000 میٹر نیچے گر جاتا ہے

چین نے گذشتہ دہائی میں یرلانگ ژانگبو دریا کے راستے پر کئی پن بجلی اسٹیشن تعمیر کیے ہیں تاکہ اس دریا کی طاقت کو قابل تجدید توانائی کے ذریعے استعمال کیا جا سکے۔

یہ دریا دنیا کی سب سے گہری گھاٹی سے گزرتا ہے، جہاں ایک حصہ صرف 50 کلومیٹر کے اندر 2000 میٹر نیچے گر جاتا ہے جو پن بجلی پیدا کرنے کی زبردست صلاحیت فراہم کرتا ہے۔

تاہم دریا کا جغرافیہ بڑے انجینئرنگ چیلنجز بھی پیش کرتا ہے اور یہ نیا ڈیم اب تک چین کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔

ترقیاتی مقام ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو زلزلوں کا شکار ٹیکٹونک پلیٹ کے کنارے پر ہے۔ چینی محققین نے پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اتنی تنگ گھاٹی میں اس قدر وسیع کھدائی اور تعمیر سے زمین کھسکنے کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

صوبہ سیچوان کے جیولوجیکل بیورو کے ایک سینئر انجینئر نے کہا تھا کہ زلزلے سے زمین گھسکنے اور مٹی و چٹان کے بہاؤ کے واقعات اکثر قابو سے ہوتے ہیں اور یہ منصوبے کے لیے بڑا خطرہ پیدا کریں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More