امریکی سپریم کورٹ نے سنہ 2019 کے وفاقی قانون کے درست ہونے کو پرکھنے سے اتفاق کیا ہے جو اسرائیل یا کسی دوسری جگہ پر حملوں میں زخمی یا ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے بنایا گیا تھا۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایک ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ امریکی متاثرین اور اُن کے اہلخانہ کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین کی آزادی کی تحریک کے خلاف مقدمات دائر کرنے کا قانون نظام انصاف اور امریکہ کے آئین کے مطابق نہیں۔اس فیصلے کے خلاف صدر جو بائیڈن کی حکومت اور متاثرین کے گروپ کی اپیلوں پر سپریم کورٹ کے ججز سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔اس قانون کو ’پروموٹنگ سکیورٹی اینڈ جسٹس فار وکٹمز آف ٹیررزم ایکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ شہریوں کا تحفظ اور اُن کو دہشت گردی کا شکار ہونے کے بعد انصاف کی فراہمی۔توقع کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ اگلے سال جون کے اختتام تک اس کیس میں دونوں اطراف کے دلائل سُنے گی۔ ان اپیلوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا جب غزہ پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملے ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ہیں۔گزشتہ برس سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے جنگجوؤں نے دیرینہ تنازعے کے دوران غزہ سے اسرائیلی شہری آبادی اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے تھے جس کے بعد دہائیوں سے جاری اس لڑائی میں شدت آئی۔امریکی عدالتوں میں برسوں سے اس معاملے پر بحث ہو رہی ہیں کہ آیا ان کے پاس فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او کے خلاف بیرون ملک کی جانے والی کارروائیوں کے خلاف فیصلے دینے کا اختیار ہے۔سنہ 2019 میں بنائے گئے امریکی قانون کے الفاظ کی تشریح یوں کی جا رہی ہے کہ اس کے تحت فلسطین کی آزادی کی تحریک (پی ایل او) اور فلسطینی اتھارٹی خود امریکی ہی دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے پر ’رضامندی‘ ظاہر کریں گی اگر وہ امریکہ میں سرگرمیاں کرتے ہیں یا ایسے افراد کو ادائیگی کرتی ہیں جو امریکیوں پر حملے کرتے ہیں۔سپریم کورٹ میں قانونی چارہ جوئی کرنے والے مدعیوں میں وہ خاندان شامل ہیں جنہوں نے سنہ 2015 میں ایک دیوانی مقدمے میں 655 ملین ڈالر کے ہرجانے کا کیس جیتا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ فلسطینی تنظیمیں سنہ 2002 سے سنہ 2004 تک یروشلم کے ارد گرد فائرنگ اور بم دھماکوں کی ذمہ دار تھیں۔مقدمے کے مدعی کے مطابق پی ایل سے وابستہ افراد اور اور فلسطینی اتھارٹی کے اہلکاروں نے ان حملوں کی منصوبہ بندی کی، حملوں کے لیے ہدایات دیں اور ان میں حصہ لیا۔ مین ہٹن میں قائم سیکنڈ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے 2016 میں اس فیصلے کو ختم کر دیا تھا۔فلسطینی حکام کے خلاف امریکی متاثرین نے برسوں قبل مقدمہ دائر کیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پیمقدمے کے مدعیوں نے سرکٹ کورٹ سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لیے کہا تاہم درخواستوں کو خارج کر دیا گیا جس کے بعد امریکہ کی سپریم کورٹ میں حکومت اور مدعیوں کی جانب سے اپیلیں دائر کی گئیں۔متاثرہ خاندانوں کے وکیل کینٹ یالووٹز نے امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے اپیلوں کو سماعت کے لیے مقرر کیے جانے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور متاثرہ خاندان اپنے حق میں دیے گئے ماتحت عدالت کے فیصلے کو بحال کرنے کے لیے پُرامید ہیں۔