"جب سے میں ملائیشیا آیا ہوں، کبھی بنگلا دیش واپس نہیں گیا۔ مجھے اپنی فیملی کی بہت یاد آتی ہے اور وہ بھی مجھے بہت یاد کرتے ہیں، لیکن میں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کیا ہے۔ ہر انسان اس قسم کی ملازمت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔"
ابو بکر کی انتھک محنت کی داستان ہمیں یہ بتاتی ہے کہ قربانی اور عزم کی طاقت کس طرح کسی کی زندگی کو بدل سکتی ہے۔ 31 سال کی عمر میں، بنگلا دیش سے ملائیشیا کا سفر کرنے والے ابو بکر نے اپنی زندگی کو ایک مقصد کے ساتھ جوڑ لیا تھا، ایک بہتر مستقبل اپنے بچوں کے لیے تعمیر کرنا۔ کلنگ کے ایک شاپنگ مال میں صفائی کا کام کرتے ہوئے، ابو بکر نے کبھی ایک دن بھی چھٹی نہیں لی۔ ان کے دن رات کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے بچے آج کامیاب پیشہ ور افراد ہیں؛ ایک بیٹی جج، ایک بیٹا ڈاکٹر اور ایک انجینئر ہے۔
یہ کہانی صرف ابو بکر کی نہیں، بلکہ ہر اس شخص کی ہے جو اپنی زمین چھوڑ کر، اپنے پیاروں سے دور ہو کر، محض بہتر زندگی کی امید لیے اپنے سفر پر نکلتا ہے۔ ملائیشیا کی سرزمین پر گزرے ان کے 27 سال نہ صرف ان کے بچوں کے خوابوں کی تعبیر تھے بلکہ یہ ان کی اپنی انتھک جدوجہد کا ثمر بھی ہے۔
دسمبر میں ریٹائر ہونے کے بعد جب وہ اپنے آبائی گاؤں واپس جائیں گے، تو وہ صرف ایک شخص نہیں بلکہ قربانی کی علامت اور عزم کی زندہ مثال بن کر لوٹیں گے۔