Getty Imagesبشار الاسد اور ان کی اہلیہ نے 2008 میں دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ پیرس میں ہونے والی فرانسیسی صدارتی تقریب میں شرکت کی تھی
شام کے معزول صدر بشار الاسد کی اہلیہ اسما الاسد کے لیے ووگ میگزین نے 2011 میں لکھا تھا کہ وہ نہ صرف بہت وضع دار اور مقناطیسی شخصیت کی حامل ہیں بلکہ انتہائی گلیمرس اور دلکش خاتون اول بھی ہیں۔
ووگ میگزین نے اپنی رپورٹ میں اسما الاسد کے تعارف میں ان خصوصیات کا ذکر کیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد میگزین نے ان کے شوہر کی حکومت کی جانب سے آزادی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کے خلاف وحشیانہ تشدد کے الزامات کے بعد اس مضمون کو ہٹا دیا تھا۔
2016 میں روسی ٹیلی ویژن چینل روسیا 24 کے ساتھ ایک انٹرویو میں اسما اسد نے کہا تھا کہ انھوں نے خانہ جنگی سے دوچار قوم کو چھوڑنے اور جنگ زدہ شام سے محفوظ طور پر نکالے جانے کی پیشکش مسترد کی تھی۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’میں شروع سے ہی یہاں ہوں اور میں نے کبھی یہاں سے کہیں اور جانے کے بارے میں نہیں سوچا۔‘
تاہم رواں ہفتے دمشق میں باغی افواج کی آمد سے صورتحال بدل گئی اور نتیجتاً شام میں بشار الاسد کی دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک قائم رہنے والی حکومت کا اختتام ہو گیا۔
اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ اسما الاسد شام سے روس کے لیے روانہ ہوئیں جہاں، روسی سرکاری میڈیا کے مطابق انھیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دی گئی۔
شوہر کا دفاع
ایک جانب ان کے شوہر بشار الاسد کے حامی انھیں ’دمشق کے پھول‘ سے تشبیہ دیتے ہیں تو دوسری جانب ان کے ناقدین اور دشمنوں نے انھیں ’موت کی دیوی‘ کا لقب دیا۔
اسما الاسد نے اپنے شوہر اور ان کی حکومت کے ساتھ متعدد مواقعوں پر وفاداری کا برملا اظہار کیا۔
اپریل 2017 میں، اسما نے اپنے سوشل نیٹ ورکس پر شام کی صدارت سے متعلق ایک بیان شائع کیا، جس میں انھوں نے شام کے ایک فضائی اڈے پر امریکی میزائل حملے کی شدید تنقید کی۔
اس حملے کی اجازت اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقے خان شیجون میں چار اپریل 2017 کو شامی فوج کی طرف سے کیے گئے مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں دی تھی۔
اگرچہ بشار الاسد کی حکومت نے شمالی ادلب میں اپنی کارروائیوں میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی سختی سے تردید کی تھی اور اس کی ممکنہ وضاحت کے طور پر القاعدہ کی کیمیائی ہتھیاروں کی فیکٹری کے دھماکے کی طرف اشارہ کیا۔
اس دھماکے میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
Getty Imagesاسما اسد برطانیہ میں پیدا ہوئی تھیں
چند برس قبل اگست 2013 میں دمشق کے قریب باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں سیکڑوں افراد مارے گئے تھے۔
مغربی طاقتوں اور حزب اختلاف نے اس کا الزام بشار الاسد کی حکومت پر دھرا تاہم شامی حکومت نے اس کی تردید کی۔ آخر کار بین الاقوامی دباؤ کے پیش نظر انھوں نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنے پر اتفاق کیا۔
لیکن اس سے خانہ جنگی میں ہونے والے مظالم کی لمبی فہرست ختم نہیں ہوئی۔ مزید کیمیائی حملے ہوئے اور اقوام متحدہ نے لڑائی کے تمام فریقوں پر جنگی جرائم کا الزام لگایا۔
2017 میں وائٹ ہاؤس کے حکم پر ہونے والے حملے پر ردعمل میں اسما الاسد نے اپنے انسٹاگرام اور فیس بک اکاؤنٹس پر پیغام میں کہا ’امریکہ نے جو کچھ کیا، وہ غیر ذمہ دارانہ عمل ہے جو ان کی تنگ نظری کے نظریہ، حقیقت سے فرار، سیاسی اور فوجی اندھے پن اور جھوٹے پروپیگنڈے کی مہم جوئی کی عکاسی ہے۔‘
اس سخت پیغام کے نتیجے میں برطانیہ میں لبرل ڈیموکریٹ پارٹی نے برطانوی وزیر داخلہ امبر رڈ سے درخواست کی کہ اسما الاسد کی برطانوی شہریت ختم کی جائے۔
یاد رہے کہ اسما کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی تھی۔
’دی گارڈین‘ اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کنزرویٹیو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ندیم زہاوی نے لکھا ’اسما الاسد اب برطانوی شہریت کے لائق نہیں رہیں۔ وہ اپنے شوہر کے دفاع کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کے بعد اس کی حقدار نہیں رہیں۔ انھوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے انکار کیا اور مغرب کو نشانہ بنایا جبکہ ایک تباہ حال ملک کی زندگی کو ایسے پیش کیا جیسے سب کچھ معمول کے مطابق ہو۔‘
’میں نے ملک چھوڑنے کا کبھی نہیں سوچا‘
اکتوبر 2016 میں انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں دنیا کے سامنے واضح کیا کہ وہ شام نہیں چھوڑیں گی اور وہ اپنے شوہر کے شانہ بشانہ ان کے ساتھ رہیں گی۔
اسما الاسد نے 2016 میں روسی ٹیلی ویژن چینل روزیہ 24 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں شروع سے ہی یہاں ہوں اور میں نے کبھی بھی کہیں اور جانے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔
اس انٹرویو میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ خانہ جنگی کا شکار ملک چھوڑنے کی پیشکش وہ مسترد کر چکی ہیں۔
’بالکل مجھے شام چھوڑ کر جانے کی پیشکش کی گئی تھی جس میں میرے بچوں کی حفاظت اور تحفظ کی ضمانت کے ساتھ مالی فوائد بھی شامل تھے۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ جن لوگوں نے یہ پیشکش کی تھی وہ ان کے شوہر کی صدارت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا تھا ’ان کا مقصد ڈھکا چھپا نہیں تھا بلکہ یہ کسی کو بھی بآسانی سمجھ آ سکتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔‘
’یہ کبھی بھی میری فلاح و بہبود یا میرے بچوں کی بھلائی کے بارے میں نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد اپنے صدر پر لوگوں کا اعتماد ختم کرنے کی دانستہ کوشش تھی۔‘
اور جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے دمشق میں رہنے کو ترجیح کیوں دی تو انھوں نے کہا کہ ’یہ ترجیح کی بات نہیں۔ میں ان کے ساتھ ہوں کیونکہ مجھے ان کا اعتماد اور یقین ہے۔‘
سابق برطانوی بینکر
آٹھ سال میں یہ پہلا موقع تھا جب اسما الاسد نے ٹیلی ویژن پر آ کر انٹرویو دیا تھا۔
جنگ کے آغاز میں 2011 میں صدر بشار الاسد کی اہلیہ نے لگاتار میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ بنائی جہاں انھوں نے اپنے شوہر کی ان حالات میں کھل کر حمایت کی جہاں بشار الاسد کی حکومت پر ہزاروں مظاہرین اور مخالفین کو تنازع کے دوران قتل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
چھ سال بعد وہ بنیادی طور پر سوشل نیٹ ورکس پر چھائی رہیں اور ماں باپ سے محروم بچوں کے ساتھ ملاقاتوں اور کلینکس اور ہسپتالوں کے دوروں کی تصاویر سے لوگوں کی توجہ حاصل کیے رکھی۔
Getty Images
یہ مغربی لندن سے یکسر مختلف ماحول تھا۔ لندن میں وہ شامی نژاد خاندان میں پیدا ہوئیں جہاں ان کا نام اسما الاخرس رکھا گیا۔
ان کے والد فواز الاخرا، ماہر امراض قلب تھے اور ایک پرائیویٹ کلینک میں پریکٹس کرتے تھے۔ ان کی والدہ سحر ایک سفارت کار تھیں اور لندن میں شامی سفارت خانے میں فرسٹ سیکریٹری کے طور پر کام کر چکی تھیں۔
سنی مسلم فرقے سے تعلق رکھنے والی اسما نے ایک پرائیویٹ گرلز سکول کوئنز کالج میں تعلیم حاصل کی، بعد میں معروف کنگز کالج سے کمپیوٹنگ میں گریجویشن کی اور پھر لندن میں ایک بینکر کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا۔
وہاں ان کی ملاقات بشار الاسد سے ہوئی جنھوں نے طب میں گریجویشن کیا تھا اور وہ لندن میں امراض چشم میں مہارت حاصل کر رہے تھے۔
بشار الاسد: لندن میں امراض چشم کے ڈاکٹر سے شام کے آمر تککیا بشار الاسد کو ’مجرم‘ کہنے والے ترک صدر اردوغان شام میں باغیوں کی حمایت کر رہے ہیں؟’دمشق میں زائرین خوفزدہ، ہوٹل تک محدود‘: پاکستان کی شام میں پھنسے شہریوں کی بیروت کے راستے انخلا کے لیے کوششیںبشار الاسد کی اقتدار سے بےدخلی ’پوتن کے لیے دھچکا‘: اب شام میں روسی اڈوں کا کیا ہو گا؟ ’شام کا نیا چہرہ‘Getty Images
بشار کے والد حافظ اسد کی وفات جون 2000 میں ہوئی۔ ان کی موت کے فوری بعد 34 سالہ بشار کو فوری طور پر صدر مقرر کر دیا گیا۔
بشار الاسد نے حلف اٹھانے کے بعد ایک نیا سیاسی لہجہ اختیار کرتے ہوئے شفافیت، جمہوریت، ترقی، جدت، احتساب اور ادارہ جاتی سوچ کو اپنانے کی بات کی۔
اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد بشار الاسد نے اسما الاخرس سے شادی کر لی جس نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا۔
بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے ایک سابق نامہ نگار کم غطاس بتاتے ہیں کہ اس وقت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ایک برطانوی خاتون اور ایک سنی فرقے کی مسلمان لڑکی سے شادی ترقی اور انضمام کی علامت ہو سکتی ہے اور یہ ایک سنی اکثریتی ملک میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
لیکن برسوں کے دوران یہ بات واضح ہو گئی کہ بشار بالکل اپنے والد کی طرح تھے، ایک سخت گیر رہنما جو بظاہر اصلاح پسند نظر آتے تھے۔
کم غطاس کے مطابق ’ایک گمنام خاندانی ذریعہ نے مشورہ دیا کہ بشارالاسد نے اسما سے شادی یہ جانتے ہوئے کی کہ وہ شام میں ایک جدید چہرہ دکھانے میں انمول ثابت ہوں گی۔‘
تاہم کم غطاس کا کہنا ہے کہ خاتون اول کے طور پر اسما کا نقطہ نظر اسد خاندان کے اندر کشیدگی کا باعث بنا، خاص طور پر صدر کی بہن بورشرا اور ان کی والدہ انیسہ کو عوامی رابطے ذیادہ نہیں بھاتے تھے۔‘
’صحرا میں گلاب‘Getty Imagesاسما الاسد
فروری 2011 میں فیشن میگزین ’ووگ‘ نے شام کی خاتون اول کا 3,200 الفاظ پر مشتمل پروفائل شائع کیا جس کا عنوان تھا ’صحرا میں گلاب‘۔ اس مضمون میں انھوں نے اسما کو گلیمرس قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ شام مشرق وسطیٰ کا سب سے محفوظ ملک ہے۔
لیکن صرف ایک ماہ بعد پولیس نے درعا شہر میں پرامن، جمہوریت نواز مظاہرین پر تشدد کیا جس سے ایک تنازع شروع ہوا جس میں تقریباً پانچ لاکھ افراد کی جانیں گئیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔
اس سال بین الاقوامی سطح پر شام کی خاتون اول کو ایک مختلف روپ میں دیکھا گیا۔
’ووگ‘ پروفائل سامنے آنے کے فوراً بعد نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ یہ مضمون بشار الاسد حکومت کی مہم کا حصہ تھا، جس میں ایک امریکی پبلک ریلیشن فرم کو ماہانہ 5,000 ڈالر ادا کرنا بھی شامل تھا جس نے ووگ اور اسما الاسد کے درمیان ثالث کے طور پرکام کیا تھا۔
اس مضمون کو جلد ہی ووگ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا اور اشاعت کی ڈائریکٹر اینا ونٹور نے اسد حکومت کی مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کیا۔
بیماری کو شکستGetty Images2018 میں شامی حکام نے آگاہ کیا کہ اسما الاسد چھاتی کے کینسر کا علاج کروا رہی ہیں
جنگ کے ساتھ چیزیں تیزی سے بدل گئیں۔ 2012 میں یورپی یونین نے اسما پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کے سفر پر پابندی لگا دی اور ان کے اثاثے منجمد کر دیے۔
لیکن اسما نے اپنے شوہر کی حمایت میں بیانات جاری کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ’تشدد کے متاثرین‘ کو تسلی دینے کے لیے وقف ہیں۔
روسی ٹیلی ویژن کے ساتھ اپنے سنہ 2016 کے انٹرویو میں اسما نے کہا کہ وہ بے گھر اور زخمیوں، شامی فوجیوں اور جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کے لیے مدد کا انتظام کرنے کے لیے اپنے عہدے کا استعمال کر رہی ہیں۔
2018 میں شامی حکام نے آگاہ کیا کہ اسما الاسد چھاتی کے کینسر کا علاج کروا رہی ہیں۔ 2019 میں شام کے سرکاری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جلد پتہ چلنے کی بدولت وہ صحت یاب ہو گئی ہیں۔
مئی 2024 میں شام کے صدارتی دفتر نے اطلاع دی کہاسما الاسد میں لیوکیمیا کی تشخیص ہوئی ہے۔
روئٹرز نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ’بیان کے مطابق 48 سالہ اسما کو علاج کے خصوصی پروٹوکول سے گزرنا پڑے گا جس کے تحت انھیں خود کو الگ تھلگ کرنا پڑے گا اور اس کے نتیجے میں وہ عوامی مصروفیات سے دور رہیں گی۔‘
اس وقت وہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ ماسکو میں ہیں۔
بشار الاسد: لندن میں امراض چشم کے ڈاکٹر سے شام کے آمر تککیا بشار الاسد کو ’مجرم‘ کہنے والے ترک صدر اردوغان شام میں باغیوں کی حمایت کر رہے ہیں؟’دمشق میں زائرین خوفزدہ، ہوٹل تک محدود‘: پاکستان کی شام میں پھنسے شہریوں کی بیروت کے راستے انخلا کے لیے کوششیںبشار الاسد کی اقتدار سے بےدخلی ’پوتن کے لیے دھچکا‘: اب شام میں روسی اڈوں کا کیا ہو گا؟ دمشق کی جانب باغیوں کی پیش قدمی کے دوران بشار الاسد ملک سے کیسے نکلے؟شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں خاتمہ‘: آگے کیا ہوگا؟