’حملے کے تین گھنٹے بعد بھی دھماکے‘: روس کا وہ پراسرار ’اوریشنِک‘ میزائل جو معمہ بن گیا

بی بی سی اردو  |  Nov 24, 2024

Getty Images

رواں ہفتے جمعرات کو یوکرین کے شہر دنیپرو میں ہونے والا ایک روسی فضائی حملہ گذشتہ حملوں سے شدت کے اعتبار سے تھوڑا مختلف تھا اور عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ فضائی حملے کے بعد تقریباً تین گھنٹے بعد تک دھماکے سنے جاتے رہے ہیں۔

اس فضائی حملے میں استعمال ہونے والا میزائل اتنا طاقتور تھا کہ اس کے بعد یوکرینی حکام نے کہا کہ اس میزائل میں بین البراعظمی میزائل والی ساری خصوصیات موجود تھیں۔

تاہم مغربی حکام نے یوکرینی حکام کے دعوے کی فوراً ہی تردید کر دی اور کہا کہ بین البراعظمی میزائل حملے کے نتیجے میں امریکہ میں فوراً نیوکلئیر آلرٹ جاری ہو جاتا۔

اس حملے کے کچھ گھنٹوں بعد روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ روس نے یوکرین پر حملے میں ایک نئے ’درمیانی رینج‘ کے میزائل کا استعمال کیا تھا جس کا کوڈ نیم ’اوریشنِک‘ ہے۔ روسی زبان میں ’اوریشنِک‘ کا لفظ ہیزل کے درخت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

صدر پوتن کا کہنا تھا کہ یہ ہتھیار تین کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اپنے ہدف تک پہنچا تھا اور ’فی الحال اسے روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ روسی حملے میں دنیپرو میں عسکری انڈسٹریل مقام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ انھوں نے اس میزائل حملے کو ایک ’کامیاب‘ تجربہ قرار دیا کیونکہ ان کا ’ہدف پورا‘ ہو گیا ہے۔

اپنی تقریر کے ایک دن بعد دفاعی حکام سے بات کرتے ہوئے صدر پوتن نے مزید کہا تھا کہ اس میزائل کے تجربے جاری رہیں گے ’بشمول جنگی صورتحال میں۔‘

پوتن نے اس ہتھیار کی وضاحت تو دی ہے لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم نہیں کہ آخر یہ ہتھیار ہے کیا۔

یوکرینی انٹیلیجنس حکام کا ماننا ہے کہ یہ بین البراعظمی ’سیڈر‘ میزائل کی ایک قسم ہے، جس نے یوکرین میں اپنے ہدف تک پہنچنے میں 15 منٹ لیے۔

یوکرین کا شہر دنیپرو میزائل فائر کیے جانے والے مقام سے ایک ہزار سے زیادہ کلومیٹر دور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میزائل میں چھ وارہیڈز نصب تھے۔

Getty Images

بی بی سی ویریفائی نے فضائی حملے کی ویڈیو کا معائنہ کیا ہے اور ان کی تحقیق یوکرینی حکام کے اندازے سے مطابقت رکھتی ہے۔

جس مقام پر روسی فضائی حملہ ہوا وہ دنیپرو شہر کے جنوب مشرق میں واقع ایک انڈسٹریل علاقہ ہے۔

میزائل کی رفتار اہم کیوں ہوتی ہے؟

اگر صدر پوتن کی بتائی گئی میزائل کی خصوصیات درست ہیں تو ’اوریشنِک‘ میزائل کا شمار ہائپرسونک میزائلوں میں کیا جا سکتا ہے۔

کسی بھی میزائل کی رفتار اس لیے اہم ہوتی ہے کیونکہ جتنی تیز اس کی رفتار ہوگی اُتنی ہی جلدی وہ اپنا ہدف تک پہنچ جائے گا۔ اگر میزائل برق رفتاری سے اپنے ہدف تک پہنچے گا تو مخالف عسکری قوت کے پاس اس کا ردِعمل دینے کے لیے وقت بھی کم ہوگا۔

ایک بیلسٹک میزائل اپنے ہدف کی طرف نیچے سے اوپر اور پھر اوپر سے نیچے کی سمت میں بڑھتا ہے۔ لیکن جب یہ نیچے کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی رفتار میں تیزی آتی ہے اور یہ اپنا دفاع کرتے ہوئے ہدف کی طرف بڑھتا ہے۔

اسی سبب میزائل مخالف نظام کے لیے اسے ہوا میں ہی تباہ کرنا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔

یوکرین کا روس میں برطانوی ساختہ میزائل سے حملہ: سٹارم شیڈو نامی میزائل کیا ہے اور یوکرین کے لیے اہم کیوں ہے؟اینٹی میزائل سسٹمز کو چکمہ دینے والے انڈیا کے ہائپرسونک میزائل میں ایسا خاص کیا ہےامریکی پابندیوں کی زد میں آنے والا پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام کیا ہے؟’معمول‘ کی مشق یا ’امریکہ کو پیغام‘: چار دہائیوں بعد بین الاقوامی سمندری حدود میں چین کا میزائل تجربہ غیرمعمولی کیوں ہے؟

تاہم ان خطرات سے بچاؤ کا طریقہ نکالنا فوجوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن میزائل کی رفتار جتنی زیادہ ہو گی اس کو روکنا اُتنا ہی مشکل ہو گا۔

اس لیے صدر پوتن نے اس میزائل کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے خصوصاً اس کی رفتار پر کافی زور دیا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق روس کی جانب سے فائر کیے گئے تقریباً 80 فیصد میزائل اب تک یوکرین نے روکے ہیں۔

تاہم روس کی جانب سے فائر کیا جانے والا نیا میزائل اپنی برق رفتاری کے سبب یوکرین کے لیے مشکل کھڑی کر سکتا ہے۔

اس نئے میزائل کی رینج کیا ہے؟

روس سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرِ عسکری امور نے روسی حکومت کے حامی ایک اخبار کو بتایا کہ ’اوریشنِک‘ممکنہ طور پر وہ نیا میزائل ہوسکتا ہے جس کو انتہائی خفیہ طریقے سے بنایا گیا تھا اور یہ ایک درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہوسکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ممکنہ طور پر یہ (اوریشنِک) درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے روسی میزائلوں کی نئی جنریشن کا حصہ ہے جس کی رینج ڈھائی ہزار سے تین ہزار کلومیٹر تک ہو سکتی ہے یا پھر اس رینج کو تین سے بڑھا کر پانچ ہزار کلومیٹر بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ بین الابراعظمی میزائل نہیں ہے۔‘

یعنی یہ میزائل یورپ تک پہنچنے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن امریکہ تک پہنچنے کی نہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ ’اوریشنِک‘ میزائل ’یارس ایم کمپلیکس‘ بین الابراعظمی میزائل کا نچلا ورژن ہے۔

اس سے قبل یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں تھیں کہ روس ایسے نئے میزائلوں پر کام کر رہا ہے۔

عسکری امور کے ایک اور ماہر دمتری کورنو نے روسی اخبار کو بتایا کہ ’اوریشنِک‘ بنانے کی بنیاد مختصر فاصلے تک مار کرنے والے اسکندر میزائل ہو سکتا ہے۔

Getty Images

اسکندر کا انجن بڑا ہوتا ہے اور اس کا تجربہ جنوبی روس میں گذشتہ موسمِ بہار میں کیا گیا تھا۔ دمتری کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ ’اوریشنِک‘ وہی میزائل ہو۔

’اوریشنِک‘ میزائل کتنا کامیاب ہے؟

عسکری امور کے ماہر ولادیسلاو شوریگن نے روسی اخبار کو بتایا کہ ’اوریشنِک‘ میزائل کسی بھی جدید میزائل ڈیفینس سسٹم کو چکما دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ان کے مطابق نیوکلیئر وارہیڈ کا استعمال کیے بغیر ’اوریشنِک‘ میزائل کسی بھی محفوظ بنکر کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایک اور روسی تجزیہ کار ایگور کوروچینکو نے طاس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ’اوریشنِک‘ میزائل متعدد وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ’یہ تمام وارہیڈز ایک وقت میں اپنے ہدف کی طرف لپکتے ہیں‘ اور اسی لیے یہ میزائل انتہائی کامیاب ہتھیار ہے۔

سبلائن نامی کمپنی کے سی ای او جسٹن کرمپ نے بی بی سی ویریفائی کو بتایا کہ یہ میزائل یوکرین کے دفاعی نظام کو چیلنج کرسکتا ہے۔

ان کے مطابق ’روس کے مختصر فاصلے تک مارنے کرنے والے میزائل اس تنازع میں یوکرین کے لیے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔‘

’برق رفتار اور مزید جدید ہتھیار یوکرین کے لیے ان خطرات کی شدت کو بڑھا دیں گے۔‘

روس کی جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق نئی پالیسی میں خاص کیا ہے؟روس کا جوہری ڈاکٹرائن کیا ہے اور اس میں نئی تبدیلیوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کیا مطلب ہے؟یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں عمارتوں پر بمباری، دیگر شہروں سے بھی دھماکوں کی اطلاعاتروس نے یوکرین کے ’میزائل حملوں‘ سے بچنے کے لیے اپنے جنگی طیارے کہاں چھپا لیےایرانی ’فتح‘ میزائل اور ’شاہد‘ ڈرونز سمیت وہ غیر ملکی ہتھیار جن کی بدولت روس کی عسکری صلاحیت بڑھ گئی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More