پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جلسے جلوس اور ریلیوں پر پابندی سے متعلق متنازع صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا گیا ہے۔ گزشتہ چار دن سے احتجاج کرنے والی جوائنٹ جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے متعدد مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے جن میں وہ متنازع صدارتی آرڈیننس بھی شامل ہے جس کی منظوری ایک ماہ قبل دی گئی تھی۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ 90 روز کے اندر 12 نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ پر عمل ہوگا۔
حکومت اس آرڈیننس کے تحت گرفتار کیے گئے رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کرنے پر بھی رضامند ہو گئی ہے۔ اتوار کی صبح راولاکوٹ سے جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما سردار لیاقت حیات اور ان کے ساتھیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔سنیچر کی شام دارالحکومت مظفرآباد سے گرفتار جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر مجتبیٰ بانڈے اور ان کے ساتھی علی شمریز کو رہا کر دیا گیا تھا۔جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے سرکردہ رکن شوکت نواز میر کچھ دیر میں معاہدے کی منظوری اور احتجاج ختم کرنے کا اعلان کریں گے۔کشمیر کی حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان معاملات طے پا جانے کے بعد مظفرآباد میں گذشتہ چار دن سےجاری شٹر ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے۔سنیچر کی سہ پہر جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد مختلف اضلاع سے مظاہرین نے پاکستان کو کشمیر سے ملانے والے انٹری پوائنٹس کی جانب مارچ کا آغاز کر دیا تھا۔30 اکتوبر کو لائے گئے ایک صدارتی آرڈیننس کے بعد کشمیر میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے (فوٹو:سکرین گریب)جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے گزشتہ ڈیڑھ برس سے کشمیر میں حکومت مخالف تحریک جاری ہے۔ رواں برس مئی میں حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں شامل کچھ مطالبات کو منظور کر لیا تھا۔اس کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی دیگر مطالبات کے لیے سرگرم رہی لیکن 30 اکتوبر کو حکومت کی جانب سے لائے گئے ایک صدارتی آرڈیننس کے بعد کشمیر میں ایک مرتبہ پھر احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔اس دوران آل پارٹیز رابطہ کمیٹی کے نام سے ایک اور پلیٹ فارم بھی تشکیل دیا گیا جس نے مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن کے مختلف شہروں میں بڑے احتجاجی مظاہرے کیے۔ اس مظاہروں کے دوران کئی مظاہرین گرفتار کیے گئے۔جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے نومبر میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس ’متنازع صدارتی آرڈیننس کو فوری طور پر منسوخ اور اس کے تحت گرفتار کیے افراد کو رہا کیا جائے۔‘