ماگڈیبرگ کے کرسمس بازار پر حملہ: جرمنی نے سعودی انتباہ کو نظر انداز کیوں کیا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 23, 2024

EPA

جرمن شہر ماگڈیبرگ کی کرسمس مارکیٹ میں چار خواتین اور ایک نو سالہ لڑکے کو کار سے کچلنے کے الزام میں گرفتار 50 سالہ شخص کے بارے میں سعودی عرب کے حکام نے جرمنی کو متنبہ کر رکھا تھا۔

جمعے کو ایک سیاہ بی ایم ڈبلیو کار میں سوار مبینہ حملہ آور طالب العبدالمحسن نے ماگڈیبرگ کے کرسمس بازار کی بھیڑ پر گاڑی چڑھائی جس میں 200 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔

جرمنی کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق طالب العبدالمحسن 2006 میں جرمنی آئے اور یہاں بطور ڈاکٹر کام کرتے تھے۔ ایک بیان میں پولیس نے کہا کہ 'جج نے قتل، متعدد قاتلانہ حملوں کی کوشش اور متعدد لوگوں کو سفاکانہ انداز میں زخمی کرنے جیسے پانچ جرائم پر ان کی قبل از ٹرائل حراست کا حکم دیا۔'

تفتیش کاروں کو تاحال طالب العبدالمحسن کا شدت پسند تنظیموں سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔ ان کی سوشل میڈیا پوسٹوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ اسلام اور سعودی عرب کے ناقد ہیں۔

Getty Imagesحملہ تین منٹ تک جاری رہا

جمعے کی شام اس حملے میں 200 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے جن میں سے کم از کم 41 کی حالت نازک ہے۔

ایک کالے رنگ کی بی ایم ڈبلیو ایس یو وی نے 400 میٹر تک پھیلی بازار کی بھیڑ پر تین منٹ تک گاڑی چڑھائے رکھی۔

حکام کے مطابق پولیس، طبی عملے اور فائر فائٹر سمیت قریب 100 اہلکار اور ریسکیو کے 50 اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق انھوں نے بڑی مشکل سے حملے کے دوران چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔

جرمن اخبار کو دیے انٹرویو میں ایک خاتون نے بتایا کہ وہ اپنے بوائے فرینڈ مارکو کے ساتھ کرسمس مارکیٹ میں تھیں جب ایک تیز رفتار کار ان کی طرف آئی۔

32 سالہ خاتون نے اخبار کو بتایا کہ 'کار ان سے ٹکرائی اور وہ میرے سے دور جا گرے۔ یہ خوفناک منظر تھا۔'

معاویہ اعظم طارق: انسداد دہشتگردی کی فورتھ شیڈول لسٹ میں شامل رکن پنجاب اسمبلی یورپ کیسے پہنچے؟ٹک ٹاک پر انڈین ڈانسر کی محبت میں گرفتار پولش خاتون: ’میرا بس چلے تو کل ہی شاداب سے شادی کر لوں‘جرمنی کی شہریت حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا ضروری شرط کیوں قرار دیا گیا؟آئرلینڈ: وہ چھوٹا سا ملک جس کے لیے ’اضافی کیش‘ درد سر بن گیا، مگر اتنا پیسہ اس کے پاس آیا کہاں سے؟

جرمن سرکاری نشریاتی ادارے کے رپورٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے زمین پر خون دیکھا اور واقعے کے بعد کئی ڈاکٹر 'لوگوں کو گرم رکھنے اور ان کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔'

سنیچر کی شام ماگڈیبرگ کیتھیڈرل میں حملے کے متاثرین کے لیے ایک میموریل سروس منعقد کی گئی جس میں چانسلر اولف شولز بھی شریک ہوئے۔

شولز نے اس واقعے کو دردناک قرار دیا اور کہا کہ 'اس قدر سفاکی سے کئی لوگوں کو ایسے مقام پر ہلاک اور زخمی کیا گیا ہے جہاں وہ لطف اندوز ہونے آئے تھے۔'

انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بعض زخمی افراد کی حالت تشویش ناک ہے جبکہ مبینہ حملہ آور کی تحقیقات کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔

BBCمبینہ حملہ آور کون ہے؟

ریاست زاکسن انہالٹ کے سربراہ رینر ہاسلوف نے صحافیوں کو بتایا کہ جائے وقوعہ سے 50 سالہ سعودی شہری کو گرفتار کیا گیا ہے جو 2006 میں جرمنی آیا تھا اور بطور ڈاکٹر کام کر رہا تھا۔

ان کے مطابق ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ مبینہ حملہ آور اکیلا تھا۔

پراسیکیورٹر ہورسٹ والٹر نوپنز نے سنیچر کو بتایا کہ تحقیقات جاری ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ مبینہ حملہ آور 'جرمنی میں سعودی عرب سے آنے والے پناہ گزین کے ساتھ سلوک پر مشتعل ہوا۔'

پولیس کا خیال ہے کہ العبدالمحسن اپنی کار میں ایک ایسے داخلے کے راستے سے کرسمس مارکیٹ میں داخل ہوئے جو ایمرجنسی سروسز کی گاڑیوں کے لیے مختص تھا۔

ملزم ایک ماہرِ نفسیات ہے جو ماگڈیبرگ سے 40 کلو میٹر جنوب میں واقع برنبرگ میں رہائش پذیر تھا۔

ان کا تعلق سعودی عرب سے ہے مگر وہ 2006 میں جرمنی آئے تھے اور 2016 میں انھیں پناہ گزین کا درجہ ملا تھا۔

وہ ایک ویب سائٹ چلاتے تھے جس کے ذریعے خلیجی ممالک میں تشدد سے بچ کر جرمنی میں پناہ لینے والے مسلمانوں کی مدد کی جاتی تھی۔

مبینہ حملہ آور کا شدت پسند تنظیموں سے کوئی تعلق معلوم نہیں ہوسکا۔ ان کی سوشل میڈیا پوسٹوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ اسلام کے ناقد ہیں۔

Reutersجرمنی نے مبینہ حملہ آور سے متعلق سعودی انتباہ کو 'نظر انداز کیا'

سعودی حکام اس وقت ماگڈیبرگ میں حملے کے ملزم طالب العبدالمحسن سے متعلق تمام معلومات جمع کر رہے ہیں جو جرمن تفتیش کاروں کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔

ریاض میں وزارت خارجہ کی قلعے نما دیواروں کے اندرشاید مایوسی ہوگی۔ سعودی عرب نے جرمن حکومت کو عبدالمحسن کے انتہا پسند خیالات کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔

اس نے جرمنی کو چار مرتبہ انتباہ 'نوٹس وربل' بھیجا تھا، تین مرتبہ خفیہ اداروں کو اور ایک بار برلن میں وزارت خارجہ کو۔ سعودی حکام کے مطابق اس پر کوئی جواب نہ دیا گیا۔

اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ طالب العبدالمحسن کو 2016 میں جرمنی میں اسائلم دی گئی۔ ایک سال قبل سابق چانسلراینگلا مرکل نے مشرق وسطیٰ سے ایک لاکھ سے زیادہ پنا گزینوں کے لیے ملکی سرحدیں کھول دی تھیں۔ مگر مبینہ حملہ آور اس کے 10 سال پہلے ہی جرمن میں رہنے لگے تھے۔

اگرچہ ان کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جہاں اسلام کے علاوہ کسی مذہب کے عوامی اظہار کی اجازت نہیں تاہم وہ یہ غیر معمولی سعودی شہری ہیں۔

وہ اسلام سے منھ موڑ کر کئی لوگوں کی نظروں میں 'ملحد' بن گئے۔

وہ نخلستان میں واقع علاقے ہفوف میں 1974 کے دوران پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہے۔ انھوں نے 32 سال کی عمر میں سعودی عرب چھوڑ کر یورپ جانے کا فیصلہ کیا۔

وہ سوشل میڈیا پر اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر متحرک رہے ہیں اور خود کو ماہرِ نفسیات اور سعودی عرب میں انسانی حقوق کی تحریک کا بانی کہتے ہیں۔ وہ 'سعودی ایکس مسلمز' کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں۔

انھوں نے ایک ویب سائٹ بنائی تاکہ ملک سے فرار ہو کر یورپ آنے والی سعودی خواتین کی مدد کی جا سکے۔

Reuters

سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانی سمگلنگ میں ملوث تھے۔ سعودی وزارت داخلہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس مبینہ حملہ آور سے متعلق ایک مفصل فائل ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران ایسی اطلاعات آئی ہیں کہ سعودی حکومت کے ایجنٹس کینیڈا، امریکہ اور جرمنی میں پناہ لینے والے شہریوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

کوئی شک نہیں کہ وفاقی اور ریاستی جرمن حکام نے عبدالمحسن کے کیس میں سنگین غلطیاں کیں اور کئی باتوں کو نظر انداز کیا۔

سعودی حکام کا دعویٰ ہے کہ عبدالمحسن کے انتہا پسند خیالات سے متعلق متعدد انتباہ پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ جواب نہ دینے کی کوئی بھی وجہ ہو لیکن ممکن ہے کہ عبدالمحسن میزبان ملک کے لیے خطرہ تھے۔

یہ کوتاہی بھی ہوئی کہ ماگڈیبرگ کے کرسمس بازار میں جانے کے لیے اس راستے کو بند نہ کیا جاسکا جو ایمرجنسی سروسز کے لیے مختص تھا۔ وہ مبینہ طور پر اسی راستے سے اپنی بی ایم ڈبلیو کار پر بھیڑ والے علاقے تک پہنچے۔

جرمن حکام نے مارکیٹ کے لیے سکیورٹی انتظامات کا دفاع کیا اور کہا کہ ملزم کے ماضی پر تحقیقات جاری ہے۔

مگر ایک پیچیدہ معاملہ یہ ہے کہ سعودی عرب، جسے مغرب کا دوست اور اتحادی سمجھا جاتا ہے، میں انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ ہے۔

جون 2018 تک سعودی خواتین پر کار چلانے پر پابندی تھی اور ماضی میں جو خواتین اسپابندی کے خلاف آواز اٹھاتی تھیں انھیں تشدد اور قید کی سزائیں دی جاتی تھیں۔

نوجوان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ملک میں کافی مقبول ہیں۔

تاہم ان پر 2018 میں صحافی اور ناقد جمال خاشقجی کے قتل کا الزام لگا تھا اور تب سے مغربی رہنماؤں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ سعودی ولی عہد اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں ان کا ستارہ آج بھی چمک رہا ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں روزمرہ کی عوامی زندگی بہتری کی طرف گئی ہے۔ مرد و خواتین اب آزادی سے میل جول کر سکتے ہیں، سینیما کھل چکے ہیں جبکہ کھیل اور تفریح کے عالمی مقابلوں کی میزبانی ہو رہی ہے۔

مگر یہاں ایک تضاد پایا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں شہری زندگی میں بہتری کے ساتھ ساتھ سیاسی و مذہبی آزادی کے خلاف کریک ڈاؤن بھی دیکھا گیا ہے۔

صرف ٹویٹس کی بنیاد پر لوگوں کو 10 سال یا اس سے زیادہ قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

ملک کس طرح چلایا جا رہا ہے، اس پر سوال اٹھانے کی کسی کو اجازت نہیں۔ بظاہر جرمنی نے اسی تناظر میں طالب عبدالمحسن کے کیس میں کوتاہی کی۔

جرمنی کی شہریت حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا ضروری شرط کیوں قرار دیا گیا؟معاویہ اعظم طارق: انسداد دہشتگردی کی فورتھ شیڈول لسٹ میں شامل رکن پنجاب اسمبلی یورپ کیسے پہنچے؟آئرلینڈ: وہ چھوٹا سا ملک جس کے لیے ’اضافی کیش‘ درد سر بن گیا، مگر اتنا پیسہ اس کے پاس آیا کہاں سے؟ ٹک ٹاک پر انڈین ڈانسر کی محبت میں گرفتار پولش خاتون: ’میرا بس چلے تو کل ہی شاداب سے شادی کر لوں‘وہ ملک جس کی کرنسی ردی اور جہاں ہر 15 گھنٹے بعد قیمتیں دگنی ہو جاتی تھیںعمان میں امام بارگاہ پر حملہ: ’گولیاں اس طرح برس رہی تھیں جیسے بارش ہو، بس قسمت تھی کہ مجھے گولی نہیں لگی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More