’میں ویڈیوز دیکھنے کے لیے تیار ہوں‘: وہ لمحہ جب جزیل چشمہ اُتار کر اپنے شوہر اور ریپ کے 50 ملزمان کے خلاف عدالت آئیں

بی بی سی اردو  |  Dec 15, 2024

Reutersعدالتی کارروائی کے دوران جزیل نے اپنی تکلیف کے بارے میں کم ہی بات کی

انتباہ: اس تحریر میں شامل بعض تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

عدالتی کارروائی شروع ہونے سے قبل جزیل پیلکوٹ نے وہ چشمہ چہرے سے اُتار دیا جو وہ اپنی پہچان چھپانے کے لیے استعمال کرتی تھیں اور فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید گمنام نہیں رہنا چاہتیں۔

یہ جنوبی فرانس کے شہر آوینیو میں کوئی عام سا دن نہیں تھا۔ یہ وہ دن تھا جب ایک تکلیف میں مبتلا دادی نے ریپ کی شکار خاتون رہنا پسند نہیں کیا بلکہ وہ دنیا میں جرات اور مزاحمت کی علامت بن کر اُبھریں۔

جزیل کے 72 سالہ سابق شوہر ڈومینیک پیلکوٹ پر الزام ہے کہ وہ ایک دہائی تک اپنی بیوی کو نیند کی گولیاں دے کر بے ہوش کرتے رہے اور ان کا مختلف مردوں سے ریپ کرواتے رہے۔ اس مقدمے میں وہ 50 افراد بھی نامزد ہیں جن پر الزام ہے کہ انھوں نے ڈومینیک کے کہنے پر ان کی بیوی جزیل کا ریپ کیا۔

جزیل کے وکیل سٹیفن بابونوا اپنی مؤکلا کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’جزیل نے دو برسوں تک دھوپ سے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والا چشمہ اپنے چہرے پر لگائے رکھا تاکہ وہ اپنی پرائیویسی برقرار رکھ سکیں۔‘

'ایک ایسا وقت آیا جب جزیل کو لگا کہ انھیں اب اپنی حفاظت کرنے کی ضرورت نہیں۔ انھیں چشمہ لگا کر اپنی شناخت چھپانے کی ضرورت نہیں۔'

یہ ایک ’سادگی پسند اور نرم مزاج‘ خاتون کی زندگی کا اہم موڑ تھا جو کہ عدالتی کارروائی کی ابتدا کے وقت 'پریشان اور فکرمند' تھیں اور معاشرے کی نگاہ کی بھی ستائی ہوئی تھیں۔ انھیں 'اپنے ساتھ ہونے والے عمل پر اب بھی شرم محسوس ہوتی تھی۔'

عدالتی کارروائی کے دوران جزیل نے اپنی تکلیف کے بارے میں کم ہی بات کی۔ انھیں آوینیو کی عدالت کے باہر بہت ہی کم اپنے حامیوں کے سامنے بات کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

لیکن اب اپنی مؤکلا کی اجازت حاصل کرنے کے بعد وکیل سٹیفن بابونوا نے جزیل کی زندگی میں تبدیلی کے حوالے سے لب کشائی کی ہے۔

Getty Imagesجزیل اپنے وکیل سٹیفن بابونوا کے ساتھ’میں ویڈیوز دیکھنے کے لیے تیار ہوں‘

رواں برس مئی میں سٹیفن اور ان کے ساتھی انتھونی کموس 20 ہزار سے زائد ایسی تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھ رہے تھے جو پولیس کو سنہ 2020 میں ڈومینیک کے کمپیوٹر سے ملی تھیں۔

سٹیفن کہتے ہیں کہ وہ ایک 'تکلیف دہ' کام تھا لیکن ان ویڈیوز میں جو آوازیں تھیں وہ مزید دردناک تھیں۔

ان ویڈیوز کا ذکر کرتے ہوئے سٹیفن کہتے ہیں کہ 'ہم جزیل کے خراٹوں اور یہاں تک کے ان کی سانس کی آواز کو بھی سُن سکتے تھے، لیکن زیادہ پریشان کرنے والا احساس مردوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کے دوران جزیل کا دم گھٹنا تھا۔'

'لیکن یہ تمام آوازیں عدالت میں بطور ثبوت اہم تھیں۔'

سٹیفن کو معلوم تھا کہ ان ویڈیوز کے بغیر 'نہ جرم ثابت ہوسکے گا اور نہ کوئی کارروائی ہوگی۔'

جزیل کو بھی ان باتوں کا اندازہ تو تھا لیکن انھوں نے اپنی صحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان ویڈیوز کو دیکھنے سے انکار کر دیا تھا۔

لیکن ایک دن اچانک انھوں نے اپنے وکیل کو کہا کہ 'میں اب ان ویڈیوز کو دیکھنے کے لیے تیار ہوں۔'

جزیل دونوں وکیلوں کے ساتھ بیٹھ گئیں اور انھوں نے بہت ہی محتاط انداز میں بتایا کہ ویڈیوز میں نظر آنے والے مرد کون ہیں اور وہ ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ پھر اچانک سٹیفن نے ایک مرتبہ پھر پلے کا بٹن دبایا اور سکرین پر جزیل کے بیڈروم کی تصویر نمودار ہو گئی۔

جزیل اس وقت بالکل خاموش تھیں اور ویڈیوز کو دیکھ رہی تھیں۔ اچانک ہی انھوں نے دھیمی آواز میں پوچھا: 'وہ آخر میرے ساتھ ایسا کر کیسے سکتے ہیں؟'

کچھ دیر بعد انھوں نے سکرین پر نظر آنے والی مختلف ویڈیوز کے بارے میں بتانا شروع کر دیا: 'یہ میرے برتھ ڈے والی رات ہے۔۔۔ یہ سمندر کے کنارے واقع ہمارے گھر میں ہماری بیٹی کے بیڈ پر ہوا تھا۔'

اپنی بیوی کا اجنبیوں سے مبینہ ریپ کروانے والا شوہر: ’میری والدہ اس شخص کی دیکھ بھال کر رہی تھیں جس نے اُن کا ریپ کروایا‘اجنبیوں سے اپنی بیوی کا ریپ کروانے والا 71 سالہ شخص: وہ مقدمہ جس نے فرانس کو ہلا کر رکھ دیااجنبیوں سے اپنی بیوی کا مبینہ ریپ کروانے والا شوہر: ’تم تنہا مرو گے،‘ عدالت میں بیٹی کا ملزم والد سے تلخ مکالمہمیریٹل ریپ: ’وہ پورن فلمیں دیکھ کر وہی سب میرے ساتھ دہرانے کی کوشش کرتا‘

سٹیفن کو یاد ہے کہ اس وقت جزیل شدید غصے میں تھیں لیکن وہ کبھی روئی نہیں۔ اپنے ڈاکٹر کی مدد سے وہ 'اپنے سامنے نظر آنے والی چیزوں اور اپنی ذہنی صحت کے درمیان فاصلہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔'

جزیل کے وکیل کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب ان کی مؤکلا ایک 'بڑے امتحان' میں پاس ہو گئی تھیں اور انھوں نے اپنا 'ذہنی توازن' واپس حاصل کر لیا تھا جو چار سال قبل ان کے سابق شوہر کے عمل کے سبب تباہ ہوا تھا۔

اب وہ عدلت میں ایک مشکل اور کٹھن کارروائی کا حصہ بننے کے لیے تیار تھیں۔

جزیل خود بھی اپنے سابق شوہر کے پاس سے برآمد ہونے والی ویڈیوز دیکھنا چاہتی تھیں تاکہ وہ یہ جان پائیں کہ ان میں نظر آنے والے مرد کون ہیں اور اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر پائیں جو نشہ آور ادویات کے سبب پیدا ہوا تھا۔

سٹیفن کہتے ہیں کہ ان ویڈیوز کو دیکھ کر 'وہ تمام چیزیں ان کے ذہن میں آ گئیں جو کہ کہیں گُم ہو گئیں تھیں۔'

جزیل اس وقت ضرور تشویش کا شکار ہوئیں جب انھیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ یہ ویڈیوز عدالتی کارروائی کے دوران سکرین پر چلانی چاہییں یا نہیں۔

سٹیفن کہتے ہیں کہ جزیل اس وقت شدید غصے میں تھیں، وہ دنیا کو بدلنے کے بارے میں نہیں سوچ رہی تھیں بلکہ انھیں صرف اس بات کی فکر تھی کہ انھیں درجنوں ریپ کے ملزمان کے ساتھ ایک بند کمرہ عدالت میں بیٹھنا پڑے گا۔ ان کے لیے پبلک ٹرائل زیادہ آرام دہ تھا۔

عدالت میں مقدمے کی پہلی سماعت جزیل کے لیے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ انھوں نے اپنے چہرے پر چشمہ لگایا ہوا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب وہ پہلی مرتبہ مرتبہ منظرِ عام پر آئیں۔

معاملات اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئے جب ان کے وکیل نے دیکھا کہ انھیں ریپ کا نشانہ بنانے والے افراد بھی منھ پر ماسک لگائے عدالت کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔ جزیل کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ تمام افراد انھیں اپنے گھیرے میں لے رہے ہیں، انھیں اپنی کہنیوں سے دھکا دے کر آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سٹیفن کہتے ہیں کہ 'جزیل کے لیے وہ ایک پریشان کُن وقت تھا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران تھیں کہ ان افراد کے لیے یہ کتنی عام سے بات ہے۔'

Getty Imagesعدالتی کارروائی شروع ہونے سے قبل جزیل پیلکوٹ نے وہ چشمہ چہرے سے اُتار دیا جو وہ اپنی پہچان چھپانے کے لیے استعمال کرتی تھیں اور فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید گمنام نہیں رہنا چاہتیں

پھر وہ وقت بھی آ گیا جب تقریباً چار برسوں میں پہلی مرتبہ جزیل اور ڈومینیک کا ایک بھرے ہوئے کمرہ عدالت میں سامنا ہوا۔ ان کی نشستیں ایسے لگائی گئی تھیں کہ دونوں کا آمنا سامنا ناگزیر تھا۔

سٹیفن کہتے ہیں کہ 'میں نے دیکھا وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔' اس سے قبل جزیل اپنے وکیلوں کو بتا چکی تھیں کہ وہ پہلی عدالتی سماعت میں کس طرح کا رویہ اختیار کریں گی۔

جزیل کے وکیل کہتے ہیں کہ 'ہمیں معلوم ہے کہ عدالت میں تمام ثبوت پیش کرنے کے بعد ڈومینیک نے اپنے تمام جرائم کا اعتراف کیا تھا اور اپنے خاندان سے معافی بھی مانگی تھی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جزیل نے ان کی معافی کی درخواست مسترد کر دی تھی۔'

'یہ بات یقینی ہے کہ وہ اپنے سابق شوہر کو کبھی معاف نہیں کر سکتیں۔'

سٹیفن کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا جوڑا تھا جو 50 برسوں سے زائد شادی کے بندھن میں بندھا رہا اور وہ دورانِ سماعت اپنے ماضی سے بےخبر تو نہیں بیٹھ سکتے تھے۔

وکیل نے جزیل اور ڈومینیک کے درمیان کیا باتیں سنیں؟

سٹیفن کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے دونوں ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوں 'دیکھو ہم کہاں آگئے؟'

وہ کہتے ہیں کہ جزیل اور ڈومینیک شاید بے یقینی کا شکار تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے دو تماشائی کسی اجنبیوں کی تکلیف دہ کہانی سُن رہے ہوں۔

عدالتی کارروائی کے دوران ملزمان کے وکیلوں نے مختلف طریقوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جزیل بہت پُرسکون ہیں اور وہ روئی نہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہوا تھا۔

سٹیفن کہتے ہیں کہ 'چاہے متاثرہ فرد روئے یا نہ روئے ہمیشہ تنقید اسی پر ہوتی ہے۔'

تاہم عدالتوں میں اس کردار کشی کے باوجود بھی جزیل نے اپنے وکیلوں کو کہا کہ وہ فکرمند نہ ہوں۔

ان کی ایک بنیادی وجہ تھی: ملزمان کے وکیلوں نے عدالت میں جو بھی کہا وہ اس لمحے سے زیادہ تکلیف دہ تو نہیں ہوسکتا جو نومبر 2020 میں آیا تھا جب پولیس نے ان کو وہ پہلی ویڈیو دکھائی تھی جو ڈومینیک کے کمپیوٹر سے برآمد ہوئی تھی۔

Getty Imagesعدالتی کارروائی کے دوران جزیل نے اپنی تکلیف کے بارے میں کم ہی بات کی۔ انھیں آوینیو کی عدالت کے باہر بہت ہی کم اپنے حامیوں کے سامنے بات کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا

سٹیفن کہتے ہیں کہ جزیل نے انھیں کہا کہ 'میں نے 4 نومبر 2020 کا دن بھی برداشت کیا تھا، اب میں اس پریشانی کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔'

'معاشرے میں تبدیلی لانے کا موقع'

عدالتی کارروائی کے دوران جزیل اس مقدمے میں لوگوں اور سوشل میڈیا کی دلچسپی سے بھی پریشان نہیں تھیں بلکہ ان کے وکیلوں کی توقعات کے برخلاف وہ اس وقت بہت پُرعزم تھیں۔ انھیں خطوط موصول ہو رہے تھے، تحائف مل رہے تھے اور لوگ ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔

سٹیفن کہتے ہیں کہ 'جب انھیں یہ خطوط موصول ہونا شروع ہوئے تو انھیں لگا کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کا شکار دیگر افراد کے لیے بھی کھڑی ہوں۔'

وکیل کے مطابق یہ مقدمہ اس لیے منفرد تھا کیونکہ تمام جرائم کی ویڈیوز موجود تھیں اور اس کا مطلب یہ تھا کہ 'اب یہ مقدمہ صرف متاثرہ فرد اور مجرم کے درمیان نہیں تھا بلکہ یہ معاشرے میں تبدیلی لانے کا موقع تھا۔'

جزیل نے اپنے وکیل کو بتایا کہ 'میں خوش قسمت ہوں کہ میرے پاس ثبوت ہیں، میرے پاس دستاویزات ہیں جو کہ ایک غیرمعمولی بات ہے۔ اب میرے پاس موقع ہے کہ میں ان جرائم کے خلاف تمام متاثرہ افراد کا دفاع کروں۔'

سٹیفن کہتے ہیں کہ جزیل کا ارادہ انسانی حقوق کی کارکن بننے کا نہیں تھا بس وہ چاہتی تھیں کہ دیگر خواتین کو بھی ان جرائم کے خلاف آگاہی دی جا سکے تاکہ وہ بھی آگے بڑھ کر اپنے لیے آواز بلند کر سکیں۔

شاید آئندہ مہنیوں میں کچھ انٹرویوز دے کر جزیل اپنی خاموشی توڑ دیں لیکن سٹیفن کہتے ہیں کہ ان کی مؤکلا 'ایک سادہ اور انفرادی زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔'

شاید وہ کبھی اپنے شوہر کو معاف نہ کرپائیں لیکن وہ کوئی طریقہ ڈھونڈیں گی جس کے سبب وہ اس رشتے کی اچھی یادیں اپنے دماغ میں زندہ رکھ سکیں۔

کچھ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈومینیک ذہنی بیماری کا شکار ہیں جن کی دو شخصیات تھیں: جس کی ایک خفیہ اور گندی زندگی بھی تھی اور ایک وہ جو ایک مطمئن خاندانی شخص تھا۔

لیکن جزیل کہتی ہیں کہ: 'ڈومینیک کے اندر دو مرد تھے لیکن جزیل صرف ایک کو جانتی تھی۔'

’وہ سیکس حادثہ تھا‘: ارب پتی تاجر کا بیٹا جو اپنی دوست کے ریپ اور قتل کیس میں 15 سال سے روپوش ہے’جب معلوم ہوا کہ سیکس کے دوران کنڈوم اتار دینا ریپ ہے تو میری سانس رُک گئی‘سوڈان میں خانہ جنگی: ’میں نے کہا میری بیٹیوں کو چھوڑ دو اور مجھے ریپ کر لو‘’میری بیٹی آپ کو انکل سمجھتی تھی، آپ نے اسے کھلونے کی طرح استعمال کیا': آسٹریلیا میں درجنوں بچیوں کے ریپ کے مجرم کو عمر قیدانڈیا میں بیویوں کے ریپ پر مردوں کو سخت سزائیں دینے کی مخالفت کیوں؟اپر چترال میں قوت گویائی اور سماعت سے محروم خاتون کا ریپ کرنے والا ملزم دس ماہ بعد کیسے پکڑا گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More