پاکستان کی چند خواتین پولیس آفیسرز نے اپنی کارکردگی سے قومی سطح پر شہرت حاصل کی ہے، لیکن ملک میں تربیت یافتہ پولیس افسران کی تعداد آج بھی بہت کم ہے اور پولیس فورس میں کام کرنے والی بیشتر خواتین آپریشنل فرائض سر انجام دینے میں مہارت نہیں رکھتیں۔پاکستان کی پولیس فورس میں خواتین کے کردار کے متعلق گذشہ سال کے اعداد وشمار پر مرتب کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کُل پولیس فورس چار لاکھ 89 ہزار 645 میں سے صرف 15 ہزار 509 خواتین ہیں اور ان میں سے کوئی بھی گریڈ 20 کی آفیسر نہیں ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق گذشتہ چار سالوں میں ملک بھر کی پولیس میں کل 74 ہزار 965 بھرتیاں کی گئیں، جن میں سے 11 ہزار 321 خواتین تھیں۔ملک میں سب سے زیادہ خواتین پولیس اہلکار نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس میں ہیں، جو مجموعی فورس کا چھ اعشاریہ 31 فیصد ہیں۔ اس کے بعد سب سے زیادہ خواتین پولیس اہلکار اسلام آباد میں ہیں جو ڈیپارٹمنٹ کا پانچ اعشاریہ چار فیصد ہیں۔پنجاب پولیس میں چار اعشاریہ 40 فیصد، ریلویز پولیس میں تین اعشاریہ 77 فیصد، گلگت بلتستان میں تین اعشاریہ 36 فیصد، سندھ میں دو اعشاریہ 62، پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں دو اعشاریہ 48، بلوچستان میں ایک اعشاریہ 74 اور صوبہ خیبر پختونخوا میں سب سے کم ایک اعشاریہ 46 فیصد خواتین پولیس اہلکار ہیں۔رپورٹ میں دیے گئے سنہ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گریڈ 20 سے 22 تک کی کوئی خاتون آفیسر نہیں، جبکہ گریڈ 17 سے 19 تک کی تین اعشاریہ آٹھ فیصد اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر سے انسپکٹر کے رینک میں صرف دو فیصد پولیس اہلکار ہیں۔ باقی تمام خواتین اہلکار اس سے نچلے درجے میں ہیں۔پاکستان میں خواتین پولیس اہلکاروں کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کُل خواتین اہلکاروں میں سے دو اعشاریہ 96 فیصد دفتری ذمہ داریاں انجام دیتی ہیں، ایک اعشاریہ 22 فیصد سپیشل برانچ میں، ایک اعشاریہ 91 فیصد ٹریننگ اور دو اعشاریہ 25 فیصد ٹریفک پولیس میں خدمات سرانجام دیتی ہیں۔پاکستان کی صرف 262 خواتین پولیس آفیسرز کو غیرملکی تربیت کا موقع ملا ہے، جبکہ اس کی نسبت دو ہزار 407 مرد پولیس اہلکاروں نے غیرملکی تربیت حاصل کی ہے۔مقامی سطح پر بھی صرف سات ہزار 440 خواتین کو اعلٰی تربیت فراہم کی گئی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسی ہزار 792 مرد اہلکاروں نے یہ تربیت حاصل کی۔مستقبل میں خواتین پولیس اہلکاروں کے کردار میں اضافے کے لیے اقدامات کا جائزہحکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ خواتین پولیس آفیسرز کو تفتیش اور براہ راست آپریشنز کا حصہ بنانے کے لے مختلف عوامل کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اور اس سلسلے میں مستقبل میں اہم اقدامات اٹھانے پر غور ہو رہا ہے۔تاہم اسلام آباد پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل اور نیشنل پولیس اکیڈمی کے استاد طاہر عالم خان جو کہ مستقبل کی پولیس افسران کو پولیسنگ کی تربیت دیتے ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستان کو خواتین پولیس آفیسرز کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے اس موضوع پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو آپریشنل امور میں اعلٰی تربیت دی جانی چاہیے۔’آنے والے وقت میں ہمارے ہاں پولیس میں خواتین آفیسرز کی اچھی خاصی تعداد ہو گی، کیونکہ ان دنوں آنے والے نوجوان کیڈٹس کے ہر گروپ میں چار پانچ خواتین تو ہوتی ہیں۔ لیکن مسئلہ ان کی تربیت کا ہے اور انہیں ہمیشہ پولیسنگ کے لیے تیار رکھنے کا ہے۔‘طاہر عالم خان کے مطابق دوران ڈیوٹی خواتین اہلکاروں کے لیے وردی سنبھالنا ایک چیلنج ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)’ایک احتجاجی خاتون کی گرفتاری کے لیے چار خاتون پولیس اہلکاروں کی ضرورت‘طاہر عالم خان کا کہنا ہے کہ آج بھی چھوٹے شہروں میں چھاپوں کے لیے خواتین پولیس اہلکار نہیں ملتیں، اور اگر کہیں ایسی کارروائی کے لیے جانا ہو، جس میں خواتین اہلکاروں کا ہونا ضروری ہو تو اس کے لیے ادھر ادھر سے انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔’اس کے علاوہ مظاہروں اور ہنگاموں میں جب آپ خواتین مظاہرین کو گرفتار کرنے کے لیے اپنی اہلکاروں کو بھیجتے ہیں تو ایک احتجاجی خاتون کو گرفتار کرنے کے لیے چار ویمن پولیس اہلکار جاتی ہیں کیونکہ وہ فٹ نہیں ہوتیں اور اکثر اوقات ایک عام خاتون دو تین خواتین پولیس اہلکاروں پر حاوی ہو جاتی ہے۔‘خواتین پولیس اہلکاروں کے چیلنجزطاہر عالم خان کے مطابق پاکستان میں خواتین پولیس افسران کی وردی ان کے فرائض سے ہم آہنگ نہیں ہے اور جہاں انہیں پیشہ ورانہ تربیت کا فقدان ہے، وہاں دوران ڈیوٹی وردی سنبھالنا ایک چیلنج ہے۔’یہ اپنا سکارف، چادر یا یونیفارم کے دیگر لوازمات سنبھالیں یا ملزمان کا مقابلہ کریں۔ ہمیں اپنی پولیس کی سمارٹ یونیفارم ڈیزائن کرنی چاہیے جیسی کی وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے ایک تقریب میں زیب تن کی تھی۔‘مظاہرین سے نمٹنے کے لیے خواتین اہلکاروں کی کمی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)طاہر عالم خان کے مطابق خواتین پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ خواتین آفیسرز آج بھی بڑے شہروں کے باہر ڈیوٹی انجام نہیں دے سکتیں کیونکہ ان کی اپنی حفاظت ایک الگ چیلنج ہوتا ہے۔’اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ خواتین پولیس اہلکاروں کو انتہائی اعلٰی درجے کی تربیت اور مہارت فراہم کرنی چاہیے۔‘طاہر عالم خان کہتے ہیں کہ اکثر خواتین پولیس افسران کو شادی اور بچوں کی پیدائش کے بعد اپنی فٹنس کو برقرار رکھنے لیے خصوصی توجہ اور تربیت درکار ہوتی ہے اور اس کو یقینی بنانا چاہیے۔