Getty Images
جنوبی شام میں باغی فورسز نے ملک کے اہم علاقے درعا کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سنہ 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاجی تحریک نے جنم لیا تھا۔
شام کی جنگ پر نظر رکھنے والے ادارے سیرین آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس کے مطابق ’مقامی گروہ‘ سرکاری فوج کے ساتھ شدید لڑائیوں کے بعد علاقے میں متعدد عسکری مقامات کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق باغیوں سے قریب ذرائع نے انھیں بتایا کہ جنگجوؤں اور شامی فوج کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں فوجی اہلکاروں کو علاقے سے نکلنے کا محفوظ راستہ دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ شام کا دارالحکومت اس علاقے سے صرف 100 کلومیٹر دور ہے۔
شامی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی علاقوں میں حمص شہر کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے اطراف میں فضائی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
سیرین آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس کی جانب سے آنے والی اطلاعات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شامی فوج اب دمشق شہر سے صرف 10 کلومیٹر دور تک محدود ہے۔ تاہم شامی فوج نے اطلاعات کی تردید کی ہے اور بی بی سی بھی اس معلومات کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
خیال رہے اس سے قبل ہیئت تحریر شام کی قیات میں شامی باغی شام کے دو بڑے شہروں حلب اور حماہ پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کی توجہ کا مرکز حمص شہر ہے۔
سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہیئت تحریر شام کے سربراہ ابو محمد الجولانی اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ ان کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹنا ہے۔
ہیئت تحریر شام پہلی مرتبہ جبھہ النصرہ کے نام سے 2010 کے اوائل میں منظر عام پر آئی تھی جو کہ القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم تھی لیکن پھر جولائی 2016 میں گروہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔
Getty Images
سنہ 2017 میں انھوں اس تںظیم کا نام تبدیل کر کے ہیئت تحریر شام رکھ دیا۔
شام میں سرکاری فوج اور باغیوں کی لڑائی ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گئی ہیں اور خطے اور مغربی قوتیں بھی اس تنازع میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متحرک نظر آ رہی ہیں۔
لیکن دیگر ممالک کی بات کرنے سے پہلے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت اور اس کے اتحادی اس تنازع پر کیا مؤقف رکھتے ہیں۔
شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کا باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ
صدر بشار الاسد نے باغیوں کو 'دہشتگرد' قرار دیتے ہوئے انھیں 'کُچل' دینے کا اعلان کیا ہے۔
رواں مہینے کی دو تاریخ کو اپنے ایرانی ہم منصب مسعود پزشکیان کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران صدر بشار الاسد نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پر شام میں دخل اندازی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان قوتوں کا مقصد خطے کے 'نقشے کو تبدیل' کرنا ہے۔
شام کی جنگ میں اسرائیل کا امتحان: بشار الاسد کی بے ضرر حکومت کو بچائے یا باغیوں کی صورت میں ایک نیا خطرہ مول لے؟شامی باغیوں کی دمشق کی جانب پیش قدمی: بشار الاسد کی قسمت ’غیر ملکی اتحادیوں کے ہاتھ میں‘حلب کے بعد حما پر بھی باغیوں کا قبضہ: شام میں کون سا علاقہ کس کے کنٹرول میں ہے؟بیرونی مفادات، تیل کے کنویں اور آمرانہ حکومت: شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ کیوں مشکل ہے؟
اس گفتگو کے دوران ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا تھا کہ ان کی حکومت 'شامی حکومت اور لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے' اور شام کی خودمختاری اور زمینی حدود کی حفاظت ایران کی پالیسی کا حصہ ہے۔
صدر بشار الاسد کے دوسرے اتحادی روس نے بھی شام کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ روس حلب کے اطراف کی صورتحال کو 'شامی خودمختاری پر حملہ' تصور کرتا ہے اور وہ اس 'حق میں ہیں کہ شامی حکام اس علاقے میں امن قائم کریں اور وہاں آئینی قوانین کو لاگو کریں۔'
Getty Images
جمعے کو روس نے اپنے شہریوں کو شام سے نکل جانے کا مشورہ بھی دیا ہے۔
شام کی صورتحال پر امریکہ اور مغربی ممالک کا مؤقف
2 دسمبر کو امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں تمام فریقین سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ کشیدگی میں کمی لائیں، سویلیز اور ان سے منسلک عمارتوں کو نقصان نہ پہچائیں اور انسانی حقوق کا خیال رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2015 میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد کے تحت شام میں سیاسی تنازع کا سیاسی حل نکالا جائے۔
خیال رہے یہ چاروں ممالک شامی صدر بشار الاسد کے مخالفین میں شامل ہیں۔
30 نومبر کو وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان شان شیوٹ نے کہا تھا کہ بشار الاسد کا سیاسی عمل میں شامل ہونے سے انکار اور ان کے 'روس اور ایران پر انحصار' نے ملک میں 'موجودہ واقعات کو جنم دیا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ امریکہ کا شام میں جاری لڑائی سے کوئی تعلق نہیں۔
ترکی کی شام میں اتنی دلچسپی کیوں؟
ترکی اس وقت شام کی صورتحال میں سب سے زیادہ دلچپسی لیتا ہوا نظر آ رہا ہے اور اس کا ثبوت صدر رجب طیب اردوغان سمیت سینیئر حکام کے حالیہ بیانات ہیں۔
جمعے کو ترکی کے صدر اردوغان نے کہا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ باغی فورسز شامی دارالحکومت دمشق تک پیش قدمی جاری رکھیں گی۔ تاہم انھوں نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ باغیوں کے بیچ 'دہشتگرد تنظیمیں' بھی موجودہ صورتحال کا فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔
جمعے کو ہی ترکی کے وزیرِ خارجہ ھاکان فیدان نے کہا تھا کہ 'شام کی صورتحال کو کسی بھی بیرونی دخل اندازی کی نگاہ' سے دیکھنا ایک غلطی ہوگی۔ انھوں نے شام حکومت سے درخواست کی کہ وہ 'اپنے لوگوں اور اصلی اپوزیشن کے ساتھ مفاحمتی عمل شروع کرے۔'
خیال رہے شام میں برسرِ پیکار باغی گروہوں میں ایسے گروہ بھی شامل ہیں جن کی حمایت ترکی کر رہا ہے۔ ماضی میں صدر اردوغان شامی صدر بشار الاسد کے لیے 'مجرم اور دہشتگرد' جیسے الفاظ بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
تاہم اپنی حالیہ تقریر میں وہ شام میں جاری صورتحال پر محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ انھوں نے اپنی اس تقریر میں نہ صرف 'اتحاد قائم رکھنے، شام کی خودمختار اور استحکام' کے حوالے سے بات کی بلکہ صدر بشار الاسد کو مشورہ بھِی دیا کہ وہ 'صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے حقیقت پر مبنی سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔'
Getty Images
ان کا کہنا تھا کہ 'ماضی میں ہم نے اسد کو دعوت دی تھی کہ آئیں ساتھ مل کر شام کا مستقبل طے کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے انھوں نے ہمیں کوئی مثبت ردِعمل نہیں دیا۔'
استنبول میں واقع ایک تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر باقر عطاغان کا کہنا ہے کہ 'اردوغان نے متعدد مرتبہ اسد سے کہا ہے کہ آئیں ساتھ مل کر ترکی اور شام کو درپیش مسائل کا مل کر سامنا کرتے ہیں لیکن شامی صدر نے ہمیں کنارہ کشی اختیار کی۔'
صدر اردوغان کے حالیہ بیانات کا تجزیہ کرتے ہوئے عطاغان نے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے باغیوں کی پیش قدمی کے دوران ترکی کے صدر شامی صدر کو کہہ رہے ہوں کہ 'اگر آپ ہمارے ساتھ آ کر نہیں بیٹھتے تو ہم آپ کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے ہیں۔'
'ایسا لگتا ہے جیسے وہ اسد کو بتا رہے ہوں کہ شامی اپوزیشن کی طرح وہ بھی اس معاملے میں فاتح بن کر اُبھرے ہیں۔'
امریکی تھنک ٹینک نیولائنز انسٹٹیوٹ فور سٹریٹجی اینڈ پالیسی سے منسلک محقق کیرولین روز کہتی ہیں کہ صدر اردوغان کے حالیہ بیانات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ترکی شام کی 'حکومت کو کمزور' کرنا چاہتا ہے۔
کیا ترکی صدر بشار الاسد مخالف گروہوں کی حمایت کر رہا ہے؟
کیرولین روز کہتی ہیں کہ 'اشارے یہی مل رہے ہیں کہ ترکی بھی اس معاملے میں سیرین نیشنل آرمی نامی گروہ کی حمایت کرکے اس تنازع میں بلاواسطہ کردار نبھا رہا ہے۔'
تاہم تجزیہ کار عطاغان اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ترکی پر متعدد ممالک یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اس سارے عمل میں باغیوں کی حمایت کر رہا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ شام میں باغی گروہ سمجھتے ہیں کہ صدر اردوغان نے بشار الاسد کو ساتھ بیٹھنے کی پیشکش کر کے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ترکی کسی بھی مسلح گروہ کے اقتدار میں آنے کے بجائے صدر بشار الاسد کے اقتدار میں رہنے کو ترجیح دے گا کیونکہ 'اسد تمام چیزوں کو کنٹرول میں رکھنا پسند کرتے ہیں اور ریاست اور اس کے اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔'
Getty Images
اس سے قبل ماضی میں ترکی ہیئت تحریر شام کے خلاف بھی شمالی مغربی شام میں لڑائیاں لڑتا رہا ہے۔
شامی باغیوں میں ترکی کی حمایت کرنے والا اتحاد سیرین نیشنل آرمی بھی شامل ہیں جس میں جیش الاسلام، سلطان مراد، حمزہ اور سلیمان شاہ گروپس بھی شامل ہیں۔
بشار الاسد مخالف باغیوں کے ایک دھڑے کے سابق سربراہ عبدالباسط سدعا نے بی بی سی کو بتایا کہ شام میں اپوزیشن گروہوں کے ترکی سے تعلقات ہیں اور یہ اب کوئی خفیہ بات نہیں ہے۔
'ترکی باغیوں کی عسکری سطح پر حمایت نہیں کرتا'
ماہرِ عسکری امور احمد حمادہ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ترکی باغیوں کی عسکری سطح پر حمایت نہیں کرتا ہے۔'
حمادہ پہلے شامی فوج کا حصہ تھے اور بعد میں اس سے الگ ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'باغیوں کے زیرِ استعمال ہتھیار شامی فوج کے ہیں اور اس وقت بھی شامی انجینیئرز ادلب کی یونیورسٹیز میں ڈرون تیار کر رہے ہیں۔'
انھوں نے دعویٰ کیا کہ 'ترکی نے اس تنازع میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا بلکہ تمام عسکری کام اپوزیشن (باغیوں) نے خود انجام دیے ہیں۔'
تاہم شامی سیاسی تجزیہ کار غزان یوسف شام میں جاری عسکری مہمات کا ذمہ دار ترکی کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ ترکی نے 'حلب اور ادلب کو گھیرا ہوا ہے اور وہ ہی مسلح گروہوں کو تربیت دینے اور ان کے شہروں پر قبضوں کا ذمہ دار ہے۔'
انھوں نے دعویٰ کیا کہ بشار الاسد مخالف گروہوں کو 'ہتھیار اور احکامات ترکی سے ہی موصول ہوتے ہیں۔'
دوسری جانب عبدالباسط سدعا کہتے ہیں کہ شام میں باغی قوتوں کے آگے بڑھنے سے ترکی کو بھی فائدہ ہوگا: خطے میں ان کی اہمیت بڑھے گی اور انھیں ایران سے لاحق خطرات بھی کم ہوجائیں گے۔
'ترکی کو لاحق خدشات کی اصل وجہ ایران ہی ہے۔'
ابو محمد الجولانی: شامی فوج کو ’حیران کن‘ شکست سے دوچار کرنے والے گروہ کے ’پراسرار‘ سربراہحلب میں جنگ: کیا ایران کے لیے غزہ اور لبنان کے علاوہ شام میں بھی حالات مشکل ہو گئے ہیں؟’ایران کو دھچکا‘: شام کے شہر حلب پر قبضہ کرنے والا عسکریت پسند گروہ جو ماضی میں القاعدہ کا اتحادی تھاترکی کی ’دہشت گردوں کے خلاف جنگ‘ اور بمباری: ’یہاں پینے کا پانی سونے سے زیادہ قیمتی ہے‘بیروت جو کبھی ’عرب دنیا کا پیرس‘ کہلاتا تھا اور جہاں فیض احمد فیض نے پناہ لیدریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہ