افغانستان سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ نوجوان اسماعیل خان گذشتہ 20 برس سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ دو دہائیوں سے اس خواب کے ساتھ پاکستان میں اپنے شب و روز گزار رہے ہیں کہ اُنہیں ایک دن پاکستانی شہریت مل جائے گی جس کے بعد وہ اسلام آباد کی فضاؤں میں آزادانہ طور پر سانس لے سکیں گے۔20 سال سے اسماعیل خان کو تو پاکستان کی شہریت نہیں ملی البتہ گذشتہ ماہ جب اُن کے ہاں دو جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی تو اُنہیں اپنے لیے نہ سہی اپنے بچوں کے لیے پاکستانی شہریت ملنے کا خواب پُورا ہوتا دکھائی دیا۔لیکن اسماعیل خان کا یہ خواب بھی اُس وقت ٹوٹ گیا جب پیر کو پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پاکستانی شہریت کے قانون میں ترمیم کا بل پاس کر لیا۔بل کے متن کے مطابق پاکستان میں مقیم کسی غیر ملکی کے ہاں بچے کی پیدائش کی صورت میں اُسے پاکستانی شہریت نہیں ملے گی بلکہ شہریت دینے کا فیصلہ بچوں کے والدین کی پاکستان میں رہنے کی قانونی حیثیت دیکھ کر کیا جائے گا۔اسماعیل خان نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ آج سے کم و بیش 20 سال قبل اُنہیں کچھ ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر پاکستان آنا پڑا۔ اس دوران اُنہوں نے پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے لیے کئی کوششیں کیں نادرا اور دیگر متعلقہ اداروں میں درخواستیں جمع کروائیں مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔اُنہوں نے گذشتہ برس ایک اور افغانی شہری کے ساتھ اسلام آباد میں شادی کی اور پھر رواں برس اکتوبر میں اُن کے ہاں دو جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی۔اسماعیل خان کہتے ہیں کہ ’بچوں کی پیدائش سے جہاں میرے گھر میں خوشیاں آئیں تو وہیں ہم میاں بیوی کے دِلوں میں ایک بار پھر پاکستانی شہریت ملنے کی اُمید جاگ اٹھی۔‘اسماعیل خان یہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے کہ آج جب اُنہیں مقامی ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا کہ اب بچوں کی پیدائش کی صورت میں بھی اُنہیں شہریت نہیں مل سکے گی تو پاکستان میں قانونی طور پر رہنے کی اُن کی آخری اُمید بھی دم توڑ گئی۔پاکستان شہریت ترمیمی بل2024 کیا ہے؟پاکستان کی وزارت داخلہ نے رواں سال جولائی میں ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پاکستان شہریت ترمیمی بل2024 پیش کیا تھا جس کا مقصد غیر ملکی شہریوں کو پاکستان میں شہریت دیے جانے کے طریقہ کار کو تبدیل کرنا تھا۔ قومی اسمبلی نے بل پر ابتدائی غور کے بعد اُسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔غیر ملکی شہری کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ اب پاکستانی شہریت کا حقدار نہیں ہو گا (فوٹو اے ایف پی)اس حوالے سے پاکستان کی وزارت داخلہ نے واضح کیا تھا کہ اس اقدام کا مقصد پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکی شہریوں کو باور کروانا ہے کہ وہ اگر پاکستان میں رہیں گے تو اُنہیں قانونی راستہ ہی اختیار کرنا ہو گا۔پاکستان شہریت ترمیمی بل2024 میں بنیادی طور پر پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ 1951 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت پیدائش کی جگہ کی بنیاد پر شہریت دینے کی شق میں ترمیم کی گئی ہے۔’والدین میں سے کم از کم ایک کا پاکستانی شہری ہونا ضروری ہو گا‘یعنی اگر پاکستان میں رہنے والے والے کسی غیر ملکی شہری کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ اب پاکستانی شہریت کا حقدار نہیں ہو گا۔ نئی ترامیم کے بعد اب والدین کی شہریت کی بنیاد پر بچوں کو شہریت دی جائے گی۔بل میں بتایا گیا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کے والدین میں سے کوئی ایک بھی اگر پاکستان میں قانونی طور پر مقیم ہیں یعنی وہ پاکستانی شہری ہیں تو اُس صورت میں اُن کے بچے بھی پاکستانی شہری کہلائیں گے۔تاہم ایسے غیر ملکی شہری جو پاکستان میں تو طویل عرصہ سے مقیم ہیں لیکن اُن کے پاس پاکستان کی شہریت نہیں ہے تو اس صورت میں اُن کے ہاں پیدا ہونے والے بچے بھی پاکستانی شہریت کے حقدار نہیں ہوں گے۔بل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر کسی غیر ملکی شہری کے پاس پاکستان میں رہنے کے لیے تمام مطلوبہ دستاویزات موجود ہیں اور شہریت کے لیے اہل ہونے کے باوجود اُسے پاکستاںی شہریت نہیں ملی تو وہ متعلقہ محکمے سے دوبارہ رجوع کر سکتا ہے، اور قانونی تقاضے مکمل ہونے کے بعد اُنہیں پاکستانی شہریت مل سکتی ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق وفاقی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے افغان شہریوں کو پاکستانی شہریت کے بڑے پیمانے پر اجراء کو روکنے کے لیے یہ اقدامات کیے ہیں۔ بل کے ذریعے افغان شہریوں کے پاکستان میں غیر قانونی داخلے اور اُن کے حق ملکیت کو بھی ختم کیا گیا ہے۔