تحریک انصاف کے کارکنوں کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے ڈی چوک پرسرپرائز انٹری اور حکومت کی ناکامی پر ابھی آگے کیا ہو گا، پر تجزیے تبصرے شروع ہی ہوئے تھے کہ چند گھنٹوں میں ایسا کیا ہوا کہ نہ صرف مظاہرین منتشر ہو گئے بلکہ قافلے کی مرکزی قیادت ’فرار‘ ہونے پر مجبور ہو گئی۔حکومت نے رینجرز کی مدد سے پوری قوت سے مظاہرین کو منتشر کرنے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس میں اسلام آباد کے داخلی راستے 26 نمبر چونگی سے ڈی چوک کی جانب سے پہلے مارچ کی کال اور بعد میں خود قیادت کی جانب دھرنے کے مقام کے بارے میں متضاد بیانات نے بظاہر ہوا کا رخ بدلنے میں مدد کی۔ڈی چوک جانے کی کالپاکستان تحریک انصاف کا خیبر پختونخوا سے آنے والا احتجاجی قافلہ پیر کی شام سات بجے کے قریب اسلام آباد میں داخل ہوا، جہاں 26 نمبر چونگی پر کنٹینرز کی طویل دیواروں، پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کی مدد سے پی ٹی آئی کے کارکنان کو بھر پور طریقے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔اس دوران پی ٹی آئی کارکنان اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔جب 26 نمبر چنگی کے مقام پر پی ٹی آئی احتجاجی قافلے اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تصادم ہو رہا تھا تو وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور حکومتی شخصیات کے درمیان احتجاجی دھرنے کو لے کر بات چیت بھی جاری تھی۔اس بات چیت کے دوران یہ تجویز سامنے آئی کہ پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے کسی ایک مقام جس میں 26 نمبر چونگی بھی شامل تھا، میں دھرنے کی اجازت دے دی جائے گی، اگر وہ ڈی چوک کی طرف پیش قدمی نہیں کرتے۔اس تجویز پر پی ٹی آئی قیادت نے اتفاق کیا اور حتمی منظوری کے لیے بیرسٹر گوہر نے عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی۔ پی ٹی آئی کارکنان اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان بھی شدید جھڑپیں ہوئیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر سیف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عمران خان نے 26 نمبر چونگی پر ہی دھرنا دینے کی منظوری دے دی تھی۔جب پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے حکومت کی طرف سے 26 نمبر چونگی پر دھرنا دینے کی تجویز علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کے سامنے رکھی تو عمران خان کی اہلیہ نے 26 نمبر چونگی کی بجائے ڈی چوک کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کیا۔بیرسٹر سیف کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’میں اور علی امین گنڈاپور ڈی چوک احتجاج کے حق میں نہیں تھے۔ جناح ایونیو پر پہنچنے کے بعد بھی ہم چاہتے تھے کہ کلثوم ہسپتال سے آگے نہ بڑھیں تاہم پی ٹی آئی ورکرز ڈی چوک جانے پر بضد تھے۔‘یوں منگل کی دوپہر پاکستان تحریک انصاف کا قافلہ بالآخر ڈی چوک پہہنچ آیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کارکنان ڈی چوک پر موجود کنٹینرز کے اوپر بھی چڑھ دوڑے۔اسلام آباد میں سکیورٹی فورسز کی بھاری نفریہ تعینات تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)تاہم قیادت کے اتفاق رائے اور مربوط حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کارکنان زیادہ دیر ڈی چوک پر محاذ سنبھالنے میں کامیاب نہ ہوئے اور منگل کی سہ پہر سکیورٹی اہلکاروں نے کارکنان کو چائنہ چوک سے پیچھے دھکیل دیا اور پھر وہ دوبارہ ڈی چوک نہ پہنچ سکے۔رینجرز کا آخری آپریشنکلثوم چوک اور اطراف میں موجود کارکنان کے خلاف رینجرز نے رات نو بجے آخری آپریشن کیا اور پھر دو گھنٹوں میں سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کر کے جناح ایونیو کو کلیئر کروا دیا گیا، جبکہ احتجاجی قافلے کی قیادت کرنے والے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا اور عمران خان کی اہلیہ دوبارہ خیبر پختونخوا روانہ ہو گئے۔ کچھ گھنٹے قبل راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں عبور کرنے والا قافلہ ڈی چوک پہنچنے پر منتشر ہو کر پسپائی کا شکار ہو گیا۔