’سافٹ گرل‘: نوکری چھوڑ کر ’ہاؤس وائف‘ بننے کا رجحان کیا ہے اور یہ سویڈن میں اتنا مقبول کیوں ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 09, 2024

ولما لارسن کی عمر 25 برس ہے اور اُن کا تعلق سوئیڈن سے ہے۔ ماضی قریب میں وہ کئی جگہوں پر ملازمت کر چکی ہیں۔ لیکن ایک سال پہلے انھوں نے جاب چھوڑ کر بطور ’سٹے ایٹ ہوم گرل فرینڈ‘ بننے کا فیصلہ کیا (یعنی نوکری چھوڑ کر اپنے پارٹنر کے گھر رہنا اور گھویلو کاموں میں ہاتھ بٹانا)۔

وہ کہتی ہیں یہ سب کر کے وہ اتنی خوش کبھی نہیں ہوئیں جتنی اب ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری زندگی آسان ہو گئی ہے۔۔۔ اب میں بہت پریشان نہیں رہتی ہوں۔‘

ولما کے بوائے فرینڈ گھر سے آن لائن کام کرتے ہیں اور اُن کے دن کا بیشتر حصہ لیپ ٹاپ پر کام کرتے گزرتا ہے۔ جبکہ ولما گھر کے کاموں کے علاوہ باقاعدگی سے جِم جاتی ہیں، کافی پینے باہر جاتی ہیں یا کھانا بناتی ہیں۔

ولما اور اُن کے بوائے فرینڈ سویڈن کے چھوٹے سے قصبے میں پل کر بڑے ہوئے اور اب یہ دونوں بہت زیادہ سیر و سیاحت کرتے ہیں اور فی الحال اپنی سردیاں سائپرس میں گزار رہے ہیں۔

ولما کہتی ہیں کہ ان کا بوائے فرینڈ انھیں (گھر رہنے اور امور خانہ داری نبھانے کے عوض) ہر مہینے اپنے پیسوں میں سے کچھ رقم بطور تنخواہ دیتا ہے۔ ’اگرمجھے زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو میں اس نے مزید مانگ لیتی ہوں۔ اور اگر رقم میری ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو میں کچھ بچت کر لیتی ہوں۔‘

ولما انسٹا گرام، یو ٹیوب اور ٹک ٹاک پر اپنی پوسٹ کے ذریعے اپنا لائف سٹائل صارفین کے ساتھ شیئر کرتی رہتی ہیں۔ انھیں فالو کرنے والوں کی تعداد 11 ہزار سے کچھ زیادہ ہے اور ان کی کچھ پوسٹوں پر تو چار لاکھ سے زائد لائکس آ چکے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے اپنے کانٹینٹ سے کچھ کماتی نہیں ہیں۔

اپنی سوشل میڈیا پوسٹس پر وہ ’ہاؤس وائف‘ یا ’سٹے ایٹ ہوم گرل فرینڈ‘ جیسے ہیش ٹیگز کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ اپنے لیے ’سافٹ گرل‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔ ’سافٹ گرل‘ ایک ایسی شناخت ہے جس میں کسی خاتون کی جانب سے اپنے کیریئر پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ایک آسان اور زیادہ نسوانی طرز زندگی کو اپنایا جاتا ہے۔

سنہ 2010 سے ’سافٹ گرل‘ نامی ٹرینڈ دنیا کے مختلف حصوں میں سوشل میڈیا پر موجود رہا ہے۔ لیکن سویڈن جیسے ملک میں، جہاں گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران دوہری آمدن والے گھرانوں پر مبنی پالیسیوں کو فروغ دیا گیا ہے، اس تصور کی حالیہ شہرت نے ناصرف چند لوگوں کو حیران کیا ہے بلکہ معاشرے میں تقسیم بھی پیدا کی ہے۔

سویڈن میںنوجوان کے سب سے بڑے سالانہ سروے ’انڈومسبارومنٹرن‘ کے نتیجے میں گذشتہ سال سافٹ گرل نامی رحجان قومی سطح پر اجاگر ہوا۔ اس سروے میں 15 سے 24 برس کی عمر کے افراد کو کہا گیا ہے وہ سنہ 2024 کے ٹرینڈز کی پیش گوئی کریں۔

اسی حوالے سے اگست میں جاری ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سکول جانے والی سات سے14 برس کی لڑکیوں میں بھی سافٹ گرل کی مقبولیت کا شرح 14 فیصد کے لگ بھگ تھی۔

اس ضمن میں ہونے والی سروے سے منسلک محقق جوہانہ گورانسن کا کہنا ہے کہ یہ تصور اس ’گرل باس‘ کے آئیڈیل سے بہت پرے ہے جو ہم نے بہت سالوں سے دیکھا ہے اور جس میں زندگی کے ہر پہلو میں کامیابی کے پس پردہ بہت سے مطالبات ہیں۔

سرکاری سطح پر اس وقت کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں جن سے یہ پتہ چل سکے کہ کتنی نوجوان لڑکیاں اس ٹرینڈ کو اپناتے ہوئے نوکریاں چھوڑ رہی ہیں۔

تاہم اس کے باوجود سویڈین میں اخبارات میں اس ضمن میں شائع ہونے والے اداریوں، سیاسی جماعتوں کی پینل ڈسکشنز اور سرکاری ٹی وی پر اس معاملے پر بحث اب ایک اہم موضوع ہے۔

سویڈن میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنی والی جماعت کی شریک بانی گورڈن سکیمن کہتی ہیں کہ انھوں نے حال ہی میں اس موضوع پر ہونے والے مباحثوں میں حصہ لیا ہے۔

وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین کے لیے اپنے پارٹنر کی دولت پر انحصار کرنا یا گھر بیٹھ جانا ’بہت خطرناک‘ ہے اور یہ صنفی مساوات کے لیے ’ایک قدم پیچھے ہٹنے‘ پر مبنی رجحان ہے۔

وہ یہ توجیہ پیش کرتی ہیں کہ سویڈن کے نوجوان ملک کی دائیں بازو کی مخلوط حکومت کے زیر اثر آ رہے ہیں۔

وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ سویڈن میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کو اپنانے سے پہلے عوامی شعور کی کمی ہے۔ ’آج کی نوجوان خواتین اس تاریخ کو نہیں دیکھتی ہیںکہ کیسے خواتین کو اپنے حقوق کے لیے لڑنا پڑا، کام کرنے کا حق، تنخواہ کا حق، اور معاشی آزادی کا حق۔‘

تاہم دوسری جانب سویڈن ڈیموکریٹس پارٹی ’سافٹ گرلز‘ کے رجحان کے حوالے سے مثبت رویہ رکھتی ہے۔

پارٹی کے یوتھ ونگ کے ترجمان ڈینس ویسٹربرگ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہلوگوں کو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنا چاہیے، اور اگر آپ کے پاس ایسا کرنے کا معاشی آپشن موجود ہے (یعنی پارٹنر کی تنخواہ ہر گزر اوقات) تویہ آپ کے لیے اچھا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم اب بھی ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کرئیر میں آنے بڑھنے کے تمام مواقع موجود ہیں۔ یہاں حقوق محفوظ ہیں، اور ہمیں زیادہ روایتی طور پر اپنی زندگی گزارنے کا چناؤ کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔‘

ورک، لائف بیلنس کے لیے سویڈن عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے، یہاں زیادہ تر ملازمین کو سال میں چھ ہفتے کی چھٹی ملتی ہے جبکہ کام کرنے کے اہل افراد میں سے محض ایک فیصد سے بھی کم افراد ہفتے میں 50 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں۔

تاہم اس سب کے باوجود ایک حالیہ تحقیق نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

گورینسن کا خیال ہے کہ سافٹ گرلزکا رجحان اس وقت عالمی سطح پر کام کے رجحانات کی ایکسٹینشن ہو سکتا ہے جس میں ملازمین کی حوصلہ افزائی کر جاتی ہے کہ کام کی جگہ پر ضرورت سے زیادہ دباؤ نہ لیں۔

دوسری جانب جنریشن زی (سنہ 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد) سوشل میڈیا پر زیادہ ایسا مواد بنا رہے ہیں جن میں کریئر کے فروغ کے بجائے فارغ اوقات کو منانے کی بات کی جاتی ہے۔

اگر آپ سوشل میڈیا پر لائف سٹائل سے متعلق مواد پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کام (نوکری) کا حصہ اس میں کچھ زیادہ نہیں ہے یعنی جو کانٹینٹ بنایا جا رہا ہے اس میں جاب یا اس سے متعلق گولز ترجیح نہیں ہیں۔

گورنسن کہتی ہیں کہ اور اگر نوجوانوں میں عام زندگی گزارنے کا اظہار اسے سمجھا جائے تو پھر یقیناً ہو سکتا ہے کہ آپ ایک دن میں آٹھ گھنٹے دفتر میں گزارنے کے معاملے میں اتنے پرجوش نہ ہوں۔

لیکن شاید بات کرنے کا سب سے بڑا نقطہ یہ ہے کہ آیا یہ رجحان سویڈن کی صنفی مساوات کی اہم پالیسیوں کا ردعمل ہے۔

سویڈن میں کام کرنے والی ماؤں کا تناسب یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ مگر پھر بھی سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ خواتین اب بھی مردوں کے مقابلے میں گھر کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال میں زیادہ حصہ ڈالتی ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں مردوں اور عورتوں کے درمیان آمدن کا فرقیورپی یونین کے دیگر ممالک سے کم ہے۔

لارسن مستقبل میں بچے پیدا کرنے کی خواہاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ زیادہ تر خواتین کام سے تھک چکی ہیں۔ اور میں اس حوالے سے اپنی ماں اور دادی کے بارے میں سوچتی ہوں جو ہمیشہ بہت دباؤ کا شکار ہوتی تھیں۔‘

ماہر معاشیات شوکا اہرمن سویڈن کے سب سے بڑے پنشن فنڈز، ایس پی پی سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین سوفٹ گرل ٹرینڈ کے تحت کام چھوڑ دیں گی کہ اس سے ملکی معیشت پر کچھ اثر پڑے۔

وہ پُرامید ہیں کہ سافٹ گرل کے حوالے سے حالیہ بحث سیاست دانوں اور کاروباری اداروں، دونوں کے لیے ایک انتباہی پیغام ہے کہ سویڈن میں جاری عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے ابھی بھی بہت کام ہونا باقی ہے۔

’اپنی ڈیلیوری تک گاہکوں کے ساتھ سیکس کرتی رہی‘: دنیا کا پہلا ملک جہاں سیکس ورکرز کو بھی بچوں کی پیدائش پر چھٹی ملے گیایسا ملک جہاں بیمار بچوں کی دیکھ بھال پر والدین کو تنخواہ ملتی ہےسویڈن: چھوٹا سا فلاحی یورپی ملک ’انتہائی امیر لوگوں کی جنت‘ میں کیسے بدلا؟’نوکری کرنی ہے، جاؤ پہلے شوہر سے اجازت لے کر آؤ‘ایران میں تبدیل ہوتا فیشن: ’یہ خواتین کی ہمت اور سوچمیں تبدیلی کا نتیجہ ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More