سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے اپنی عدالتی کارروائی کے پہلے سابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی کے خلاف کیس خارج کردیا جب کہ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں، چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان۔
سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے اپنی عدالتی کارروائی کے پہلے سابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھیں۔
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ نظرثانی درخواست ہے، کیس کو دوبارہ نہ کھول سکتے، درخواست گزار کے وکیل ریاض حنیف نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے بھٹو کیس بھی 40 سال بعد سنا۔
جسٹس مسرت حلالی نے ریمارکس دیے کہ یہ فورم سیاسی تقاریر اور نہ بیک بائٹنگ کا ہے، قانون سے نہیں ہٹ سکتے، جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ آپ غصے میں کیوں آرہے ہیں؟ عدالت کی بات سنیں۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ عدالت آپ سے سوالات پوچھ رہی ہے لیکن آپ جواب کیوں نہیں دے رہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ کیس دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں؟
درخواستگزار وکیل ریاض حنیف نے جواب دیا کہ میں عدالت کو حقائق بیان کر رہا ہوں، میرے پاس ریکارڈ نہیں لیکن بلوچستان سے ریکارڈ منگوایا جاسکتا ہے، جسٹس امین الدین نے سوال اٹھایا کہ قانون بتائیں کہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ مشاورت کیسے ضروری ہے؟
جسٹس مسرت حلالی نے ریمارکس دیے کہ کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں، چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسی درخواست پر بینچ کے سربراہ سے درخواست کروں گا کہ معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیجیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مقدمات میں ذاتیات پر نہیں آتے، یہ مقدمہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ لگ رہا ہے، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
آئینی بینچ نے درخواست گزار کے وکیل ریاض حنیف کی نظرثانی کی درخواست خارج کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آئینی بینچ میں مقدمات کی سماعت کی کاز لسٹ جاری کی تھی جس کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ 14 اور 15 نومبر کو مجموعی طور پر 34 مقدمات کی سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری آئینی بینچ میں سماعت کے لیے مقرر مقدمات کی کاز لسٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی سے متعلق مقدمات سماعت کے لیے مقرر کیے گئے تھے جن میں ایک مقدمہ سال 1993 کا بھی ہے۔
کاز لسٹ جاری ہونے سے ایک روز قبل رجسٹرار نے روسٹر جاری کر دیا تھا جس میں کہا گیا کہ جسٹس عائشہ ملک عدم دستیابی کے باعث بینچ کا حصہ نہیں ہوں گی۔
5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔
26 ویں ترمیم کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا پہلا اجلاس ہوا تھا، جس میں آئینی بینچز میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔
جسٹس امین الدین کی تقرری کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔
اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے لیے مخصوص مدت کے تعین کا مشورہ دیا تھا، اجلاس کے دوران آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر ووٹنگ کرائی گئی، کمیشن کے 12 میں سے 7 ارکان نے 7 رکنی آئینی بینچ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔