افغانستان کا دریائے آمو جہاں تیل اور گیس کی تلاش میں چین اور روس پیش پیش ہیں

بی بی سی اردو  |  Nov 24, 2024

Getty Images

خطے کے دو طاقتور ترین ممالک روس اور چین ان دنوں افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں میں تعاون کے لیے مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال ان دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کا حال ہی میں افغانستان کا دورہ ہے۔

چند روز قبل روسی سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے کابل کا دورہ کر کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس دوران افغانستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق طالبان کے زیرِ انتطام افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل نے 17 نومبر کو ایک رپورٹ میں کہا کہ ’نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے کابل میں روسی اور افغان سرمایہ کاروں کے ایک گروہ سے ملاقات کی ہے۔

روسی سرمایہ کاروں نے ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ روس مختلف شعبوں میں افغانستان میں نہ صرف سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے بلکہ اپنے تجربات بھی ان کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے۔

روسی سرمایہ کاروں نے توانائی، صنعت، تجارت، نقل و حمل، زراعت، ریلوے اور صحت سمیت بنیادی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اجلاس میں روسی تاجروں کی جانب سے انفراسٹرکچر، صنعت، تجارت، ٹرانسپورٹ، زراعت، ریلوے اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔‘

رپورٹ کے مطابق عبدالغنی برادر نے کہا کہ طالبان حکومتروسی سرمایہ کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی اور ملک میں پُرامن ماحول ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگارثابت ہو گا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں چین کی کمپنی افچین کی جانب سے دریائے آمو کے بیسن (طاس) میں تیل کے مزید 18 کنوؤں کی کھدائی اور گیس کی تلاش کی تلاش کا کام بھی شروع کیا جا چکا ہے۔

افغانستان میں روسی سرمایہ کاری

ایک ایسے وقت میں جب ایک چینی کمپنی کی مدد سے شمالی افغانستان میں خام تیل نکالنے کا کام جاری ہے، چین کی طرح روس بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ افغانستان میں گیس، تیل اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے۔

روس نے اس مد میں ذرائع نقل و حمل، زراعت اور صنعت کے شعبوں اور افغانستان میں سابق سوویت یونین کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

ان منصوبوں سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ روس افغانستان کے ساتھ اقتصادی شراکت دار اور جغرافیائی سیاسی اتحادی دونوں کی طرز پر تعلقات کو وسعت دینے پر آمادہ ہے۔

کیا پڑوسیوں سے خراب تعلقات انڈیا کو افغان طالبان کی طرف دھکیل رہے ہیں؟پختونستان تنازع اور پاکستان پر افغان فوج کا حملہ: جب باجوڑ کے پہاڑ افغان توپ خانے کی گھن گرج سے گونج اٹھےاربوں ڈالر کے وہ امریکی طیارے جو افغان طالبان اپنے ہمسایہ ملک سے واپس لانا چاہتے ہیںمشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی جو طالبان حکومت کے لیے ہزاروں ڈالر کمانے کا سبب بن رہی ہے

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مغرب کے ساتھ کشیدہ صورت حال اور یوکرین میں جنگ کے باعث عائد اقتصادی پابندیوںنے روس کو اس اقدام پر آمادہ کیا ہے کہ وہ اب اپنے ایشیائی ہمسایوں کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ بھی کاروبار اور تجارت کو فروغ دے۔

طالبان حکومت کی وزارتِ اقتصادی امور کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں ملا عبدالغنی برادر نے روس اور چین کے وفود کے دورے کے حوالے سے کہا کہ افغانستان میں اس وقت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بہت سے مواقع موجود ہیں، جن میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ لگا سکتے ہیں۔

اگرچہ افغانستان کے قرب و جوار کے پڑوسی ممالک نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا ہے، لیکن وہ اب وہاں امریکہ اور مغرب کی غیر موجودگی میں زیادہ دلچسپی لیتے ہوئی دکھائی آ رہے ہیں۔

اس کا ایک ثبوت مختلف روسی اور چینی سرمایہ کاروں کا وقتاً فوقتاً افغانستان کا دورہ کرنا ہے، اس دوران افغانستان سرمایہ کاری اور تجارت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔

گزشتہ تین سالوں کے دوران جب سے افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد میں کمی آئی ہے، طالبان حکومت نے ملک کے قدرتی وسائل کے حصول پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کار اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کریں۔

افغانستان تیل و گیس، معدنیات اور وسیع قدرتی وسائلسے مالا مال ملک ہے۔ تاہم گزشتہ چار دہائیوں کی جنگوں کی وجہ سے ان وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔

افغانستان میں متعدد معدنیات کے ذخائر ہیں جن میں تانبہ، ماربل، سونا، تیل، قدرتی گیس، یورینیم اور لیتھیم شامل ہیں، جن کی مالیت گذشتہ حکومت نے ایک کھرب سے تین کھرب ڈالر کے درمیان بتائی تھی۔

Getty Images

ان قدرتی وسائل میں دریائے آمو کے اطراف آئل فیلڈ بھی شامل ہے جہاں ’افچین‘ نامی چینی کمپنی کچھ عرصے سے تیل نکالنے میں مصروف ہے۔

حال ہی میں طالبان کی حکومت نے کہا کہ اس کمپنی نے دریائے آمو میں موجود آئل فیلڈ میں مزید 18 کنوؤں کی کھدائی شروع کر دی ہے۔

دریائے آمو میں تیل کے ذخائر اور چینی سرمایہ کاری

اس علاقے میں پہلے ہی 23 دیگرتیل کے کنویں فعال ہیں اور طالبان حکام کے مطابق ان سے روزانہ تقریباً 5000 بیرل تیل نکالا جاتا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً 1500 لوگ تیل نکالنے کے کام سے وابستہ ہیں۔

افچین کمپنی کے تعلقات عامہ کے عہدے دار امرالدین علیزی نےسرکاری نیوز ایجنسی بختار میں لکھا کہ یہ نئے کنویں صوبہ جوزجان، سرپل اور فاریابمیں واقع ہیں ۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہان کنوؤں کی کھدائی کا کام 2025 میں مکمل ہو جائے گا۔

افچین کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے تیل کی تلاش کے لیے ان صوبوں کے 1160 مربع کلومیٹر کے علاقے میں سروے شروع کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ آمو دریا کے بیسن سے نکالے جانے والا تیل افغانستان کے اندر ریفائن کیا جاتا ہے۔

افغانستان میں تیل صاف کرنے کے شعبے میں تقریباً 12 کمپنیاں سرگرم عمل ہیں۔

Getty Images

کچھ عرصہ قبل تیل صاف کرنے والی ان کمپنیوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے پاس یومیہ ساڑھے چار ہزار ٹن تیل صاف کرنے کی صلاحیت ہے لیکن وہ اس صلاحیت اور ریفائننگ کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

افغانستان کے شمال میں دریا ئےآمو میں تیل کی تلاش کے ساتھ ساتھ چین نے لوگر میں واقع تانبے کی کان، ہرات میںلوہے کی کان، غوریان اور تخار میں موجود سونے کی کان میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔

طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد چین نے افغانستان کے ساتھ اپنی تجارت کو بھی بڑھایا ہے اور اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل اس نے قازقستان اور ازبکستان کے راستے اس ملک کے ساتھ مال بردار ٹرینوں کی آمدورفت دوبارہ شروع کی تھی۔

چین چاہتا ہے کہ افغانستان اس کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ بنے۔

واضح رہے کہ طالبان حکومت کی جانب سے صوبہ بدخشاں میں واخان راہداری پر بھی کام جاری ہے۔

جب پاکستانی F-16 نے سوویت یونین کا لڑاکا طیارہ مار گرایاچین اور روس کے درمیان فاصلے قربتوں میں کیسے بدلے؟وہ ’معاشی معجزہ‘ جس نے چین کو غربت کی دلدل سے نکال کر عالمی طاقت بنا دیاچین ’فوجی سفارت کاری‘ کے ذریعے خطے میں بڑھتے امریکی اثرو رسوخ کا مقابلہ کیسے کر رہا ہے؟کیا ٹرمپ کی نئی ٹیم کی ترجیحات میں پاکستان اور انڈیا بھی شامل ہوں گے؟کِم جونگ اُن: چین کے اتحادی سے ’بدترین دوست‘ تک
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More