Getty Images
ایک ہفتہ قبل تک شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اُلٹنا ناقابل تصور تھا۔ اس وقت باغیوں نے شمال مغربی شام میں ادلب کے گڑھ سے اپنی جارحانہ مہم شروع کی تھی۔
یہ شام کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد نے 29 تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔
بشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔
پہلے یہ امید تھی کہ چیزیں مختلف ہوں گی، سب کام شفافیت سے ہوں گے اور ظلم کم ہوگا۔ مگر یہ توقعات دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔
اسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 60 لاکھ بے گھر۔
بشار الاسد: لندن میں امراض چشم کے ڈاکٹر سے شام کے آمر تکدمشق پر قبضے کا دعویٰ کرنے والا عسکریت پسند گروہ ’ہیئت تحریر الشام‘ جو ماضی میں القاعدہ کا اتحادی تھاکیا بشار الاسد کو ’مجرم‘ کہنے والے ترک صدر اردوغان شام میں باغیوں کی حمایت کر رہے ہیں؟شام کی جنگ میں اسرائیل کا امتحان: بشار الاسد کی بے ضرر حکومت کو بچائے یا باغیوں کی صورت میں ایک نیا خطرہ مول لے؟
روس اور ایران کی مدد سے اسد باغیوں کو کچل کر اپنے دور اقتدار کو وسعت دینے میں کامیاب رہے۔ روس نے اپنی فضائی طاقت استعمال کی جبکہ ایران نے شام میں اپنے فوجی معاون بھیجے۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے شام میں تربیت یافتہ جنگجو تعینات کیے۔
مگر اس بار یہ سب نہیں ہو سکا۔ شام کے اتحادی اپنے خود کے امور میں مصروف تھے اور انھوں نے شام کو تنہا چھوڑ دیا۔ ان کی مدد کے بغیر شامی دستے باغیوں کو روکنے میں ناکام رہے۔ بعض مقامات پر دستوں نے باغیوں کو روکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ان باغیوں کی قیادت سخت گیر اسلامی گروہ ہیئت التحریر الشام نے کی ہے۔
Getty Images
پہلے باغیوں نے حلب پر قبضہ کیا جو ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ انھیں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر حما اور کچھ دن بعد حمص جیسے اہم شہر بھی باغیوں کے ہاتھوں میں چلے گئے۔
دمشق تنہا رہ گیا تھا۔ یہ صرف کچھ گھنٹوں کی بات تھی۔ یوں باغی دارالحکومت میں داخل ہوئے جو اسد کی طاقت کا گڑھ تھا۔
’مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے‘
بلاشبہ یہ اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا خاتمہ ہے۔ اس تبدیلی خطے میں طاقت کے توازن کو بدل دے گی۔
خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ اسد کی قیادت میں شام ایرانیوں اور حزب اللہ کے بیچ رابطوں کا حصہ تھا۔ حزب اللہ کو ہتھیار اور گولہ بارود کی ترسیل میں اس کا اہم کردار تھا۔
ایک سال سے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حزب اللہ بھی کمزور ہوئی ہے اور اس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔
یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو بارہا فضائی کارروائیوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان تمام گروہوں کے علاوہ عراق میں ملیشیا اور غزہ میں حماس، ان سب کی مدد سے خطے میں ایران کا 'مزاحمت کا محود' تشکیل پاتا تھا۔ مگر اب اس نیٹ ورک کو سنگین نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اس نئی صورتحال کا خیر مقدم کیا جائے گا کیونکہ یہ ایران کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی کی مرضی کے بغیر یہ سب ممکن نہیں تھا۔ ترکی شام میں باغیوں کی حمایت کرتا ہے مگر اس نے ہیئت التحریر الشام کی پشت پناہی کے الزام کی تردید کی ہے۔
کچھ دیر تک صدر طیب اردوغان اسد پر زور دے رہے تھے کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا سفارتی حل تلاش کیا جائے تاکہ شامی پناہ گزین واپس لوٹ سکیں۔ ترکی میں ان کی تعداد تین لاکھ تک ہے جو مقامی سطح پر ایک حساس مسئلہ بن چکا ہے۔
مگر اسد نے اس سے انکار کیا۔
کئی لوگ اسد کی بے دخلی پر خوش ہیں۔ لیکن آگے کیا ہوگا؟ ہیئت التحریر الشام کی جڑیں القاعدہ سے ملتی ہیں اور اس کا ایک پُرتشدد ماضی ہے۔
کئی برسوں کے دوران اس گروہ نے خود کو شام کی ایک قومی قوت کے طور پر ظاہر کیا ہے۔ ان کے حالہ پیغامات میں سفارتی اور مفاہمتی سوچ جھلکتی ہے۔
مگر اس کے باوجود کئی لوگ پوری طرح مطمئن نہیں۔ انھیں تشویش ہے کہ حکومت گِرانے کے بعد وہ آگے کیا کریں گے؟
ان ڈرامائی تبدیلیوں سے شام میں طاقت کا خلا پیدا ہوسکتا ہے۔ نتیجتاً مزید افراتفری اور تشدد کا خدشہ ہے۔
بشار الاسد: لندن میں امراض چشم کے ڈاکٹر سے شام کے آمر تکدمشق پر قبضے کا دعویٰ کرنے والا عسکریت پسند گروہ ’ہیئت تحریر الشام‘ جو ماضی میں القاعدہ کا اتحادی تھاکیا بشار الاسد کو ’مجرم‘ کہنے والے ترک صدر اردوغان شام میں باغیوں کی حمایت کر رہے ہیں؟شام کی جنگ میں اسرائیل کا امتحان: بشار الاسد کی بے ضرر حکومت کو بچائے یا باغیوں کی صورت میں ایک نیا خطرہ مول لے؟شامی باغیوں کی دمشق کی جانب پیش قدمی: بشار الاسد کی قسمت ’غیر ملکی اتحادیوں کے ہاتھ میں‘