شہرِ بے مثل لاہور کا ذکر ہو تو بہت سی ایسی شخصیات کا چہرہ ذہن میں ابھرتا ہے جو شہر کے مٹتے ماضی کی طرح تاریخ کے صفحات کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان میں ہی ایک نام انڈیا کے سابق وزیراعظم جواہر لعل نہرو کا بھی ہے جو آج ہی کے روز 14 نومبر 1889 کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ان کے والد موتی لعل نہرو قانون دان تھے اور وہ دو بار انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رہے۔
آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ نہرو پیدا تو الہ آباد میں ہوئے تو ان کا لاہور سے کیا لینا دینا؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کی والدہ سواروپ رانی تھسو کی جنم بھومی لاہور ہی تھی جن کا ذکر شاذ ہی کیا جاتا ہے جو پنجاب کے ایک مشہور کشمیری پنڈت خاندان میں پیدا ہوئی۔ یوں جواہر لعل نہرو کے ننھیال کا تعلق لاہور سے تھا۔
جواہر لعل نہرو کی سیاست کا تذکرہ کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں اور آج اُن کی زندگی کے کچھ ایسے گوشوں کا ذکر کرتے ہیں جو ممکن ہے، آپ کی نظروں سے اوجھل رہے ہوں اور لاہور کا ذکر نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔یہ دسمبر 1929 کا ذکر ہے جب لاہور میں انڈین نیشنل کانگریس کا سالانہ اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس کئی حوالوں سے یادگار رہا کیوںکہ اس میں کانگریس کے صدر موتی لعل نہرو کے بعد اُن کے فرزند جواہر لعل نہرو کو انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سونپی گئی۔ یہ اجلاس اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ اس نے آنے والے برسوں میں ہندوستان کی تاریخ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا مگر اہلیانِ لاہور غالباً تاریخ کے اس باب کو فراموش کر چکے ہیں۔ہارون خالد روزنامہ ڈان کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’جواہر لعل نہرو، جو ایک ماہ قبل ہی 40 برس کے ہوئے تھے، لاہور کی گلیوں سے سفید گھوڑا دوڑاتے ہوئے کانگرس کے اس تاریخی اجلاس میں پہنچے جس میں انہوں نے اپنے والد کی انڈیا کو آئینی طور پر ڈومینین ریاست بنانے کی تجویز کو رَد کرتے ہوئے ’پورنا سواراج‘ یا مکمل آزادی کا نعرہ بلند کیا۔‘’1929 میں لاہور میں ہونے والے اس سیشن میں کانگریس نے انڈیا کے لیے ڈومینین حیثیت کی بجائے مکمل خدمختاری کے حق میں ووٹ دیا اور یہ قرار داد پیش کی کہ جنوری 1930 کی آخری اتوار کو مکمل آزادی کا دن منایا جائے گا جو اس برس 26 جنوری کو آیا۔‘یہ وہ دن ہے جس کی یاد میں انڈیا ہر سال 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ مناتا ہے۔ اس دن ہی پہلی بار وہ سہ رنگی ترنگا لہرایا گیا تھا جو تقسیم کے بعد ہندوستان کا قومی پرچم بن گیا۔ہارون خالد اپنے اسی مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’31 دسمبر 1929 کی درمیانی شب دریائے راوی کے مشرقی کنارے پر بادشاہی مسجد، گوردوارہ ڈیرہ صاحب اور شاہی قلعہ کے سائے تلے جواہر لعل نہرو نے ’سواراج‘ کا ترنگا لہرایا جو بعد ازاَں انڈیا کے قومی پرچم کے طور پر اختیار کیا گیا۔‘یہ وہ مقام ہی ہے جہاں 23 مارچ 1940 کو قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تھی جس کی یاد میں مینارِ پاکستان تعمیر کیا گیا۔نہرو اور امریتا عمروں کے تفاوت کے باوجود ایک دوسرے کے اچھے دوست تھے۔ (فوٹو: ایکس)کانگریس کے اس اجلاس میں ہی موہن لعل کرم چند گاندھی کو سول نافرمانی کا اختیار دیا گیا تھا جو برطانوی راج کے اقتدار کی بنیادیں ہلانے کا سبب بن گیا۔روزنامہ جنگ کے لیے اپنے ایک کالم میں یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں کہ ’دنیا کو جب علم ہوا کہ ہندوستان میں نمک زمین سے اٹھانا قانوناً جرم ہے اور گاندھی نامی ایک کمزور اور نہتا شخص اس بے رحم قانون کو توڑنے کے لیے پیدل سفر پر نکل کھڑا ہوا ہے تو انگریز سرکار پوری دنیا میں ذلیل ہو کر رہ گئی۔‘جواہر لعل نہرو کی زندگی میں لاہور اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کیوںکہ اُن کے بچپن کے بہت سے اہم ماہ و سال اس شہرِ بے مثل میں گزرے۔ معروف محقق مجید شیخ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’زیادہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ نہرو اگرچہ الہ آباد میں پیدا ہوئے تھے مگر اُن کی والدہ لاہور میں آباد ہو جانے والے کشمیری برہمنوں کے ایک معروف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُن کا نام سواروپ رانی تھسو تھا اور اُن کے والد کا گھر تین وارث روڈ پر کرکٹ گراؤنڈ کے ساتھ ہی تھا۔‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’نہرو جب بھی لاہور میں ہوتے تو ہمیشہ اسی گھر میں قیام کرتے۔ سواروپ موتی لعل نہرو کی دوسری بیوی تھیں جن کی پہلی بیوی بچے کو جنم دیتے ہوئے وفات پا گئی تھیں۔‘وارث روڈ سے کچھ ہی فاصلے پر گنگارام مینشن ہے جہاں بے مثل مصورہ امریتا شیرگل نے اپنی زیست کے آخری ماہ و سال گزارے۔ نہرو اور امریتا عمروں کے تفاوت کے باوجود ایک دوسرے کے اچھے دوست تھے مگر اُن دونوں میں کوئی رومانی تعلق نہیں تھا۔یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ وہ کیا وجہ تھی جو امریتا شیرگل نے نہرو کو کبھی مصور نہیں کیا؟ یہ سوال مصورہ کے قریبی دوست اقبال سنگھ نے اُن سے کیا تو انہوں نے برملا کہا ’کیوں کہ وہ بہت وجیہہ ہیں۔‘یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ وہ کیا وجہ تھی جو امریتا شیرگل نے نہرو کو کبھی مصور نہیں کیا؟ (فوٹو: ایکس)ان دونوں کے درمیان خطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ امریتا شیرگل نے چھ نومبر 1937 کو جواہر لعل نہرو کے نام خط میں یہ لکھا تھا کہ ’میری خواہش ہے کہ میں آپ کو بہتر طور پر جان پاتی۔ میں نے ہمیشہ اُن لوگوں میں کشش محسوس کی ہے جو اس قدر مکمل ہوں کہ ان میں موجود تضادات میں بھی ہم آہنگی ہو… اور جو پچھتاوے کی وجہ نہ بنیں۔‘انہوں نے اسی خط میں مگر نہرو کو اُن کی تصویروں میں دل چسپی نہ لینے پر شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تم میری تصویروں کو سرسری سی نظر سے دیکھتے ہو مگر ان میں جھانکتے نہیں ہو۔‘امریتا شیرگل اپنے والد کے نام ایک خط میں کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ ’میری اُس (نہرو) سے کل ایک ڈنر پارٹی میں ملاقات ہوئی۔ چمن لعل انہیں فلیٹیز لے آئے اور ہم سب صبح ایک بجے تک باتیں کرتے رہے۔ انہیں مجھے دوبارہ دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی اور ظاہر ہے کہ مجھے بھی خوشی ہوئی۔‘جواہر لعل نہرو نے مصورہ کی بے وقت موت کے بعد اُن کی والدہ کے نام خط میں یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ امریتا شیرگل کی ذہانت اور اُن کے حسن سے متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ’مجھے اُس میں کشش محسوس ہوئی اور ہم دونوں دوست بن گئے۔‘جواہر لعل نہرو کی شادی اُن کے والد کی پسند سے ہوئی۔ اُن کی بیوی کملا کول کشمیری برہمن خاندان سے ہی تعلق رکھتی تھیں۔ وہ دراز قدر، خوش چہرہ اور دبلی پتلی تھیں لیکن وہ انگریزی نہیں بول سکتی تھیں اور ان کا طرزِ زندگی نہرو خاندان سے مختلف تھا۔ وہ ازاَں بعد تپ دق کے مرض میں مبتلا ہوگئیں اور 28 فروری 1936 کو سوئٹرز لینڈ کے ایک ہسپتال میں چل بسیں۔ اُس وقت اُن کی عمر محض 36 برس تھی۔کے ایف رستم کے مطابق سروجنی نائیڈو کی صاحب زادی پدمجا نائیڈو بھی نہرو سے رابطے میں رہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)جواہر لعل نہرو نے اگرچہ اس کے بعد شادی نہیں کی مگر کہا جاتا ہے کہ وہ ذہین عورتوں کو پسند کرتے تھے۔ دلچسپ طور پر اس فہرست میں غیرمنقسم ہندوستان کے وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا کے علاوہ اُن سے قبل ہندوستان کے وائس رائے سر اے پی ویویل کی اہلیہ یوجین ویویل اور کانگریس کی سابق صدر سروجنی نائیڈو کی صاحب زادی پدمجا نائیڈو بھی شامل ہیں۔نہرو اور ایڈوینا کے درمیان گہرے تعلقات قائم ہو گئے تھے جو آزادی کے بعد بھی قائم رہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے ریحان فضل اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’نہرو کے ساتھ ایڈوینا کی دوستی اُس وقت پروان چڑھی جب ایڈوینا اور اُن کا خاندان واپس انگلینڈ جانے کی تیاری کر رہا تھا۔‘لارڈ مائونٹ بیٹن کی صاحب زادی پامیلا ہکس کی کتاب ’ڈاٹر آف ایمپائر، لائف ایز اے ماؤنٹ بیٹن‘ اس باب میں ایک اہم دستاویز ہے۔ یہ کتاب پہلی بار سال 2012 میں برطانیہ میں شائع ہوئی تھی جس میں مصنفہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’ایڈوینا اور نہرو ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔‘یہ سوال بہرحال اہم ہے کہ کیا ان دونوں کے تعلقات تقسیم پر اثرانداز ہوئے تو اس کے کوئی شواہد نہیں ملتے۔ تاہم پامیلا لکھتی ہیں کہ ’اُن (والدہ) کے فیصلوں کو میرے والد کی خاموش رضامندی حاصل تھی۔ اور ظاہر ہے کہ اُن کے پنڈت نہرو کے ساتھ یہ خاص تعلقات اُن کے لیے فائدہ مند بھی ثابت ہوئے کیوںکہ وہ ہمیشہ سے عملیت پسند رہے تھے… یہ وہ وقت تھا جب ہمارا انڈیا میں قیام ختم ہو رہا تھا اور کشمیر کا مسئلہ بہت زیادہ پیچیدہ ہوگیا تھا۔‘وہ لکھتی ہیں کہ ’پنڈت نہرو خود بھی کشمیری تھے تو وہ اس مسئلے کے حوالے سے جذباتی تھے۔ معاملات جب بہت زیادہ اُلجھ جاتے تو والد والدہ سے کہتے کہ ‘کوشش کرو کہ جواہر لعل اس معاملے کو دیکھے چونکہ یہ بہت اہم ہے۔‘اس کتاب میں مصنفہ نے دعویٰ کیا کہ ’ایڈوینا اور نہرو ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔‘ (فوٹو: امیزون)برطانوی موریخ ایلکس وان ٹنزل مین امریکی اخبار ’لاس اینجلز ٹائمز‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’تاریخ میں اس تعلق کی اہمیت غیرمعمولی طور پر نمایاں ہے۔ کم از کم ایک موقع پر ضرور، اس کی وجہ سے آزادی کا عمل محفوظ رہا۔ جب تمام دوسرے لوگ ناکام ہو گئے تو یہ ایڈوینا تھیں جنہوں نے نہرو کو مئی 1947 میں کچھ عرصہ کے لیے انڈیا کی مکمل آزادی کے بجائے ڈومینین حیثیت قبول کرنے پر مجبور کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ انڈیا دولتِ مشترکہ کا حصہ رہتا۔‘وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’بانی پاکستان محمد علی جناح کو مبینہ طور پر ایڈوینا اور نہرو کے محبت نامے ملے تھے۔ انہوں نے پروقار انداز اختیار کرتے ہوئے انہیں واپس لوٹا دیا اور کہا کہ ’حکمران کی بیوی کو شبہے سے بالاتر ہونا چاہیے۔‘’جناح اگر اس کے برعکس کرتے تو وہ 20 ویں صدی کے ایک انتہائی ڈرامائی سکینڈل کو انتہائی آسانی سے بے نقاب کر سکتے تھے۔‘نہرو کے سیکریٹری کے ایف رستم کی ڈائری بھی اس باب میں اہم ہے جو کتاب کی صورت میں شائع ہو چکی ہے اور وہ بھی نہرو اور ایڈوینا کی محبت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اس میں نہرو کی دیگر خواتین کے لیے پسندیدگی کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ رستم کے مطابق، سروجنی نائیڈو کی صاحب زادی پدمجا نائیڈو بھی نہرو سے رابطے میں رہیں۔ وہ بہترین حسِ مزاح رکھتی تھیں اور نہرو کا خیال رکھنا چاہتی تھیں۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے ریحان فضل نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’پدمجا کو بھیجے ایک ٹیلی گرام میں نہرو نے لکھا تھا کہ ’تمہارا ٹیلی گرام موصول ہوا۔ کتنا بے وقوفی بھرا اور بالکل خواتین جیسا۔ شاید یہ سوبھاش کے ساتھ عشق کرنے کا کفارہ ادا کر رہی ہو۔‘اس مضمون کے مطابق’18 نومبر 1937 کو لکھے گئے ایک اور خط میں نے نہرو نے پدمجا سے پوچھا کہ ’تمہاری عمر کیا ہے؟ 20؟‘جواہر لعل نہرو نے اپنی بیوی کی موت کے بعد شادی نہیں کی مگر کہا جاتا ہے کہ وہ ذہین عورتوں کو پسند کرتے تھے۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)شاید نہرو مذاق کر رہے تھے کیونکہ پدمجا سنہ 1900 میں پیدا ہوئی تھیں۔ اور اس وقت ان کی عمر 37 برس تھی۔انہوں نے ایک اور خط میں پدمجا کو مشورہ دیا تھا کہ ’وہ جب بھی انہیں خط لکھیں تو اس پر ذاتی تحریر کر دیں تاکہ ان کا سیکریٹری اس خط کو نہ کھولے۔‘لاہور سے جواہر لعل نہرو نے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کئی مواقع پر کیا، اور کیوں نہ کرتے کہ اس شہر پُرکمال میں انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین پل بیتائے تھے۔ 14اگست 1947 کا دن بھی ایک ایسا ہی موقع تھا جب نہرو نے کھل کر لاہور سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ اُنہیں جب یہ معلوم ہوا کہ لاہور میں فسادات ہو رہے ہیں تو وہ یہ سن کر جذباتی ہو گئے اور اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔انہوں نے اس موقع پر کہا کہ ’میں آج ملک سے کیسے خطاب کر پاؤں گا؟ میں یہ اظہار کس طرح کروں گا کہ میں ملک کی آزادی پر خوش ہوں، جب مجھے معلوم ہے کہ میرا لاہور، میرا خوبصورت لاہور جل رہا ہے۔‘یہ حقیقت میں اُن سب کا لاہور ہے جن کی زیست کا بیاں اس شہر کے بغیر نامکمل ہے۔جاتے جاتے منیر نیازیؔ کا یہ شعر آپ کی نذر،اے شہر بے مثال ترے بام و در کی خیراے حسن لا زوال ترے بام و در کی خیر