جب راج کپور کو بستر مرگ پر دیکھ کر دلیپ کمار نے انھیں پشاور جا کر کباب کھانے کا کہا

بی بی سی اردو  |  Dec 14, 2024

جس طرح آج کی نسل شاہ رخ، عامر اور سلمان خان کو سٹار کے طور پر جانتی ہے، اسی طرح 50 اور 60 کی دہائی میں دیو آنند، دلیپ کمار اور راج کپور مشہور تھے۔

دیو آنند، دلیپ کمار اور راج کپور نے 40 کی دہائی میں تقریباً ایک ساتھ اپنے کریئر کی شروعات کی، کامیابیوں کے زینے ایک ساتھ چڑھے اور دوستی بھی برقرار رکھی۔

زمانہ ایک ہی تھا لیکن تینوں کے انداز الگ تھے۔

آج یعنی 14 دسمبر راج کپور کا 100واں یوم پیدائش ہے۔ اس لیے آج کا دن ماضی کے ان سٹارز کی زندگی، ان کی دوستی اور ان کے درمیان اختلافات کو یاد کرنے کا اچھا موقع ہے۔

اپنی کتاب ’کھلم کھلا‘ میں راج کپور کے بیٹے اور معروف اداکار رشی کپور نے ان تینوں کے درمیان تعلق اور ان کے درمیان اختلافات کی وضاحت کی۔

رشی کپور لکھتے ہیں کہ ’چمپو (راجیو کپور) کی شادی 1999 میں ہوئی تھی۔ میری ماں نے کہا کہ ہمیں جا کر یوسف صاب (دلیپ کمار) اور دیو آنند کو کارڈ دینا چاہیے۔ دونوں میں کتنا فرق تھا۔ ہم یوسف صاحب سے ملے اور انھوں نے ہمیں راج صاب اور اپنی بہت سی کہانیاں سنائیں۔ ہم دو گھنٹے تک بیٹھے رہے۔ بہترین مہمان نوازی کے بعد باہر نکلے تو یوسف صاحب نے کہا کہ وہ شادی میں تشریف لائیں گے۔‘

’وہاں سے ہم سیدھے دیو صاحب کے گھر گئے۔ یوسف صاب کا گھر تہذیب و ثقافت کا مرقع تھا جبکہ دیو صاب کا کمرہ ہالی وڈ کی کتابوں سے بھرا ہوا تھا، ہر چیز امریکی۔ اچانک دیو آنند اندر آتے ہیں۔ زرد پینٹ، نارنجی شرٹ، سبز سویٹر اور گلے میں مفلر ڈالے۔ ہمیں دیکھ کر انھوں نے کہا کہ ارے لڑکے، کیسے ہو؟ تم لوگ بہت اچھے لگ رہے ہو۔‘

’انھیں جب یہ معلوم ہوا کہ ہم کیوں آئے ہیں تو انھوں نے کہا اچھا ہے شادی کر لو، گرل فرینڈ بنا لو۔ آپ لوگوں کی گرل فرینڈ ہے یا نہیں؟ وہ اتنے ہی بے باک تھے۔‘

راج کپور، دیو آنند اور دلیپ کمار کی ایسی بہت سی کہانیوں سے کتابیں اور رسالے بھرے پڑے ہیں۔

مختلف انداز

جب دلیپ کمار سنہ 1944 میں فلم ’جوار بھاٹا‘ سے فلموں میں ابتدا کر رہے تھے تو اسی وقت لاہور سے آنے والے دیو آنند ہیرو بننے کے خواب سجائے بمبئی میں جدوجہد کر رہے تھے۔

جلد ہی 1946 میں ان کی فلم ’ہم ایک ہیں‘ ریلیز ہوئی اور ایک سال بعد 1947 میں نیلی آنکھوں والے راج کپور کی فلم ’نیل کمل‘ آئی۔

دیو آنند کی بات کریں تو انھیں ہندی سنیما کا پہلا ’شہری ہیرو‘ کہا جاتا ہے۔ جب ہم ان کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ایک سجیلا، فیشن کرنے والے شہری لڑکے کی تصویر ذہن میں ابھرتی ہے۔

’انسانیت‘ جیسی ایک یا دو فلموں کو چھوڑ کر آپ نے دیو آنند کو گاؤں کے لڑکے کے کردار میں کم ہی دیکھا ہوگا۔ وہ اپنے بے ساختہ انداز کے لیے مشہور تھے۔

دلیپ کمار کو ’ٹریجڈی کنگ‘ کہا جاتا ہے۔ کبھی ’دیوداس‘ میں خود کو تباہ کرنے والے عاشق کے طور پر اور کبھی فلم میلہ (1948) میں ایک جدا ہوئے عاشق کے کردار میں جو بالآخر موت کو گلے لگا لیتا ہے۔

تاہم دلیپ کمار نے ’کوہ نور‘ جیسی کامیڈی فلمیں بھی کیں۔ میتھڈ ایکٹنگ دلیپ کمار کی خاصیت تھی لیکن وہ سکرین پر بہت آرام دہ نظر آتے تھے۔

1960 کی فلم ’کوہ نور‘ کا وہ واقعہ مشہور ہے جب دلیپ کمار نے ’مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے‘ گيت کے لیے ستار بجانا سیکھا۔

جب فلم کی شوٹنگ جاری تھی تو اسی دوران دلیپ صاحب استاد عبدالحلیم جعفر خان سے تربیت بھی لے رہے تھے۔

جب دلیپ کمار پر ’پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام‘ لگا اور نشانِ امتیاز ملنے پر ہنگامہ برپا ہواجب سوویت یونین میں نہرو کا استقبال ’آوارہ ہوں‘ کے نعروں سے ہواجب پاکستانی فوجی راج کپور سے ملنے جلیبیاں لے کر سرحد پر آئے’ہم تم اک کمرے میں بند ہوں‘: وہ فلم جس نے ڈمپل اور رشی کپور کو راتوں رات سٹار بنا دیا

شاید ان دونوں کے درمیان کہیں راج کپور تھے جنھوں نے خود کو چارلی چپلن کے سادہ لوح کردار میں ڈھالا ہوا تھا یا یوں کہہ لیں کہ عوام نے انھیں ڈھالا۔

راج کپور 50 کی دہائی میں ہندی فلموں کو عالمی سطح پر لے جانے والے سٹار تھے۔

راج کپور خود دلیپ کمار کو کیا سمجھتے تھے اس کا ذکر دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں کیا۔

دلیپ کمار لکھتے ہیں کہ ’یہ 1980 کی بات ہے جب فلم ’پریم روگ‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ ہدایتکار راج کپور، اداکار رشی کپور کے چہرے پر شکست خوردہ عاشق کی مایوسی، اداسی اور بے بسی دیکھنا چاہتے تھے لیکن بار بار کوشش کرنے کے باوجود راج کپور رشی کپور کے چہرے پر وہ تاثرات نہیں دیکھ پا رہے تھے۔‘

راج کپور کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور پوری یونٹ کے سامنے انھوں نے رشی کپور کو چیخ کر کہا کہ ’مجھے یوسف چاہیے، مجھے چہرے پر وہی درد چاہیے جو یوسف کی آنکھوں میں اس طرح کا شاٹ دیتے ہوئے ہو گا۔۔۔ وہی صداقت۔‘

راج کپور یوسف خان یعنی دلیپ کمار کی بات کر رہے تھے۔

دیو آنند اور دلیپ کمارکی فلم ’انسانیت‘

تینوں اداکاروں نے 50 اور 60 کی دہائی پر راج کیا لیکن شائقین کو کبھی بھی تینوں کو ایک ساتھ دیکھنے کا موقع نہیں ملا حالانکہ فلم ’انداز‘ میں دلیپ کمار اور راج کپور دونوں ہی تھے۔

1955 میں دیو آنند اور دلیپ کمار نے ایک ساتھ فلم ’انسانیت‘ کام کیا۔ یہ شاید واحد فلم تھی جس میں دونوں ایک ساتھ نظر آئے تھے اور یہ شاید ان چند فلموں میں سے ایک ہو گی جہاں آپ دیو آنند کو گاؤں کے ماحول میں دھوتی اور کُرتے میں دیکھ سکتے ہیں لیکن دو بڑے ستاروں والی یہ فلم کامیاب نہ ہو سکی۔

دیو، راج اور دلیپ کی دوستی

ظاہر ہے تینوں ستاروں کے درمیان مقابلہ تھا لیکن بے مثال دوستی بھی تھی اور جہاں دوستی ہے وہاں غلط فہمیوں کی گنجائش رہتی ہے۔

دیو آنند نے اپنی سوانح عمری ’رومانسنگ ود لائف‘ میں اس کا حوالہ دیا، جہاں وہ زینت امان اور راج کپور کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

دیو آنند نے لکھا کہ ’میں زینت امان کو فلموں میں لے کر آیا۔ ایک وقت میں مجھے محسوس ہونے لگا کہ مجھے اس سے پیار ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ میں اسے اپنے جذبات سے آگاہ کروں۔ میں اسے پارٹی سے لینے گیا لیکن وہاں راج کپور کی پہلی ملاقات زینت سے ہوئی اور اس نے اپنے بازو اس کے گرد ڈال دیے۔ ایسا لگتا تھا کہ شاید یہ پہلی بار نہیں ہو۔ زینت نے جس طرح سے اس کا جواب دیا وہ بھی خاص لگ رہا تھا۔ زینت نے راج کے پاؤں چھوئے۔ راج نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھاما، جیسے وہ کسی غلط کام کی تلافی کر رہا ہوں۔ مجھے شک ہونے لگا۔‘

’میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں نے ایک ایسے رشتے کو الوداع کہنے کا فیصلہ کر لیا جس میں دونوں طرف سے کوئی وابستگی نہیں تھی لیکن ایمانداری تھی۔‘

تاہم زینت امان نے ان تمام باتوں کی تردید کی اور 2023 میں اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا کہ ’جب میں نے اپنے کریئر کا آغاز کیا تو وہ دلیپ کمار، دیو صاحب اور راج کپور کا سنہری دور تھا۔ راج کپور جی کی فلم کے لیے منتخب ہونا بڑی بات تھی لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ دیو صاحب ان باتوں کو غلط سمجھ لیں گے۔ مجھے بہت غصہ آیا جب دیو صاحب کی کتاب سامنے آئی جہاں انھوں نے اشارہ کیا کہ راج جی اور میرے درمیان ڈائریکٹر اور ہیروئن کے رشتے سے زیادہ کچھ تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دیو آنند ایک نایاب ٹیلنٹ تھے جن کے لیے میرے دل میں صرف احترام ہے۔ میں دیو صاحب کے نام کی توہین برداشت نہیں کر سکتی۔‘

تاہم دیو آنند نے یہ باتیں راج کپور کی موت کے کئی سال بعد اپنی سوانح عمری میں لکھیں اور عوامی طور پر کبھی کچھ نہیں کہا۔

راج کپور کی شہرت سے نہرو بھی حیران

دیو آنند اپنی کتاب میں راج کپور کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’ہم ایک ساتھ سوویت یونین گئے تھے۔ وہاں راج کپور ہم سب میں مقبول شخصیت تھے۔ ہم جہاں بھی جاتے، ہر کوئی مطالبہ کرتا تھا کہ راج کپور گائیں۔ وہ پیانو کے سٹول پر بیٹھ کر پورے جوش و خروش سے گاتے تھے اور لوگ انھیں ووڈکا کے گلاس دیتے تھے۔‘

’جب جواہر لعل نہرو بھی پہلی بار سوویت یونین گئے تو وہ بھی راج کپور کی مقبولیت کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہو گئے۔ بعد میں ہندوستان میں ایک پروگرام میں پنڈت جی نے ہم تینوں یعنی مجھے، راج اور دلیپ کو بلایا اور ہمیں اپنی بانہوں میں لے لیا۔‘

دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں دیو آنند اور راج کپور کے ساتھ اپنی دوستی کے کئی قصے بیان کیے ہیں۔

یہ تینوں سٹارز غیر منقسم ہندوستان کے ان حصوں میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان میں ہیں۔ دیو آنند کا تعلق گرداسپور سے تھا جبکہ راج کپور اور دلیپ کمار کا تعلق پشاور سے تھا۔

دلیپ کمار کی کتاب پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ان تینوں میں مقابلہ تھا تو عزت اور محبت کا رشتہ بھی تھا۔

راج کپور اکثر میڈیا کو انٹرویوز میں کہا کرتے تھے کہ دلیپ کی شادی پر وہ گھٹنوں کے بل ان کے گھر جائیں گے اور جب دلیپ کمار کی شادی ہوئی تو اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے وہ واقعی گھٹنوں کے بل دلیپ کمار کے گھر گئے۔

جب راج کپور اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے تو دلیپ کمار ان سے ملنے گئے۔

رشی کپور نے اس کا ذکر کچھ یوں کیا کہ ’راج صاحب کی حالت نازک تھی۔ دلیپ چچا راج صاحب کے کمرے میں گئے اور بولے کہ دیکھو راج، میں ابھی پشاور سے آیا ہوں۔۔۔ تمہارے لیے وہاں سے چپلی کباب کی خوشبو اپنے ساتھ لایا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے پشاور جائیں گے، گلیوں میں گھومیں گے، پرانے زمانے کی طرح کبابوں اور روٹیوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ راج تم مجھے پشاور میں اپنے گھر کے صحن میں لے چلو گے۔‘

لیکن اس دن راج کپور نے اپنے دوست کی درخواست کو بھی نظر انداز کر دیا۔

تینوں دوست اپنے اپنے کردار میں ایک صدی کا فاصلہ طے کر چکے ہیں اور شاید یہ تینوں اپنے اپنے انداز میں یہ سالگرہ منا رہے ہوں گے۔

دیو آنند شاید اپنی پریشانیاں ہوا میں اڑا رہے ہوں گے، دلیپ کمار کہیں خوشگوار سفر اور خوبصورت موسم سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور راج کپور آج بھی ’میرا جوتا ہے جاپانی، یہ پتلون انگلستانی، سر پر لال ٹوپی روسی، پھر بھی دل ہے ہندوستانی‘ گا رہے ہوں گے۔

’ہم تم اک کمرے میں بند ہوں‘: وہ فلم جس نے ڈمپل اور رشی کپور کو راتوں رات سٹار بنا دیاجب پاکستانی فوجی راج کپور سے ملنے جلیبیاں لے کر سرحد پر آئےجب سوویت یونین میں نہرو کا استقبال ’آوارہ ہوں‘ کے نعروں سے ہواجب دلیپ کمار پر ’پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام‘ لگا اور نشانِ امتیاز ملنے پر ہنگامہ برپا ہوالاہوری دوستوں کو اپنی ہیرامنڈی کا تشخص ’مسخ‘ ہونے کا قلقبھوت بنگلہ جو سپر سٹار راجیش کھنہ کے لیے خوش قسمتی کا در ثابت ہوا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More