Getty Images
یہ دسمبر 1950 کی بات ہے جب بی بی سی کے ایک کیمرا مین پیانگ یانگ کے سقوط کی تصویر کشی کر رہے تھے اور یہ وقت کوریا کی جنگ میں ایک اہم موڑ تھا۔
اس واقعے کے ایک عرصہ بیت جانے کے بعد تاریخ نے دیکھا کہ کس طرح اس تنازعے نے اس ملک اور وہاں کے لوگوں، جزیرہ نما کے مستقبل کا تعین کیا اور دنیا کو ایٹمی تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا۔
بی بی سی نے اس بحران کے دوران 5 دسمبر 1950 کو پیانگ یانگ کے جلتے ہوئے شہر سے بھاگنے کی کوشش کرنے والے مایوس شمالی کوریائی باشندوں کی تصاویر نشر کیں۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا: 'شہر سے باہر جانے والی تمام سڑکیں پناہ گزینوں سے بھری ہوئی ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے تھے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔'
یہ فوٹیج بی بی سی کے کیمرہ مین سیرل پیج نے شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ میں اپنے قیام کے آخری گھنٹوں کے دوران حاصل کی تھیں۔ سیرل پیج نے جب یہ سنا کہ قابض اقوام متحدہ کے فوجی وہاں سے نکل رہے ہیں تو وہ اس سے پیدا ہونے والی افراتفری اور خوف کی عکاسی کرنے اور اسے دستاویزی شکل دینے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے کیونکہ اس کے ساتھ یہ خبر پھیل گئی تھی کہ چینی فوجی آ رہے ہیں۔ سخت سردیوں کے موسم میں انھوں نے خوفزدہ پناہ گزینوں کی فلمبندی کی جن کے پیچھے جلتی عمارتوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
جنرل ڈگلس میک آرتھر کی قیادت میں اقوام متحدہ کی افواج نے ایک خوف زدہ انخلاء کا تجربہ کیا جو کہ ایک ڈرامائی تبدیلی کی علامت تھا۔ چند ہفتے قبل جنرل نے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین سے کہا تھا کہ وہ کوریا کو متحد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پیانگ یانگ شہر کے سقوط اور شمالی کوریا میں ان کی قیادت میں حملے کی مکمل ناکامی نے میک آرتھر کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دینے پر مجبور کر دیا۔
کوریائی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی تباہی اور خونریزی چھ ماہ قبل شروع ہو چکی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے قبل کے سالوں میں کوریا کو جاپانی قبضے کے تحت نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ امریکہ نے اپنے جنگی اتحادی سوویت یونین کو تجویز پیش کی کہ جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد وہ دونوں عارضی طور پر کوریا کا کنٹرول حاصل کر لیں گے۔ اس کے پس پشت ان کا یہ خیال تھا کہ اس سے انھیں جاپانی افواج کو ہٹانے میں مدد ملے گی۔
سنہ 1945 میں ان دونوں سپر پاورز نے 38ویں متوازی لائن کے تحت من مانے ڈھنگ سے اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ سوویت یونین نے کوریا کے شمالی حصے میں جمہوری عوامی کوریا میں کم ال سنگ کی حمایت کی جبکہ امریکہ نے جنوبی کوریا میں سینگ مین ری کی حمایت کی۔
ابتدائے آفرینش سے ہی نئی بننے والی کوریائی حکومتوں میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کی قانونی حیثیت یا قائم کردہ حد بندی اور لائن کو قبول نہیں کیا۔ ایس او اے ایس (سواس) یونیورسٹی آف لندن کے کورین سٹڈیز مرکز کے ڈاکٹر اوون ملر نے سنہ 2024 میں بی بی سی ہسٹری میگزین کے پوڈ کاسٹ کو بتایا: 'کوریائی باشندوں نے اسے کبھی بھی جائز یا بامعنی نہیں سمجھا۔ یہ ان کے لیے بالکل بے معنی تھا۔' قائدین طاقت کے ذریعے ملک کو دوبارہ متحد کرنا چاہتے تھے۔ سنہ 1949 تک دونوں سپر پاورز یعنی امریکہ اور سوویت روس نے کوریا سے اپنی زیادہ تر قابض فوجیں نکال لی تھیں، لیکن اس سے بڑھتے ہوا تناؤ کم نہیں ہوا اور ڈی فیکٹو بارڈر پر مسلسل خونریز جھڑپیں ہوتی رہیں۔
25 جون 1950 کو شمالی کوریا کے کمیونسٹ رہنما کم ال سنگ نے اپنی چال چلی۔ صبح سوریر انھوں نے 38ویں پیرالل کے پار ایک اچھی تربیت یافتہ لڑاکا فورس کے ساتھ اچانک حملہ کیا۔ سوویت ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا کے فوجیوں نے جنوبی کوریا کی فوج کو تیزی سے زیر کر لیا۔ چند ہی دنوں کے اندر انھوں نے جنوب کے دارالحکومت سیئول پر قبضہ کر لیا۔ اس کے نتیجے میں جنوبی کوریا کے بہت سے باشندوں کو کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے یا قید یا پھانسی کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ میں صدر ٹرومین شمالی کوریا کے حملے کی رفتار اور کامیابی سے محفوظ رہے۔ 'ڈومینو تھیوری' پر یقین رکھنے والے ٹرومین نے نو تشکیل شدہ اقوام متحدہ سے جنوبی کوریا کا دفاع کرنے کی اپیل کی۔ ڈومینو نظریہ یہ ہے کہ اگر ایک ملک کمیونزم کے زیر اثر آ جاتا ہے تو دوسرا اس کی پیروی کرتا ہے۔
سوویت یونین اس کو ویٹو کر سکتا تھا لیکن اس وقت وہ عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بائیکاٹ کر رہا تھا۔ اور اس طرح، 28 جون 1950 کو ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک سے حملے کو پسپا کرنے میں مدد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکی جنرل میک آرتھر کو اقوام متحدہ کی مشترکہ فورس کا کمانڈر نامزد کیا گیا۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ان کے سامنے ہی جاپان نے ہتھیار ڈالے تھے۔
Getty Imagesلہروں کا رخ موڑنا
امریکہ نے سب سے پہلے اس قرارداد پر عمل کرتےہوئے جلد بازی میں جاپان میں تعینات اپنے فوجی بھیجے۔ لیکن یہ فوجی شمالی کوریا کی بڑی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ شمالی کوریا کی جس فوج نے ملک پر تیزی سے قبضہ کیا تھا انھوں نے امریکی فوجیوں کو بھی پیچھے دھکیل دیا۔
جنگ کے شروع ہوتے ہی اس تنازعے میں پھنس جانے والے ہزاروں شہری مارے گئے۔ ستمبر تک، جنوبی کوریائی اور اقوام متحدہ کی افواج جنوبی سرے پر بوسان کی بندرگاہ کے گرد ایک چھوٹے سے انکلیو کا دفاع کر رہی تھیں جبکہ شمالی کوریا پورے جزیرہ نما کوریا کو دوبارہ متحد کرنے کے دہانے پر کھڑا نظر آ رہا تھا۔
میک آرتھر نے ایک بڑا خطرہ مول لیتے ہوئے شمالی کوریا کے پیچھے گہری بندرگاہ انچون سے ایک خطرناک، سمندری حملے کا فیصلہ کیا۔ اور بھاری بمباری کے کے دوران اقوام متحدہ کی افواج 15 ستمبر 1950 کو وہاں اتریں اور بندرگاہ پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد وہ تیزی سے سیول پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے آگے بڑھی۔
دارالحکومت پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد اس کے دسیوں ہزار باشندوں کو جنھوں نے شہر کے سابقہ قابض شمالی کوریا سے وفاداری کا حلف لیا تھا، انھیں جنوبی کوریائی فوج نے یہ کہتے ہوئے گولی مار دی کہ وہ شمالی کوریا کے وفادار ہیں۔ یہ عام شہریوں کا پہلا اندھا دھند خوفناک قتل عام تھا جس کے بعد جنگ کے دوران اس قسم کے مزید واقعات پیش آئے۔
ڈاکٹر ملر نے کہا: 'جنگ کے دوران بہت سارے قتل عام ہوئے، محاذ پر ہی نہیں بلکہ محاذ سے دور بھی جہاں لوگوں کو اس لیے پکڑا گیا کہ انھیں غدار سمجھا گيا۔'
انچون آپریشن شمالی کوریا کی فوج کی سپلائی لائنوں اور مواصلات کو منقطع کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اقوام متحدہ کی افواج بوسان سے باہر نکلنے اور شدید جوابی حملہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اس حملے نے تنازعہ کا رخ موڑ دیا جس سے شمالی کوریا کے فوجیوں کو 38ویں متوازی سرحد کے پار شمال کی طرف اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔
لیکن اقوام متحدہ کی قرارداد کو حاصل کرنے کے بعد میک آرتھر نے کمیونسٹ قوتوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا عزم کر لیا اور انھوں نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ وہ سرحد کے پار شمالی کوریائیوں کا تعاقب کریں۔
19 اکتوبر 1950 تک اقوام متحدہ کی افواج نے پیانگ یانگ پر قبضہ کر لیا تھا اور چینی سرحد پر دریائے یالو کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ چند ماہ قبل جنوبی کوریا کے لیے جو صورت حال بہت گھمبیر تھی اب اس کے برعکس دکھائی دے رہی تھی۔
’ایران سے ویتنام تک‘ شمالی کوریا نے مختلف تنازعاتمیں کن ممالک کی اور کیسے مدد کی؟دنیا کی سب سے مسلح سرحد پر چھڑی ’کچرے کی جنگ‘ جس میں غباروں کے ذریعے پاخانہ تک پھینکا گیاروس نے کیسے شمالی کوریا میں تیار کردہ میزائل یوکرین پر برسائے؟شمالی کوریا جہاں پھٹی جینز پہننے والوں کی تلاش میں پولیس قینچی لیے سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے
ٹرومین ایک ایسے تنازعے کو بڑھانے میں ہچکچا رہے تھے جو نہ صرف چین بلکہ روس کو بھی کھینچ سکتا تھا اور یہ عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا تھا۔ خیال رہے کہ اس وقت تک روس نے بھی اپنا ایٹم بم تیار کر لیا تھا۔ لیکن میک آرتھر کو یقین تھا کہ وہ ایک تیز، فیصلہ کن فتح کے دہانے پر ہیں جو ملک کو مغرب نواز جنوبی کوریا کی قیادت میں دوبارہ متحد کر دے گی۔ انھوں نے صدر کو یقین دلایا کہ کرسمس تک جنگ ختم ہو جائے گی۔
لیکن چین کی سرحد کی جانب اقوام متحدہ کی تیزی سے پیش قدمی نے چین کے کمیونسٹ رہنما ماؤ زے تنگ کو بے چین کر دیا۔ ملک کی دہلیز پر مخالف مغربی فوجی طاقت کے خوف سے اس نے چینی فوج کو حکم دیا کہ وہ اپنی سرحد پر خفیہ طور پر اکٹھے ہو جائیں تاکہ میک آرتھر کی تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی فوج کو روک سکے۔ نومبر کے آخر میں، تباہ کن طور پر چین نے اچانک کوریائی جنگ کا رخ پھر سے بدل دیا۔
ہزاروں چینی فوجیوں نے اقوام متحدہ کی افواج کی پیش قدمی پر تباہ کن حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اور اقوام متحتد کی فوج کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ یخ بستہ سردیوں کے حالات میں میک آرتھر کے دستے کو اس علاقے کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے کے لیے جدوجہد کا سامنا تھا اور وہ اسے حاصل کرنے میں قاصر رہے جس پر انھوں نے کچھ ہفتے قبل قبضہ کیا تھا۔
دریائے چونگچون کی لڑائی میں چینی فوجیوں نے اقوام متحدہ کی افواج کو تباہ کن شکست دی اور اسے امریکی میرین کور کی تاریخ میں سب سے بڑی اور خونریز پسپائی کہا جاتا ہے۔
Getty Images1950 کی جنگایٹمی خطرہ
جیسے ہی چینی جارحیت نے زور پکڑا پیانگ یانگ کے شہری، جنھیں اقوام متحدہ کی افواج نے دو ماہ سے بھی کم عرصہ قبل اپنے قبضے میں لے لیا تھا، دوبارہ طوفان کی زد میں آ گئے۔ مسلسل چینی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام میک آرتھر نے شہر کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کے دستوں نے انخلاء کی تیاری شروع کر دی اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ کسی بھی ایسے ہتھیار اور ساز و سامان کو جلا دیں جو قریب آنے والے فوجیوں کی مدد کر سکے۔ اور اس حکم کی وجہ سے شہر کی بہت سی عمارتیں آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔ شمالی کوریا اور چینی افواج نے اقوام متحدہ کی افواج کی مدد کرنے کے والوں کے خلاف کارروائی کی بات کہی تھی۔ ایسے میں ہزاروں خوفزدہ اور تھکے ہوئے پیانگ یانگ کے باشندے شہر چھوڑ کر بھاگنے لگے۔
منجمد کر دینے والے موسم میں بی بی سی کے کیمرامین پیج نے ان کوریائی باشندوں کی برطانوی فوج کی نگرانی میں فلم بندی کی۔ جب فوجیں شہر چھوڑ کر روانہ ہوئیں تو پھنس جانے والے لوگ تائیڈونگ دریا کے اس پار جانے کی شدت سے کوشش کر رہے تھے۔
بی بی سی نے اس وقت رپورٹ کیا تھا کہ 'فوجی گاڑیوں کو ترجیح دینے کی وجہ سے پناہ گزینوں کو پیانگ یانگ کے جنوب میں دریائے تائیڈونگ کے پلوں کو عبور کرنے کی اجازت نہیں تھی۔' دوسری جانب شمالی کوریا کی پیش قدمی کو مسدود کرنے کی کوشش میں آخری فوجی گاڑی کے گزر جانے کے بعد امریکی انجینیئر ان پلوں کو اڑانے کے لیے اسے کھود رہے تھے۔ بی بی سی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 'اس کے باوجود شہر میں چھوٹ جانے کے خوف سے ہزاروں افراد نے دریا کے کنارے تک پہنچنے کا راستہ بنا لیا۔ وہا ہر قسم کی کشتیاں دریا پار لے جانے کے لیے تیار کی جا رہی تھیں۔
پیج کو خود شام ہونے سے پہلے ہوائی اڈے سے نکلنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جب وہ ہوائی اڈے پر پہنچے تو انھیں پتا چلا کہاس کا بھی زیادہ تر حصہ جل چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے دستے کسی بھی ایسے مواد کو تباہ کرنے میں مصروف تھے جو ان کے خیال میں شمالی کوریا کے فوجی استعمال کر سکتے تھے۔
بی بی سی نے بتایا کہ اندھیرا چھانے کے بعد دہکتے ہینگرز اور ورکشاپ نے رات میں آسمان روشن کر دیا۔ 'آدھی رات تک ہوائی اڈے کے قریب سینکڑوں نجی مکانات آگ کی لپیٹ میں تھے۔'
جیسے ہی پیج کا طیارہ روانہ ہوا انھوں نے پیانگ یانگ میں اپنی آخری شاٹس لیں جو کبھی میک آرتھر کی فتح کا تاج تھا وہ اب اس کی فوجی حکمت عملی کی ناکامی کی علامت لگ رہا تھا۔
بی بی سی نے رپورٹ کیا: 'جب ہمارا کیمرہ مین نے پیانگ یانگ کے ہوائی اڈے سے نکلا، تو تقریباً فجر کا وقت تھا، اور جب ان کا طیارہ جو آخری طیاروں میں سے ایک تھا انھیں حدود سے باہر لے جا رہا تھا انھوں نے اقوام متحدہ کی پسپائی سے بہت نیچے دور جنوب کا راستہ پڑا دیکھا جس پر گاڑیوں کی بظاہر کبھی نہ ختم ہونے والی قطار سے اٹھنے والے دھول کے بادل تھے۔'
چھ دسمبر 1950 کو جیسے ہی چینی اور شمالی کوریا کی افواج پیانگ یانگ میں دوبارہ داخل ہوئیں جنگ کو ختم کرنے کی امریکی حکمت عملی ایک بہت زیادہ خطرناک خیال کی طرف بڑھنے لگی۔ جنرل کے اپنے اختیار سے تجاوز کرنے اور براہ راست احکامات کو نظر انداز کرنے کے رجحان کی وجہ سے ٹرومین کے میک آرتھر کے ساتھ ہمیشہ مشکل تعلقات تھے۔ اب کوریا میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر دونوں افراد جنگ کے متعلق بار بار آپس میں الجھتے پائے گئے۔
میک آرتھر نے ٹرومین کے ان خدشات کو یکسر مسترد کر دیا تھا کہ ماؤ زے تنگ مداخلت کر سکتے ہیں۔ اب وہ جنگ کو بڑھانے کے لیے عوامی سطح پر وکالت کرنے لگے۔ انھوں نے دلیل دی کہ امریکہ کو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دینا چاہیے اور چین پر خود بمباری کرنی چاہیے جب تک کہ کوریا میں کمیونسٹ قوتیں ہتھیار نہ ڈال دیں۔
میک آرتھر اس خیال کے اکیلے حامی نہیں تھے۔ کوریائی جنگ کے دوران امریکی سٹریٹجک ایئر کمانڈ کے سربراہ کرٹس لی مے بھی پیشگی حملے کے حق میں تھے۔ لی مے کا خیال تھا کہ جوہری جنگ قابل رشک ہے، بعد میں صدر جان ایف کینیڈی کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ انھیں کیوبا کے میزائل بحران کے دوران جوہری میزائل کے مقامات پر بمباری کرنے کی اجازت دی جائے۔
جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے قابل عمل ہونے کے اس اصرار نے کوریائی تنازع میں پھنسے ہوئے اقوام متحدہ کے دیگر ممالک کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ان میں برطانیہ کے وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی بھی تھے جو اس خیال پر اعتراض کرنے کے لیے واشنگٹن ڈی سی گئے تھے۔ لیکن میک آرتھر اٹل تھے کہ ان کا منصوبہ کام کرے گا۔ انھیں یہ یقین تھا کہ روسی خوفزدہ ہو جائیں گے اور چین پر کیے جانے والے امریکی حملے پر کچھ نہیں کریں گے۔
Getty Images'وہیں پہنچے جہاں سے شروع ہوئے تھے'
نو دسمبر سنہ 1950 کو میک آرتھر نے باضابطہ طور پر اتھارٹی سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی صوابدید کی درخواست کی۔ ٹرومین نے انکار کر دیا۔ دو ہفتے بعد میک آرتھر نے حملوں کے اہداف کی ایک فہرست پیش کی جس میں چین کے اندر بھی حملہ شامل تھا اور اس کے لیے ایٹم بموں کی تعداد بھی درج تھی۔
وہ پینٹاگون پر زور دیتے رہے کہ وہ انھیں فیلڈ کمانڈر کی صوابدید دے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کو ضرورت کے مطابق استعمال کرسکیں۔ دسمبر 1950 کے آخر تک اقوام متحدہ کی افواج کو 38 ویں پیرالل کے پار پیچھے دھکیل دیا گیا تھا، چینی اور شمالی کوریا کے فوجیوں نے جنوری سنہ 1951 میں سیول شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔
ڈاکٹر ملر نے کہا: 'اگر کرٹس لی مے جیسے کمانڈروں کی صدر سنتے تو وہ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے تھے کیونکہ لی مے اور میک آرتھر جیسے کمانڈر انھیں استعمال کرنا چاہتے تھے۔ انھوں کا خیال تھا کہ 'جوہری ہتھیار رکھنے کا کیا فائدہ اگر ہم انہیں استعمال نہ کیا جائے؟' جبکہ ٹرومین کو میک آرتھر کو کنٹرول کرنے کے متعلق یقین نہیں تھا اور انھیں اس بات کا خدشہ تھا کہ جنرل کا جارحانہ انداز تیسری جنگ عظیم کو بھڑکا سکتا ہے، صدر نے انھیں نافرمانی پر اپریل 1951 میں برطرف کر دیاتھا۔
کوریا کی جنگ مزید دو سال تک جاری رہی۔ سیول چوتھی بار پھر دوسرے کے ہاتھوں میں آيا۔ کوئی بھی فریق فیصلہ کن فتح حاصل کرنے میں کامیاب نہ رہا جس کی وجہ سے یہ ایک طویل، خونریز جنگ میں بدل گئی۔
ڈاکٹر ملر نے کہا: 'جنگ کی ایک بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ 1951 کے موسم بہار میں اس مقام پر، جہاں دونوں افواج کی فرنٹ لائن ہے 38 ویں پیرالل سرحد بٹوارے کی لکیر سے زیادہ دور نہیں۔ دونوں طرف سے تمام بڑے نقصانات، مکمل شہری تباہی کے بعد وہ کم و بیش وہیں واپس آ گئے جہاں سے انھوں نے شروع کیا تھا۔'
دونوں ممالک نے بالآخر 1953 میں ایک غیر معمولی جنگ بندی کے ساتھ لڑائی ختم کر دی۔ لیکن انھوں نے امن معاہدے پر دستخط نہیں کیے، یعنی تکنیکی طور پر وہ ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔ تنازعہ جزیرہ نما کے لیے تباہ کن تھا۔
اس جنگ کے متعلق اندازے مختلف ہیں، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کوریا کی جنگ کے دوران تقریباً 40 لاکھ لوگ مارے گئے، جن میں سے نصف عام شہری تھے۔ بہت سے لوگ بے گھر ہوئے یا بھوکے رہ گئے۔ فضائی کارپٹ بمباری نے ملک کے پورے پورے قصبوں اور شہروں کو تباہ کر دیا۔ تقسیم سے الگ ہونے والے خاندان کبھی دوبارہ نہیں مل سکے۔
کئی دہائیوں کے بعد بھی دونوں ممالک ایک ایسے منجمد تنازعہ میں پھنسے ہوئے ہیں، جو 250 کلومیٹر کے غیر فوجی علاقے سے ایک دوسرے سے الگ ہیں جو بارودی سرنگوں سے ڈھکے ہوئے ہیں اور سیکڑوں فوجیوں کی حفاظت میں ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ کی میراث جو ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔
کِم جونگ اُن: چین کے اتحادی سے ’بدترین دوست‘ تکشمالی کوریا جہاں پھٹی جینز پہننے والوں کی تلاش میں پولیس قینچی لیے سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہےلاکھوں کا کمیشن اور برسوں کی جیل کا خوف، شمالی کوریا پیسے بھیجنا کسی جاسوسی فلم سے کم نہیںشمالی کوریا کے ’پروپیگنڈا ماسٹر‘ جنھوں نے برسر اقتدار کِم خاندان کی شخصیت پرستی کو عروج دیا ’آپ کسی بھی گمنام ویب براؤزر کے ذریعے ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں‘: سی آئی اے کی مخبر بھرتی کرنے کی نئی مہمکوریا کی ’جل پریاں‘ جنھوں نے ملالہ یوسفزئی کو تیراکی سیکھنے پر مجبور کیا