’باہر اللہ اکبر کی صدا سن کر جیل سے ننگے پاؤں بھاگے‘: شام کی بدنام صیدنایا جیل سے رہائی پانے والے قیدیوں کی کہانی

بی بی سی اردو  |  Dec 14, 2024

BBC

تنبیہ: اس تحریر کے کچھ حصہ قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتے ہیں۔

یہ شام میں بشار الاسد کی حکومت گِرنے کا فیصلہ کن لمحہ تھا جب باغیوں نے ملک کی بدنام جیلوں سے قیدیوں کو رہا کرایا۔ بی بی سی نے یہاں سے رہا ہونے والے چار قیدیوں سے بات کی ہے جنھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سنائی۔

اپنے قید خانے کے باہر چیخ و پکار سن کر قیدی سہم کر بیٹھ گئے۔

ایک شخص کی آواز سنائی دی کہ ’کوئی ہے؟‘ مگر وہ ڈر کی وجہ سے جواب دینے سے کترائے۔

برسوں تک انھیں یہ بات اچھے سے سمجھ آ چکی تھی کہ دروازہ کھلنے کا مطلب مار پیٹ، ریپ اور دیگر سزائیں ہیں مگر اس روز اس شور کا مطلب آزادی تھا۔

’اللہ اکبر‘ کی پکار کے ساتھ قیدی نے آہنی دروازے میں ایک سوراخ سے باہر دیکھا۔ انھیں باہر گارڈز کی بجائے باغی نظر آئے۔

30 سالہ قیدی قاسم القبلانی بتاتے ہیں کہ ’ہم نے کہا ہم ادھر ہیں، ہمیں آزاد کرائیں۔‘

دروازے کو گولی مار کر کھولا گیا اور قاسم ’ننگے پیر باہر کی طرف بھاگے۔‘

دیگر قیدیوں کی طرح انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور بس بھاگتے رہے۔

31 سالہ عدنان احمد غانم کہتے ہیں کہ ’وہ ہمیں آزاد کرانے آئے اور کہا کہ سب باہر نکلو، سب باہر نکلو۔ میں جیل سے باہر بھاگا لیکن اتنا ڈرا ہوا تھا کہ پیچھے مڑ کر دیکھا کیونکہ مجھے لگا وہ مجھے دوبارہ جیل میں ڈال دیں گے۔‘

انھیں معلوم نہیں تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد ملک سے جا چکے ہیں اور ان کی حکومت گِر چکی ہے مگر جلد ہی یہ خبر ان تک پہنچ گئی۔

عدنان یاد کرتے ہیں کہ ’یہ میری زندگی کا بہترین دن تھا۔ یہ احساس ناقابل بیان ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے کوئی موت کے منھ سے نکلا ہو۔‘

قاسم اور عدنان اِن چار قیدیوں میں سے تھے جنھوں نے صيدنايا جیل سے رہائی کے بعد بی بی سی سے بات چیت کی۔

یہ قید خانہ اتنا بدنام ہے کہ اسے ’انسانی مذبح خانہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

سبھی سابقہ قیدیوں نے اس جیل میں گارڈز کی طرف سے تشدد، ساتھی قیدیوں کے قتل، جیل حکام کی کرپشن اور جبری اعتراف کی داستانیں سنائی ہیں۔

ہمیں ایک سابقہ قیدی کا جیل سیل بھی دکھایا جبکہ صیدنایا میں قید کیے گئے لاپتہ افراد کے اہلخانہ بھی جواب تلاش کر رہے ہیں۔

BBCعدنان احمد غانم کہتے ہیں کہ میں جیل سے باہر بھاگا لیکن اتنا ڈرا ہوا تھا کہ پیچھے مڑ کر دیکھا کیونکہ مجھے لگا وہ مجھے دوبارہ جیل میں ڈال دیں گے

ایک فوجی ہسپتال میں باغی جنگجوؤں کو کئی لاشیں بھی ملی ہیں۔ خیال ہے کہ یہ صیدنایا کے قیدیوں کی ہیں اور ڈاکٹروں نے ان پر ہونے والے تشدد کی نشاندہی کی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان جرائم پر شام کے قوانین کے تحت انصاف کا مطالبہ کیا ہے اور سیاسی قیدیوں کے علاج کی بات کی ہے۔ اس کی 2017 کی رپورٹ میں حکام پر الزام لگایا گیا تھا کہ صیدنایا جیل میں قیدیوں پر تشدد ہوتا اور انھیں قتل کیا جاتا ہے۔

صیدنایا جیل کے گرد خاردار تاریں نصب ہیں اور یہ ایک پہاڑ کی بنجر زمین پر واقع بڑا کملیکس ہے۔ اسے 1980 کی دہائی کے اوائل میں تعمیر کیا گیا اور یہ دہائیوں تک اسد خاندان کے مخالفین کو قید کرنے کے لیے استعمال ہوا۔

2011 کے مظاہروں کے بعد اسے ملک کا مرکزی سیاسی قید خانہ قرار دیا جاتا ہے۔ ترکی میں قائم سماجی تنظیم نے اسے ’ڈیتھ کیمپ‘ کا لقب دیا تھا۔

قیدیوں نے ہمیں بتایا کہ انھیں اسد کی مخالف تنظیم ’فری سریئن آرمی‘ سے اصل یا فرضی تعلق کی بنا پر صیدنایا جیل بھیجا گیا۔ بعض لوگوں کو اس لیے بھی یہاں قید کیا گیا کیونکہ جس علاقے میں وہ رہتے تھے وہاں اسد خاندان کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔

بعض قیدیوں پر اغوا، فوجیوں کے قتل اور دہشتگردی جیسے سنگین الزام عائد کیے گئے۔ سبھی کا کہنا ہے کہ ان پر تشدد کر کے یا دباؤ سے اعتراف لیے گئے۔

انھیں طویل قید اور موت کی سزائیں سنائی گئیں۔ ایک قیدی نے کہا کہ انھیں چار سال سے یہاں رکھا گیا مگر کبھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔

ان لوگوں کو جیل کی سرخ عمارت میں رکھا گیا جو مخالفین کے لیے مختص تھی۔

BBCایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2017 کی رپورٹ میں حکام پر الزام لگایا گیا تھا کہ صیدنایا جیل میں قیدیوں پر تشدد ہوتا ہے

قاسم کہتے ہیں کہ 2016 میں انھیں ایک سڑک سے رکاوٹ کے باوجود گزرنے پر گرفتار کیا گیا اور ان پر آزاد ’فری سریئن آرمی‘ کے لیے دہشتگردی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ انھیں کئی حراستی مراکز بھیجا گیا اور بعد میں صیدنایا جیل منتقل کر دیا گیا۔

دمشق کے جنوب میں واقع ایک قصبے میں اپنے آبائی گھر سے انٹرویو دیکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اس دروازے سے گزرنے کے بعد آپ ایک مردہ شخص ہوتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں تشدد شروع ہوتا ہے۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ تصویر بنانے کے لیے انھیں برہنہ کیا گیا اور تشدد کر کے کیمرے کی طرف دیکھنے کا کہا گیا۔ اس کے بعد انھیں ایک زنجیر سے باندھ کر دیگر قیدیوں کے ساتھ لے جایا گیا۔ ان کے چہرے زمین کی طرف تھے۔

انھیں دیگر پانچ مردوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے سیل میں رکھا گیا۔ انھیں پہننے کے لیے یونیفارم ملا مگر کئی روز تک کھانا یا پانی نہیں دیا گیا۔

پھر انھیں جیل کے مرکزی سیل میں لے جایا گیا جہاں کمروں میں کوئی بیڈ نہیں اور ایک بلب ہے۔ کنارے پر چھوٹا سا ٹوائلٹ ایریا مختص ہے۔

جب ہم نے رواں ہفتے جیل کا دورہ کیا تو وہاں جیل کے فرش پر کمبل، کپڑے اور کھانا گِرا پڑا تھا۔ 2019 سے 2022 تک اس جیل میں رہنے والے ایک شخص نے ہمیں اپنا سیل دکھایا۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی جیل میں ان کی دو انگلیاں اور انگوٹھا کاٹ دیا گیا تھا۔

کوڈز والے زیرِ زمین قید خانے: دمشق میں ’انسانی مذبح خانہ‘ قرار دی گئی صیدنایا جیل کی کہانیاںابو محمد الجولانی: شامی فوج کو ’حیران کن‘ شکست دینے والے گروہ کے ’پراسرار‘ سربراہعقوبت خانے، بارودی سرنگیں اور خفیہ فائلیں: شام کی سکیورٹی ایجنسیوں کے دفاتر میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟ شام پر ایرانی قرض کتنا ہے اور بشار الاسد کے جانے کے بعد یہ کون واپس کرے گا؟BBC

انھوں نے جیل کی دیواروں پر کھرونچنے کے نشانات دکھائے جو انھوں نے ہی بنائے تھے۔ وہ یہ منظر دیکھ کر جھک گئے اور رونے لگے۔

ہر کمرے میں قریب 20 آدمی سوتے تھے مگر اس کے باوجود ایک دوسرے کو جاننا مشکل تھا۔ وہ صرف مدھم آوازوں میں بات کر سکتے تھے کیونکہ پہرے پر موجود گارڈز سب کچھ دیکھ اور سن سکتے تھے۔

قاسم کہتے ہیں کہ ’ہر چیز پر پابندی تھی۔ آپ کو صرف کھانے، پینے، سونے اور مرنے کی اجازت تھی۔‘

صیدنایا میں مسلسل پُرتشدد سزائیں ملتی تھیں۔ ہمیں سابقہ قیدیوں نے بتایا کہ انھیں دھات کے سامان، کیبل اور الیکٹرک چھڑی سے پیٹا جاتا تھا۔

عدنان کو 2019 کے دوران ایک فوجی کے اغوا اور قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ کمرے میں داخل ہوتے اور ہمیں پورے جسم پر ضربیں لگاتے۔ میں سہم کر بیٹھا دیکھتا تھا اور اپنی باری کا انتظار کرتا تھا۔‘

’ہر رات ہم خدا کا شکر ادا کرتے کہ ہم زندہ ہیں۔ ہر صبح ہم دعا مانگتے کہ ہمیں چین سے مرنے دیا جائے۔‘

BBCقاسم کا کہنا ہے کہ جب ان کے خاندان نے گارڈز کو پیسے دیے تو پھر ان کے ساتھ جیل میں ان اہلکاروں کے رویے میں بہتری دیکھنے میں آئی

عدنان اور دیگر دو نئے رہا ہونے والے قیدیوں نے بتایا کہ ان کو بعض اوقات گھٹنوں کے بل سر موڑ کر بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا اور دوران بیچ میں سے چھڑی گزاری جاتی تاکہ وہ حرکت نہ کر سکیں اور پھر مار پیٹ سے قبل ان کے جسموں پر سے گاڑی کا ٹائر گزارا جاتا تھا۔

ہر کسی کے لیے سزاؤں کی شکلیں مختلف ہوا کرتی تھیں۔

قاسم نے بتایا کہ انھیں جیل کے دو افسران نے پانی کے ایک ڈرم میں اس وقت تک الٹا پکڑ کر رکھا یہاں تک کے انھیں محسوس ہوا وہ اب دم گھٹنے سے مر جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ یہ عمل اس وقت کرتے تھے جب کوئی قیدی رات کو جاگتا پایا جاتا، بلند آواز میں بات کرتا، یا کسی کو کسی دوسرے قیدی کے ساتھ مسئلہ ہوتا۔‘

رہا ہونے والے قیدیوں میں سے دو اور نے گارڈز کی جانب سے جنسی حملوں کی گواہی دی۔

ایک قیدی نے کہا کہ اگر کسی قیدی کو کھانا کھانے کی زیادہ طلب ہوتی تو اسے کھانے کے بدلے گارڈز کے ساتھ اوورل سیکس کی پیشکش کی جاتی۔

تین قیدیوں نے بتایا کہ گارڈز انھیں زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانے کے لیے ان کے جسموں پر کودتے تھے۔

قاسم القبلانی گرم کوٹ اور ٹوپی پہنے درختوں کے پاس کھڑے مسکرا رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اس قید کے دوران پانی کے ذریعے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

دمشق کے ایک مرکزی ہسپتال میں ہم 43 سالہ عماد جمال سے ملے جن کی ماں ان کی دیکھ بھال کر رہی تھیں اور ہر بار جب دیکھ بھال کے دوران ان کی ماں کا ہاتھ لگتا تو عماد درد سے کراہ جاتے۔

جب قید میں گزرے وقت کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے انگریزی میں دھیرے سے کہا کہ ’نہ کھانے کو تھا نہ سونے دیا جاتا۔ مار پیٹ، لڑائی، بیماری۔ وہاں کچھ بھی نارمل نہیں تھا۔‘

عماد کے مطابق ان کو ’سیاسی گرفتاری‘ کے تحت قید کیا گیا۔ انھیں 2021 میں اس علاقے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا جہاں سے ان کا تعلق تھا۔

عماد نے دوبارہ عربی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کمر اس وقت ٹوٹ گئی جب انھیں زمین پر گھٹنوں کو سینے سے جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کیا گیا اور پھر ایک گارڈ نے سزا کے طور پر ان کے اوپر چھلانگ لگائی۔

عماد کے مطابق ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے ایک دوست کو دوسرے قیدی سے دوا چرا کر دی تھی۔

لیکن عماد کے لیے جیل میں سب سے زیادہ مشکل چیز سردی تھی۔ ’وہاں کی دیواریں تک بھی ٹھنڈی تھیں۔ میں ایک زندہ لاش بن گیا تھا۔‘

جیل میں کچھ بھی موجود قیدیوں کے لیے بہتر نہیں تھا تاہم تین قیدیوں کا یہ کہنا تھا کہ اگر کچھ اچھا ہوتا بھی تو اس کے بعد سزائیں مزید سخت کر دی جاتیں۔

BBC

30 برس کے ایک قیدی رکان محمد السعید کا کہنا ہے کہ انھیں سنہ 2020 میں قتل اور اغوا کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا مگر پھر ان کے خلاف مقدمہ نہ چل سکا۔

ان کے مطابق 'دوران حراست ہر بار جب ہم نہا لیتے، باہر سورج کی روشنی میں جاتے یا پھر جب ہم سیل کے دروازے سے باہر قدم نکالتے تو ہر بار ہمیں سزا دی جاتی تھی۔‘

وہ اپنے ٹوٹے ہوئے دانتوں کو دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب انھیں ایک گارڈ نے ان کے منھ پر مکا مارا تو پھر یہ دانت ٹوٹ گئے تھے۔

ہم نے جتنے بھی لوگوں سے بات کی، ان کا کہنا تھا کہ ان کے سیل میں سب لوگوں کو مار دیا گیا۔

گارڈز سیل کے اندر آتے اور ان لوگوں کے نام پکارتے جنھیں ساتھ لے جانا ہوتا تھا اور پھر وہ لوگ دوبارہ انھیں کبھی نظر نہ آئے۔

BBC30 برس کے ایک قیدی رکان محمد السعید

عدنان کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے کسی کو پھانسی نہیں دی گئی۔ ہر بار وہ رات 12 بجے نام پکارتے تو ہمیں معلوم ہو جاتا کہ ان لوگوں کو وہ ہلاک کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں۔

دوسرے لوگوں نے بھی اسی قسم کی باتیں بتائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا اب کوئی طریقہ بھی نہیں تھا کہ جس سے یہ پتا چل سکتا کہ آخر جن لوگوں کو وہاں سے لے جایا گیا تو پھر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔

قاسم کے والد اور دیگر رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کو جیل حکام کو دس ہزار ڈالر ادا کرنے ہوتے تاکہ وہ انھیں قتل نہ کریں۔ رشوت لینے کے بعد ایسے قیدیوں کی سزا میں کمی کر دی جاتی یعنی سزائے موت کو عمر قید اور پھر 20 برس کی قید میں بدل دیا جاتا۔

قاسم کا کہنا ہے کہ جب ان کے خاندان نے گارڈز کو پیسے دیے تو پھر ان کے ساتھ جیل میں ان اہلکاروں کے رویے میں بہت بہتری دیکھنے میں آئی مگر ان کے والد کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’رہائی کے بدلے کوئی بھی رشوت لینے سے صاف انکار کیا۔‘

زیر حراست ملزمان کے خاندان والے انھیں کھانے پینے کے لیے پیسے بھیجتے تھے مگر ان کا کہنا ہے کہ بدعنوان اہلکار اس رقم کا بڑا حصہ خود اپنے پاس رکھ لیتے اور اس کے بدلے قیدیوں کو محدود راشن دیتے۔ کچھ عقوبت خانوں میں تمام قیدی اپنے کھانے کو ایک جگہ جمع کرتے مگر یہ پھر بھی ان کی بھوک مٹانے کے لیے کافی نہ ہوتا۔

عدنان کے لیے مار پیٹ سے بھی زیادہ مشکل بھوک برداشت کرنا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’میں سونے کے لیے جاتا تو پھر بھوک سے جاگ جاتا۔‘

’ایک ماہ میں جو سزا ہمیں دی جاتی تھی وہ کچھ یوں تھی کہ کسی دن وہ روٹی کا ایک ٹکڑا کھانے کے لیے دیتے۔ اگلے دن اس سے بھی آدھا ٹکڑا دیتے اور پھر اسی طرح بہت ہی کم ٹکڑا دیا جاتا۔ آخر میں یہ ٹکڑا ختم ہو جاتا تو پھر ہمارے لیے کھانے کو روٹی نہیں ہوتی تھی۔‘

قاسم کا کہنا ہے کہ ایک دن گارڈز نے ہمارے سیل کے لیڈر کے منھ پر دہی مل دیا اور پھر ہمیں کہا کہ اب اسے چاٹو۔

خوراک کی کمی کی وجہ سے سب قیدیوں کا وزن بہت کم ہو گیا۔ قاسم کا کہنا ہے کہ میرا خواب یہی ہوتا تھا کہ ’پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو جائے۔‘

ان کے خاندان نے ان سے ملنے کے لیے بھی گارڈز کو پیسے دیے۔ ان کے والد کے مطابق انھیں کھبی کبھار ویل چیئر پر نیچے لایا جاتا کیونکہ وہ اتنے لاغر ہو گئے تھے کہ چل نہیں سکتے تھے۔

بیماریاں تیزی سے پھیلتی تھیں مگر قیدیوں کے پاس اس کے تدارک کا کوئی رستہ نہیں تھا۔

ایسے دو لوگ جن سے ہم نے بات کی، انھیں اتوار کو رہا کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’صیدنایا جیل میں انھیں ٹی بی ہو گئی۔‘

ان میں سے ایک نے ہمیں بتایا کہ ان کو سزا دینے کی غرض سے ان کی دوائی روک لی جاتی تھی۔

عدنان کا کہنا ہے کہ ڈر سے لگنے والی بیماریاں جسمانی بیماریوں سے کہیں زیادہ بری تھیں۔

اس ہفتے دمشق کے ایک ہسپتال میں ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کے پاس چیک اپ کے لیے جن قیدیوں کو بھیجا گیا تھا ان میں زیادہ تر نفسیاتی مسائل تھے۔

ان باتوں کو سن کر لگتا ہے کہ وہاں کوئی امید نہیں تھی بلکہ صرف درد تھا۔

BBC

قیدی زیادہ وقت خاموش رہ کر گزارتے۔ باہر کی دنیا سے ان کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ لہذا اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ بشارالاسد کی حکومت ختم ہو گئی۔ اس پر انھیں تب یقین ہوا جب ان کو عقوبت خانوں سے رہائی ملی۔

قاسم کا کہنا ہے کہ راہداری سے کچھ لوگوں کے شور سے قبل انھیں ایسی آوازیں آتی تھیں کہ جیسے ہسپتال کے گراؤنڈ سے ہیلی کاپٹرز اڑان بھر رہا ہو۔ اس کے بعد جیل کے دروازے کھلتے ہیں اور قیدی اس قدر تیزی سے بھاگے کہ جتنا ممکن تھا۔

رکان کا کہنا ہے کہ ’ہم قید خانے سے بھاگے۔ ہم خوف سے بھی دور بھاگے۔‘ ان کے ذہن میں ان کے بچے اور اہلیہ تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس افراتفری میں تو ایک وقت پر ایک کار نے انھیں ٹکر مار دی ’مگر میں نے اس کی پرواہ نہیں۔ میں نیچے سے پھر اٹھا اور دوبارہ دوڑنا شروع کر دیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ میں اب کبھی صیدیانا جیل نہیں جاؤں گا۔

دمشق کی طرف چلاتے ہوئے بھاگ کر جانے والے عدنان کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ دوبارہ جیل کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے لیے یہ احساسات بیان کرنا ممکن نہیں۔‘

انھیں سونے سے قبل ہر رات یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کی آنکھ جیل میں نہ کھلے اور انھیں پتا چلے کہ یہ سب کچھ محض خواب تھا۔

قاسم تل منین نامی شہر کی طرف دوڑے۔ وہاں ایک خاتون انھیں ملیں جو رہا ہونے والے قیدیوں کو کھانا، پیسے اور کپڑے دے رہی تھیں، اور انھوں نے بتایا کہ ’بشارالا سد کی حکومت گر گئی۔‘

انھیں ان کے آبائی قصبے لایا گیا جہاں جشن میں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور ان کے خاندان نے روتے ہوئے انھیں گلے لگایا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ایسا ہے جیسے میرا دوبارہ جنم ہوا۔‘

عقوبت خانے، بارودی سرنگیں اور خفیہ فائلیں: شام کی سکیورٹی ایجنسیوں کے دفاتر میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟ کوڈز والے زیرِ زمین قید خانے: دمشق میں ’انسانی مذبح خانہ‘ قرار دی گئی صیدنایا جیل کی کہانیاںشام میں فوجی اڈوں، ہیلی کاپٹرز اور بحری جہازوں پر مسلسل فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں میں کیا کر رہا ہے؟بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ: شام میں اب کون کس علاقے کو کنٹرول کر رہا ہے؟سفید پرچم پر تحریر شدہ کلمہ: کابل اور دمشق کی کہانیوں میں مماثلت کے بعد شام میں لہراتا وہ جھنڈا جو خدشات کو جنم دے رہا ہےخانہ جنگی، متحد حکومت یا طاقت کے ذریعے کنٹرول: باغی گروہ کے قبضے کے بعد اب شام کا مستقبل کیا ہو گا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More