Getty Images
یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے جب امریکہ کے انٹیلیجنس اہلکاروں نے روسی فوجی افسران کی وہ خفیہ گفتگو سُنی جس نے اُن کے رونگٹے کھڑے کر دیے۔
یہ خفیہ گفتگو سننے کے بعد امریکہ کی جانب سے برملا اِن خدشات کا اظہار کیا گیا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن یوکرین میں کسی فوجی اڈے کو جوہری ہتھیاروں کی مدد سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اور آج یوکرین پر روسی حملے کے ایک ہزار دن ہو چکے ہیں اور ایک بار پھر جوہری ہتھیاروں کا دوبارہ چرچا ہو رہا ہے۔
صدر پوتن نے حالیہ دنوں میں روس کی نیوکلیئر پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے اور اُن کی جانب سے ایسا اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ یوکرین نے امریکہ سے موصول ہونے والے ATACMS میزائل روسی علاقوں پر فائر کیے ہیں۔
گذشتہ دنوں صدر پوتن نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق روس کی پالیسی میں تبدیلیوں کی منظوری دی جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ایسا ملک جس کے اپنے پاس تو جوہری ہتھیار نہ ہوں لیکن اگر وہ کسی جوہری ہتھیاروں کے حامل ملک کی مدد سے حملہ کرتا ہے تو روس ایسے حملے کو (دونوں ممالک کی جانب سے) مشترکہ حملہ تصور کرے گا۔
یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں لیکن امریکہ کے پاس ہیں اور امریکہ اور برطانیہ دونوں اس جنگ میں یوکرین کے ساتھ ہیں اور اسے اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ 32 ممالک کا فوجی اتحاد نیٹو بھی اس جنگ میں یوکرین کی حمایت کر رہا ہے۔
Getty Images
روس کی نیوکلیئر پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر روس پر میزائل، ڈرون اور فضائی حملے کیا جاتا ہے تو وہ ایٹمی ہتھیاروں سے اس نوعیت کے حملوں کا جواب دے سکتا ہے۔
جنگ کے آغاز کے بعد سے یوکرین کئی بار روس پر ڈرون حملوں سمیت متعدد فضائی حملے کر چکا ہے تاہم حالیہ دنوں میں اس نے حملوں کے لیے امریکی میزائلوں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ روس کی جوہری پالیسی میں کچھ اور حالات اور معاملات پر بھی بات کی گئی ہے۔
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر: سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کوئی (روس کے خلاف) نیا فوجی اتحاد بناتا ہے، یا پہلے سے موجودہ اتحاد کو بڑھاتا ہے یا کسی بھی فوجی انفراسٹرکچر کو روس کی سرحد کے قریب لاتا ہے، یا روس کی سرحد کے قریب کوئی فوجی سرگرمیاں انجام دیتا ہے، تو ایسے اتحاد کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
روس پہلے ہی امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کو ایٹمی حملے کے امکانات کے بارے میں خبردار کر چکا ہے۔
مارچ میں روس میں ہونے والے انتخابات سے قبل ہی پوتن نے کہا تھا کہ روس ایٹمی حملہ کرنے سے گریز نہیں کرے گا اور یہ کہ اگر امریکہ اپنی فوج یوکرین بھیجتا ہے تو معاملہ بہت بڑھ سکتا ہے۔
اگرچہ کوئی بھی ملک اپنے ہتھیاروں کی مکمل معلومات نہیں دیتا تاہم دستیاب اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار روس کے ہی پاس ہیں اور اندازوں کے مطابق ان کی تعداد تقریباً 5,977 ہے۔
یہ تعداد آج بھی امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے مشترکہ ایٹمی ہتھیاروں سے کچھ زیادہ ہے۔ ان میں کچھ ٹیکٹیکل ہتھیار بھی ہیں۔
ٹیکٹیکل ہتھیار چھوٹے جوہری ہتھیار ہوتے ہیں، جو ایک مخصوص علاقے کو نشانہ بنانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان ٹیکٹیکل ہتھیاروں کو میزائل کے ذریعے فائر کیا جا سکتا ہے۔ کروز میزائل کی طرح، اس سے بہت زیادہ فاصلے تک کوئی تابکار نقصان نہیں پہنچتا اور ان میں ایک کلو ٹن تک جوہری دھماکہ خیز مواد ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے ہیروشیما پر جو ایٹم بم گرایا وہ 15 کلو ٹن کا تھا۔
یہ ٹیکٹیکل ہتھیار آج تک کبھی کسی جنگ میں استعمال نہیں ہوئے۔
Getty Images
لیکن پوتن کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق بیانات کو میڈیا اور مغرب میں بیان بازی کہا جاتا ہے، یعنی وہ صرف بولتے ہیں۔ تو اس بات کا کتنا اندیشہ ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ کریں گے بھی؟
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر روس کو مستقبل قریب میں بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا اپنی شکست کا خدشہ لگتا ہے تو وہ ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ تاہم عین ممکن ہے کہ چین روس کے کسی بھی اس نوعیت کے اقدام کی حمایت نہ کرے۔
روس متعدد معاملات میں چین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ چین کی جوہری پالیسی یہ ہے کہ وہ کبھی بھی جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہیں کرے گا اور اگر روس جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا آپشن استعمال کرتا ہے تو ممکن ہے کہ چین اس کی حمایت نہ کرے۔
کچھ ماہرین اسے ایسے دیکھ رہے ہیں کہ پوتن جوہری ہتھیاروں سے متعلق اپنی نئی پالیسی سے سب کو دوبارہ پریشان کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ پوتن اس کے ذریعے دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔ امریکہ نے پوٹن کی اس نئی پالیسی پر تنقید کی ہے لیکن ان کے بیان میں تشویش کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
یوکرین کا روس میں برطانوی ساختہ میزائل سے حملہ: سٹارم شیڈو نامی میزائل کیا ہے اور یوکرین کے لیے اہم کیوں ہے؟’بائیڈن کی یوکرین کو روس پر امریکی میزائل داغنے کی اجازت ’جلتی پر تیل‘ ڈالنے کے مترادف ہے‘’روسی گارڈز ہمیں اذیت دے کر خوش ہوتے‘: یوکرینی جنگی قیدی جو دورانِ حراست ایک سال تک خاموش رہا