انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کی مسابقت ایشز کی حیثیت حاصل کرتی جا رہی ہے لیکن پہلے ایسا نہیں تھا۔ جب ان دونوں کے درمیان دو طرفہ سیریز کو بورڈر-گاوسکر ٹرافی کا نام نہیں دیا گیا تھا اس سے قبل تک انڈین ٹیم آسٹریلیا کے سامنے ہمیشہ کم تر نظر آتی رہی۔22 نومبر کو انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان پرتھ کے میدان پر جب میچ شروع ہوا تو یہ ان دونوں ٹیموں کے درمیان 108 واں میچ تھا۔ اس سے قبل کھیلے جانے والے 107 میچوں میں سے آسٹریلیا نے 45 میں کامیابی حاصل کر رکھی ہے جبکہ انڈیا کو 32 میں جیت حاصل ہوئی ہے اور بقیہ میچز ڈرا جبکہ ایک ٹائی رہا ہے۔
سنہ 1996 میں دونوں ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیموں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایشز کی طرح ان دونوں کے درمیان ہونے والی ٹیسٹ سیریز کا بھی ایک نام ہو۔ چنانچہ دنیا بھر میں ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے پہلے 10 ہزار رنز مکمل کرنے والے انڈین بیٹسمین سنیل گاوسکر اور پھر ان کے بعد 10 ہزار رنز مکمل کرنے والے آسٹریلین بیٹسمین ایلن بورڈر کے نام پر اس ٹرافی کا نام بورڈر-گاسکر ٹرافی رکھا گيا۔
اور اس بابت یہ فیصلہ کیا گیا کہ ٹرافی اس ٹیم کے پاس رہے گی جو سیریز جیتے گا، اور اگر سیریز برابر رہتی ہے تو وہ اسی ٹیم کے پاس رہے گی جس کے پاس پہلے تھی۔ چنانچہ 1996 کے بعد سے ان دنوں کے ٹیموں کے درمیان اب تک 56 میچز ہو چکے ہیں، جن میں سے 24 میچز انڈیا کے نام رہے جبکہ 20 میں آسٹریلیا نے فتح سمیٹی اور محض 12 میچز برابری پر ختم ہوئے ہیں۔سنہ 2017 سے یہ ٹرافی مستقل انڈیا کے پاس ہے اور جب کوہلی کی ٹیم نے آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں شکست دی تھی تو پاکستان کے سابق کپتان اور سابق وزیراعظم عمران خان نے انہیں مبارک باد دی تھی کیونکہ کسی ایشین ٹیم کے لیے یہ بڑا کارنامہ تھا۔بورڈر-گاوسکر ٹرافی کے علاوہ دونوں ٹیموں کے درمیان 51 ٹیسٹ ہوئے ہیں جن میں سے 25 میچوں میں آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی ہے جبکہ انڈیا کو محض آٹھ میچز میں کامیابی ملی ہے، جبکہ آسٹریلوی سرزمین پر اسے صرف تین میچوں میں کامیابی ملی ہے۔ گذشتہ برس انگلینڈ میں کھیلے گئے ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی۔بہرحال انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ بہت دلچسپ رہی ہے۔ یوں تو غیرمنقسم ہندوستان کو ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کا درجہ سنہ 1932 میں ہی مل گیا تھا لیکن آسٹریلیا نے اسے اس لائق نہیں سمجھا کہ اس کے ساتھ میچ کھیلے۔انڈین ٹیم جب 1947 میں آسٹریلیا پہنچی تو وہاں یہی موسم تھا جس میں آج کی انڈین ٹیم روہت شرما کی قیادت میں دورہ کر رہی ہے۔ (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)لیکن پھر 1946 میں آسٹریلین کپتان آرتھر لنڈسے ہیسیٹ نے آسٹریلیا کی ایک غیرسرکاری ٹیم کے ساتھ انڈیا کا دورہ کیا۔ اس ٹیم کا نام آسٹریلین سروسز ٹیم تھا اور اس نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف اتحاد کی جیت کی خوشی میں یہ دورہ کیا تھا۔اس سے قبل سنہ 1936 میں ایک آسٹریلین ٹیم نے انڈیا اور سیلون (آج سری لنکا) کا دورہ کیا تھا جہاں اس نے 17 فرسٹ کلاس میچز کھیلے جن میں انڈیا کے خلاف چار ٹیسٹ میچز بھی تھے اور دونوں ٹیم نے دو دو ميچوں میں کامیابی حاصل کی۔اس کے بعد لنڈسے ہیسیٹ کی قیادت میں جس ٹیم نے انڈیا کا دورہ کیا اسے تین میں سے دو ٹیسٹ میچوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ ایک میں اسے جیت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اس نے آسٹریلیا جا کر یہ پیغام دیا کہ انڈین ٹیم اس لائق ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف اسے مدعو کیا جا سکتا ہے۔چنانچہ اس کے بعد آسٹریلین کرکٹ بورڈ نے انڈیا کو ٹیسٹ سیریز کی دعوت دی جو کہ ان دونوں ٹیم کے درمیان پہلا باضابطہ مقابلہ ٹھہرا لیکن اس دوران ہندوستان کی تقسیم نے انڈین ٹیم کی بنیاد ہلا کر رکھ دی۔ اس ٹیم کے کپتان وجے مرچنٹ نے ٹیم سے اپنا نام واپس لے لیا جبکہ روسی مودی بھی شرکت نہ کر سکے۔وجے مرچنٹ کی جگہ نوجوان لالہ امرناتھ کو کپتانی سونپی گئی جبکہ ہندوستانی ٹیم کے نوجوان تیز بالر فضل محمود پاکستان جانے کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے جبکہ اسی درمیان مشتاق علی کے بھائی کی وفات نے انہیں بھی اس دورے سے دور رکھا۔وجے ہزارے دونوں اننگز میں سینچریاں بنانے والے پہلے انڈین بیٹر ہیں۔ (فائل فوٹو: پی اے)ہندوستان کی تقسیم اور بے شمار جانوں کے ضیاع کے باوجود انڈین ٹیم جب 1947 میں آسٹریلیا پہنچی تو وہاں یہی موسم تھا جس میں آج کی انڈین ٹیم روہت شرما کی قیادت میں دورہ کر رہی ہے۔دوسری جانب آسٹریلیا کی بریڈمین کی قیادت میں ’ناقابل تسخیر‘ ٹیم تھی۔ اگرچہ انڈین ٹیم کا پہلا مقابلہ آسٹریلین الیون سے تھا اور اس میں بریڈمین نے شاندار سینچری (172 رنز) بھی سکور کی تھی لیکن انڈیا کو اس میں 47 رنز سے کامیابی حاصل ہوئی۔اس کے بعد 28 نومبر 1947 کو برسبین میں جب پہلا ٹیسٹ میچ شروع ہوا تو آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور بریڈمین نے ایک بار پھر سینچری سکور کی۔ اس بار انہوں نے 185 رنز بنائے۔ آسٹریلیا نے آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 382 رنز بنا کر اننگز کے خاتمے کا اعلان کیا۔انڈین ٹیم آسٹریلیا کی کنڈیشن اور برسبین کی تیز وکٹ سے خود کو ہم آہنگ نہ کر سکی اور محض 58 رنز بنا کر آل آوٹ ہو گئی۔ ارنی ٹوشاک نے 15 گیندوں پر دو رنز دے کر پانچ وکٹیں لیں۔ کپتان لالہ امرناتھ نے سب سے زیادہ 22 رنز بنائے۔انڈین ٹیم کو فالو آن ہو گیا اور انڈین ٹیم اس بار 98 رنز پر آوٹ ہو گئی، ارنی نے اس اننگز میں چھ وکٹیں لیں اور مجموعی طور پر 11 وکٹیں لیں۔سڈنی میں کھیلا جانے والا میچ ڈرا رہا۔ آسٹریلیا اپنی پہلی اننگز میں صرف 107 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی جبکہ انڈیا نے پہلی اننگز میں 188 رنز بنائے تھے۔ انڈیا کی جانب سے وجے ہزارے نے چار وکٹیں جبکہ دتو پھڈکر نے تین وکٹیں لیں۔تیسرا ٹیسٹ میچ میلبرن میں تھا جس میں بریڈمین نے دونوں اننگز میں سینچریاں بنائی جبکہ انڈیا کے وینو منکڈ نے بھی سینچری سکور کی، یہ کسی انڈین کی آسٹریلیا میں پہلی سینچری تھی۔ یہ میچ انڈیا 233 رنز سے ہار گیا۔ڈان بریڈمین نے چھ اننگز میں 178 رنز سے زیادہ کی اوسط سے 715 رنز بنائے۔ (فوٹو: نیوز ڈاٹ آسٹریلیا)چوتھا ٹیسٹ ایڈیلیڈ میں 23 جنوری کو شروع ہوا۔ بریڈمین نے ڈبل سینچری (201) سکور کی جبکہ لنڈسے ہیسٹ نے 198 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی اور آسٹریلیا نے 674 رنز بنائے۔وجے ہزارے اور دتو پھڈکر کی سینچریوں کے باوجود انڈیا کو فالو آن ہو گیا اور دوسری اننگز وجے ہزارے نے پھر سے سینچری سکور کی لیکن ٹیم کو اننگز کی شکست سے نہ بچا سکے۔ بہر حال اس طرح وہ دونوں اننگز میں سینچری سکور کرنے والے پہلے انڈین بنے۔یہ میچ آسٹریلیا ایک اننگز اور 16 رنز سے جیت گیا اور اس طرح پانچ میچ کی سیریز بھی اپنے نام کر لی۔میلبرن کے پانچویں اور آخری میچ میں انڈیا کو ایک اننگز اور 177 رنز سے شکست ہوئی۔ بریڈمین نے چھ اننگز میں 178 رنز سے زیادہ کی اوسط سے 715 رنز بنائے جبکہ اس کے بعد انڈیا کے وجے ہزارے نے 10 اننگز میں 429 رنز بنائے۔بریڈمین کی اس وقت کی ٹیم کو ’ناقابل تسخیر‘ کہا جانے لگا تھا، اور اس کے سامنے تقسیم کے زخم سے چور انڈین ٹیم چار صفر سے سیریز ہار گئی لیکن یہ پیغام دے گئی کہ اس ملک میں کرکٹ کا جنون کس حد تک ہے۔