پاکستان نے گذشتہ ہفتے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مشن کے غیر طے شدہ دورے کے دوران اپنا سات ارب ڈالر کا بیل آؤٹ اصلاحاتی ایجنڈا شیئر کیا۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مشن نے قرض کی منظوری کے چھ ہفتوں کے اندر اسلام آباد کا دورہ کیا جو کہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں ہونے والے پہلے جائزے سے پہلے ایک غیر معمولی اقدام ہے۔مذاکرات کی قیادت کرنے والے آئی ایم ایف پاکستان مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے ایک بیان میں کہا کہ ’قرض پروگرام (ایکسٹینڈڈ فنڈ سیسیلٹی) کے تحت اقتصادی اصلاحات کے لیے حکام کی جانب سے عزم کی تصدیق سے ہمیں حوصلہ ملا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ اقتصادی پالیسی پر تعمیری بات چیت اور کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے اصلاحاتی کوششوں سے مضبوط اور پائیدار ترقی کی بنیاد رکھنے میں مدد ملے گی۔مشن نے کمزوریوں کو بیان نہیں کیا، لیکن پاکستان کی وزارت خزانہ کے ذرائع نے کہا ہے کہ کچھ بڑی خامیوں نے آئی ایم ایف کو مداخلت کرنے پر مجبور کیا۔ان میں سے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران محصولات کی وصولی میں تقریباً 190 ارب روپے کی کمی تھی۔اس عرصے میں دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا بیرونی فنانسنگ گیپ بھی دیکھا گیا، جبکہ پاکستان اپنی قومی ایئر لائن کو فروخت کرنے کی بولی میں ناکام رہا، جو کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے راستے پر ایک بڑا دھچکا ہے۔آئی ایم ایف نے کہا کہ بجلی اور گیس کے شعبے میں اربوں ڈالر کے نقصانات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ اس شعبے کی عملداری کو بحال کرنے کے لیے توانائی کے شعبے کی اصلاحات بہت اہم ہیں۔مشن نے مزید کہا کہ دونوں فریقوں نے دانش مندانہ مالیاتی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور غیر استعمال شدہ ٹیکس آمدنی کو بڑھانے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔