وہ مسلمان خاندان جنھیں ہندوؤں کے دباؤ میں آ کر اپنا گھر بیچنا پڑا

بی بی سی اردو  |  Dec 08, 2024

Getty Images

انڈیا میں ایک مسلمان خاندان کو ہندو ہمسائیوں کے احتجاج کے باعث اپنا مکان بیچنا پڑا ہے جس میں وہ ابھی رہائش پذیر بھی نہیں ہوئے تھے۔

ریاست اترپردیش کے شہر مراد آباد میں ایک مسلمان جوڑے نے جو دونوں میاں بیوی ڈاکٹر ہیں، ایک ہندو ڈاکٹر سے شہر کے متمول رہائشی بلاک ٹی ڈی آئی سٹی گھر خریدا تھا۔

جوں ہی اس خریداری کی خبر عام ہوئی وہاں کے ہندو رہائشیوں نے احتجاج شروع کر دیا۔

احتجاج کی ایک ویڈیو میں، جو وائرل ہو چکی ہے، رہائشیوں میں سے ایک، میگھا اروڑا کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ رہائشی ڈاکٹر اشوک بجاج نے ان سے مشورے کیے بغیر ایک مسلم خاندان کو اپنا گھر بیچ دیا ہے۔

انھوں نے کہا: ’ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک مسلم خاندان ہمارے مقامی مندر کے سامنے رہائش پذیر ہو۔ یہ ہماری خواتین کی حفاظت کا معاملہ بھی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ یہ فروخت منسوخ کی جائے اور انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نئے مالکان کے نام پر گھر کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ ہم کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کو یہاں آکر رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ جب تک وہ یہاں سے نہیں جاتے، ہم انھیں داخل نہیں ہونے دیں گے اور احتجاج جاری رکھیں گے۔‘

کئی رہائشیوں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر میں جا کر شکایت درج کروائی ہے اور دفتر کےباہر ڈاکٹر بجاج اور مسلم جوڑے کے خلاف نعرے بھی لگائے۔

احتجاج کرنے والے رہائشیوں نے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے ہیں۔

ڈاکٹر بجاج نے جمعہ کے روز بی بی سی کو بتایا کہ شہر کے منتخب نمائندے کی مدد سے مسئلہ حل کر لیا گیا ہے اور نئے مسلمان مالکان اپنا مکان ہندو خاندان کو دوبارہ فروخت کریں گے جو پہلے ہی اس رہائشی سوسائٹی میں رہ رہا ہے۔

ڈاکٹر بجاج نے، جو شہر میں ایک آنکھوں کا ہسپتال چلاتے ہیں اور اس سوسائٹی میں چھ سال سے زیادہ عرصے سے رہ رہے تھے، بتایا کہ انھوں نے یہ مکان مسلمان جوڑے کو فروخت کیا تھا جو دونوں ڈاکٹر ہیں اور جن کے خاندان ایک دوسرے کو 40 سالوں سے جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان جوڑا اب اس مکان میں منتقل ہونے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مکان کی فروخت پر ہونے والا تنازع غیر ضروری تھا اور انھیں توقع نہیں تھی کہ یہ قومی خبر بن جائے گا۔

احتجاج اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے مسلم جوڑے کو اپنے پڑوسیوں سے متعارف کرایا۔

انھوں نے کہا کہ مکان کی فروخت پر ہونے والے ردعمل نے انھیں ’حیران‘ کر دیا ہے کیونکہ کالونی میں پہلے سے ہی کئی مسلمان خاندان رہ رہے ہیں اور ’ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں‘۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ تنازع شہر کی ساخت کو تبدیل کر رہا ہے۔ ’اس فروخت سے کسی قسم کی بے چینی پیدا کرنا مقصد نہیں تھا۔ اور یہ کوئی غیر قانونی لین دین نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کالونی میں رہائشیوں کی کوئی ایسوسی ایشن بھی نہیں تھی جس سے اس فروخت کی منظوری کی ضرورت ہوتی۔ انھوں نے اچانک جاگ کر ایسی ایسوسی ایشن بنا لی ہے۔‘

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مراد آباد میں کسی ہندو اکثریتی علاقے میں مکانات خریدنے پر مسلم رہائشیوں کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ سنہ 2021 میں دو مسلمان خاندانوں نے ہندوؤں سے مکان خریدے تھے تو سخت گیر ہندو تنظیموں اور رہائشیوں نے احتجاج کیا تھا۔

انڈیا کے دیہی علاقوں میں علیحدہ رہائش کا رجحان طویل عرصے سے موجود ہے، جہاں مختلف ذاتوں اور مذاہب کے لوگ الگ الگ رہتے ہیں۔ شہری علاقوں کو ایسا مقام تصور کیا جاتا تھا جہاں لوگ مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ تاہم، حقیقت میں بہت سے شہری علاقے اب بھی علیحدگی کے رجحان کا شکار ہیں۔

کئی انڈین شہروں میں اقلیتی برادریوں، خاص طور پر مسلمانوں، کے خلاف امتیازی سلوک عام ہے، جہاں بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیز کھانے کی عادات جیسے سبزی خور ہونے پر اصرار کرتی ہیں تاکہ انھیں اس علاقے سے باہر رکھا جا سکے۔

گجرات اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں مسلمان اکثر کہتے ہیں کہ وہ ہندو محلوں میں گھر خریدنے یا کرائے پر لینے سے قاصر ہیں۔ چند سال پہلے، بالی ووڈ اداکار عمران ہاشمی اس وقت ہیڈلائنز میں آئے جب انھوں نے الزام لگایا کہ انھیں ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ممبئی میں فلیٹ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

قطب مینار سے اجمیر شریف کی درگاہ تک انڈیا میں وہ دس سے زیادہ مقامات جہاں ’مندر مسجد‘ کا تنازع چل رہا ہےکھانے پینے کی اشیا میں ’تھوک‘ اور ’پیشاب‘ ملانے کی مبینہ ویڈیوز: یوگی آدتیہ ناتھ کا نیا حکمنامہ تنقید کی زد میں کیوں ہے؟لوو جہاد اور ہندو خواتین کو چھیڑنے کے الزامات: ’یہ مسجد ٹوٹے گی، نہیں چاہتے مسلمان باہر سے یہاں آئیں‘اودے پور کے سکول میں ’نوٹ بُک کے جھگڑے‘ پر قتل: ’میرے بیٹے کو سزا ملنی چاہیے مگر پورے خاندان کو سزا کیوں دی گئی‘

دہلی یونیورسٹی میں سیاست اور عوامی پالیسی کے پروفیسر تنویر اعجازکہتے ہیں کہ مسلمان جوڑے کو ان کی پسند کا گھر خریدنے سے محروم کرنا ’امتیازی‘ اور مکمل طور پر ’غیر آئینی‘ ہے۔

’یہ ان کے بنیادی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ایک شخص کے مساوات اور آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور اگر اس طرح کے واقعات بڑھتے ہیں تو یہ ہندوستان کے آئین کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔‘

پروفیسر اعجاز کہتے ہیں کہ دلتوں (جنھیں پہلے اچھوت کہا جاتا تھا) اور خواتین جیسے کمزور گروہوں کے تحفظ کے لیے خصوصی حقوق ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کوئی قانون نہیں ہےجو ہندوستان میں سب سے زیادہ کمزور گروہ ہیں؟

Getty Imagesاداکار عمران ہاشمی نے 2009 میں شکایتکی تھی کہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نے ان کو مسلمان ہونے کی وجہ سے فلیٹ خریدنے سے روک دیا تھا

اس واقعے پر انڈیا میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔

مزاحیہ فنکار آکاش بنرجی نے ایکس پر لکھا: ویلکم ٹو نیو انڈیا۔ انھوں نے سوال کیا: ’ایک ڈاکٹر نے اپنا گھر دوسرے ڈاکٹر کو بیچا۔۔۔ آخر کیوں یہ مراد آباد کے ایک پوش ہاؤسنگ سوسائٹی میں بڑے احتجاج اور ہنگامے کی وجہ بنا؟‘

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رکن پارلیمنٹ جان بریٹاس نے لکھا: ’ہم بطور قوم ہمیشہ تنوع اور اتحاد پر فخر کرتے ہیں۔ ہمیں ان واقعات پر شرم آنی چاہیے۔‘

ایک اور صارف نے ایکس پر لکھا کہ جو لوگ اس جوڑے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، ’وہ نامعلوم یا گمنامافراد نہیں تھے۔ وہ لوگ تھے جو بغیر کسی خوف یا شرمندگی کے اپنی تعصب پسندی اور اسلاموفوبیا کا عوامی مظاہرہ کر رہے تھے۔‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا کی مسلم برادری کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں سے اکثریت بی جے پی کے زیر حکومت ریاستوں سے رپورٹ ہوئی ہے ۔۔۔ مراد آباد بھی بی جے پی کی حکمرانی والے اتر پردیش میں واقع ہے۔ بی جے پی ان الزامات کی ہمیشہ تردید کرتی ہے۔

پروفیسر اعجاز کا کہنا ہے کہ مراد آباد کا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی تفریق بہت گہری ہو چکی ہے۔‘

لیکن انھیں امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے۔

ان کے مطابق ’ہندومت پلورل ازم یعنی تکثیریت کے نظریے یا مل جل کر رہنے پر مبنی ہے۔ زیادہ تر لوگ جن سے میں ملتا ہوں وہ سمجھتے ہیں کہ نفرت ان کے مذہب کے خلاف ہے۔ اور یہی بات مجھے امید دلاتی ہے۔‘

’بچپن میں ٹوکری میں ڈال کر چھوڑ دیا، معلوم نہیں وہ سکھ ہیں، ہندو یا مسلمان‘محمد علی جناح کو ’انڈیا‘ کے نام پر کیا اعتراض تھا اور انھوں نے اسے ’گمراہ کُن‘ کیوں قرار دیا؟اپنے ہی ملک میں نظروں سے اوجھل: مودی کے انڈیا میں مسلمان ہونا کیسا ہے؟قطب مینار سے اجمیر شریف کی درگاہ تک انڈیا میں وہ دس سے زیادہ مقامات جہاں ’مندر مسجد‘ کا تنازع چل رہا ہےانڈیا میں مسجد کے سروے کے دوران چار افراد ہلاک: ’مسلمانوں کو یکطرفہ نشانہ بنایا گیا، پولیس سے لڑنے کی ہمت نہیں‘’بلڈوزر انصاف‘ پر انڈین سپریم کورٹ کی پابندی کے بعد مسلمانوں کے لیے کیا بدلے گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More