انگریز دور کے ضابطۂ فوجداری میں تبدیلی، کیا تفتیش کا طریقہ جدید ہو جائے گا؟

اردو نیوز  |  Dec 18, 2024

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے وزارت قانون کی ایما پر ملک کے ضابطہ فوجداری قانون میں ترمیم کی سفارشات منظور کر لی ہیں۔

منگل کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں ان سفارشات کو منظور کیا گیا جس کے بعد اب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

پاکستان میں نافذالعمل ضابطہ فوجداری کا قانون 1898 میں نو آبادیاتی نظام کے تحت انگریز دور میں لاگو کیا گیا تھا۔

کریمنل پروسیجر کوڈ یا ضابطہ فوجداری بنیادی طور پر ان قوانین کا مجموعہ ہے جو کسی بھی طرح کے جرائم میں ملوث افراد کو سزا دینے کا ایک تفصیلی طریق کار بتاتے ہیں۔

وفاقی کابینہ میں پیش کیے جانے والے ضابطہ فوجداری ترمیمی بل 2024 میں ایف آئی آر کے طریق کار کو سادہ کیا گیا ہے جبکہ اس نئے قانون کے تحت تفتیش میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو باقاعدہ قانون کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

اس سے پہلے آڈیو ویڈیو ثبوتوں کو الگ سے ثبوت کے طور پہ نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اسی طرح سے فرانزک تکنیک کو بھی اس بل میں قانونی سرپرستی حاصل ہو گئی ہے۔

اس میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی ٹرائل ایک سال سے زیادہ وقت نہیں لے سکے گا یعنی کہ عدالتوں کو ایک برس کے اندر اندر ہر صورت میں فیصلہ سنانا ہو گا۔

اس کے علاوہ تفتیشی افسر کے کردار کو تھوڑا کم کر کے پراسیکیوٹر کے کردار کو زیادہ کر دیا گیا ہے یعنی اگر عدالت میں کوئی چالان پیش ہوتا ہے تو وہ پراسیکیوٹر کی جانب سے رضامندی کے بعد ہی عدالت میں پیش ہو گا اور اس میں قانونی نقائص عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ٹھیک کیے جائیں گے۔

ترمیمی بل میں تفتیشی افسر کے کردار کو کم کر کے پراسیکیوٹر کے کردار کو زیادہ کر دیا گیا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)اس کے علاوہ 12 برس سے کم عمر افراد اور 70 برس سے زائد عمر کے افراد جن کی جسمانی اور ذہنی صحت کم ہے، ان کو اپنے بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے کسی بھی جگہ کا انتخاب کرنے کی سہولت حاصل ہو گی۔

اس سے پہلے عدالت میں بیان دینے کے لیے عدالت میں پیش ہونا ضروری تھا۔

اس قانون میں کی گئی ترمیم میں اب اگر انصاف کا عمل تاخیر کا شکار ہوتا ہے یا کوئی ذیلی عدالت کسی کیس کا فیصلہ تاخیر سے کرتی ہے تو اس کی ذمہ داری متعلقہ ہائی کورٹ پہ عائد کی جائے گی۔

اسی طرح سے ضمانتوں کے قانون میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ اگر پولیس تفتیش میں ملزم بے قصور ثابت ہوتا ہے تو وہ ضمانت کا حق دار ہو گا۔ اس سے پہلے یہ حق قانون میں موجود نہیں تھا۔

’ہم آج بھی پرانے دور میں رہ رہے ہیں‘

پاکستان میں فوجداری مقدمات کے ماہر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری آفتاب باجوہ کہتے ہیں کہ ’ہم تو یہی کہیں گے دیر آید درست آید انگریزوں کو گئے ہوئے ایک صدی ہونے والی ہے لیکن ہم آج بھی انہی کے وہ قوانین جو اس وقت متعلقہ تھے، چلا رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آپ خود دیکھیں برطانیہ میں وہ پرانے قوانین کب کے متروک ہو چکے ہیں۔ ان کا نظام انصاف ارتقائی منازل طے کرتا ہوا کہاں پہنچ چکا ہے اور ہم آج بھی اسی پرانے دور میں رہ رہے ہیں،‘

’میرے خیال میں یہ ابھی بہت کم ہے، ضابطہ فوجداری میں بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کو بھی بہتر بنانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو انصاف مل سکے۔‘

آفتاب باجوہ ایڈووکیٹ نے کہا ’ضابطہ فوجداری میں بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی ضرورت ہے‘ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)’پرانے نظام سے جان چھڑائی جائے‘

ضابطہ فوجداری کے ماہر وکیل اور سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار شمیم ملک کہتے ہیں کہ ’قانون میں ترمیم خوش آئند ہے لیکن اس وقت نظام انصاف کو ایک بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘

 ’ہمارا خیال ہے کہ جس طرح سے نظام انصاف کی کمزوریاں پچھلے کئی برسوں میں بلکہ دہائیوں میں سامنے آئی ہیں تو اتنا مواد موجود ہے جس میں بار ایسوسی ایشنز کی سفارشات بھی ہیں کہ ایسی قانون سازی کی جائے اور پرانے نظام سے جان چھڑائی جائے لیکن پھر بھی ہمارا خیال ہے کہ نہ کرنے سے تو جو ابھی کیا گیا ہے وہ بہتر ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More