غزہ میں’نسل کشی‘: کیا اسرائیل کو عالمی سطح پر ’جنوبی افریقہ جیسی تنہائی‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 17, 2025

Reutersنیتن یاہو نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل کو عالمی سطح پر ایک قسم کی معاشی تنہائی کا سامنا ہے

جیسے جیسے غزہ میں جنگ آگے بڑھ رہی ہے، اسرائیل کی بین الاقوامی تنہائی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔

کیا یہ معاملہ جنوبی افریقہ کے ساتھ ماضی میں روا رکھے جانے والے حالات جیسا ہونے والا ہے: جب عالمی سطح پر سامنے آنے والے سیاسی دباؤ، معیشت، کھیلوں اور ثقافتی بائیکاٹ کے امتزاج نے جنوبی افریقہ کو نسل پرستی ترک کرنے پر مجبور کرنے میں مدد کی تھی؟

یا اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت اس سفارتی طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہے اور اسرائیل کی عالمی حیثیت کو مستقل نقصان پہنچائے بغیر غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بلا روک ٹوک اقدامات کر سکتی ہے؟

اسرائیل کے دو سابق وزرائے اعظم ایہود باراک اور ایہود اولمرٹ پہلے ہی نیتن یاہو پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر اچھوت بنا رہے ہیں (یعنی الگ تھلگ کر رہے ہیں)۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے جاری کردہ وارنٹ کی وجہ سے، نیتن یاہو گرفتاری کے خطرے کے بغیر جن ممالک کا سفر کر سکتے ہیں اُن کی تعداد ڈرامائی طور پر کم ہوتی جا رہی ہے۔

برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، بیلجیئم اور کینیڈا سمیت کئی ممالک نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

اور خلیجی ممالک، جنھوں نے قطر میں حماس کے رہنماؤں پر ہوئے حملے پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے، دوحہ میں ایک متحد ردعمل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ملے ہیں جہاں چند ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والے ممالک سے اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

موسم گرما کے دوران غزہ سے فاقہ کشی کی تصاویر سامنے آئیں اور اسرائیلی فوج کی غزہ شہر پر حملے اور ممکنہ طور پر اسے تباہ کرنے کی تیاری کے بعد، زیادہ سے زیادہ یورپی حکومتیں ان طریقوں سے اپنی ناراضی کا اظہار کر رہی ہیں، جو محض بیانات سے بالاتر ہیں۔

یہاں تک کہ نیتن یاہو نے پیر کے روز اعتراف کیا کہ اسرائیل کو عالمی سطح پر ’ایک قسم‘ کی معاشی تنہائی کا سامنا ہے۔

یروشلم میں وزارت خزانہ کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بیرون ملک منفی تشہیر کو اس تنہائی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ اسرائیل کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے روایتی اور سوشل میڈیا میں اثرورسوخ درکار ہے۔

Reutersاسرائیل عالمی مخالفت کے باوجود غزہ میں عسکری کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے

اس ماہ کے آغاز میں، بیلجیئم نے اسرائیل پر متعدد پابندیوں کا اعلان کیا، جن میں مغربی کنارے میں غیرقانونی یہودی بستیوں کے ساتھ درآمدات پر پابندی، اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ خریداری کی پالیسیوں کا جائزہ لینا اور بستیوں میں رہنے والے بیلجیئم کے باشندوں کو دستیاب قونصلر امداد پر پابندیاں شامل ہیں۔

بیلجیئم نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے ملزم یہودی آباد کاروں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت کے دو سخت گیر وزرا، اتامر بین گویر اور بیزلیل سموٹریچ، کو بھی ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا ہے۔

برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات کر چکے ہیں لیکن بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے گذشتہ سال متشدد یہودی آباد کاروں پر عائد پابندیاں ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں واپس آنے کے پہلے دن ختم کر دی گئی تھیں۔

بیلجیئم کے اس اقدام کے ایک ہفتے بعد، سپین نے اپنے اقدامات کا اعلان کیا، جن میں موجودہ ڈی فیکٹو اسلحے کی پابندی کو قانون کی شکل دے دی گئی، جزوی طور پر درآمدات پر پابندی لگا دی گئی، غزہ میں نسل کشی یا جنگی جرائم میں ملوث کسی بھی شخص کے لیے ہسپانوی سرزمین میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی اور اسرائیل جانے والے بحری جہازوں کے ہسپانوی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے اور ہتھیار لے جانے والے طیاروں کو سپین کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔

اسرائیل کے جنگجو وزیر خارجہ، گیدون سار نے سپین پر یہود مخالف پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ اسلحے کی تجارت پر پابندی سے سپین کو اسرائیل سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔

EPAیورپی یونین انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے

لیکن اسرائیل کے لیے اور بھی خطرناک علامات موجود ہیں۔

اگست میں، ناروے کے دو کھرب ڈالر مالیت کے سوورین ویلتھ فنڈ نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل میں درج (لسٹڈ) کمپنیوں سے علیحدگی کا عمل شروع کرے گا۔ اگست کے وسط تک 23 کمپنیوں کو ہٹا دیا گیا تھا اور وزیر خزانہ جینز سٹولٹن برگ نے کہا کہ مزید کمپنیاں بھی لسٹڈ کمپنیوں کی فہرست سے ہٹائی جا سکتی ہیں۔

دریں اثنا، یورپی یونین جو اسرائیل کی سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، انتہائی دائیں بازو کے وزرا پر پابندیاں عائد کرنے اور اسرائیل کے ساتھ اپنے ایسوسی ایشن معاہدے کے تجارتی عناصر کو جزوی طور پر معطل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یورپی یونین کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن نے 10 ستمبر کو اپنی سٹیٹ آف دی یونین تقریر میں کہا کہ غزہ میں ہونے والے واقعات نے ’دنیا کے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘

ایک دن بعد، 314 سابق یورپی سفارت کاروں اور عہدیداروں نے وان ڈیر لیئن اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالاس کو خط لکھا جس میں ایسوسی ایشن کے معاہدے کو مکمل طور پر معطل کرنے سمیت سخت اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔

جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیت کی حکومت کی جانب سے ملک کی سیاہ فام اکثریت کے خلاف نافذ نسلی علیحدگی اور امتیازی سلوک کی پالیسی کی وجہ سے 1960 کی دہائی اور نسل پرستی کے خاتمے کے درمیان جنوبی افریقہ پر عائد پابندیوں کی ایک خصوصیت 1990 کی دہائی میں ثقافت اور کھیلوں کے بائیکاٹ کا ایک سلسلہ تھا۔

اب ایسا لگ رہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔

یورو وژن مقابلہ اس تناظر میں اگرچہ ایک اہم واقعے کی طرح نہیں لگتا لیکن اسرائیل کی اس مقابلے میں ایک طویل اور شاندار تاریخ ہے، جسے اس نے 1973 کے بعد سے چار بار جیتا ہے۔

اسرائیل کے لیے اس مقابلے میں شرکت یورپی اقوام میں یہودی ریاست کی قبولیت کی علامت ہے۔

لیکن آئرلینڈ ، سپین، نیدرلینڈز اور سلووینیا نے واضح کہا ہے، یا اشارہ دیا ہے کہ اگر اسرائیل کو مقابلے میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی تو وہ 2026 کے مقابلے سے دستبردار ہو جائیں گے۔ اس بارے میں فیصلہ دسمبر میں متوقع ہے۔

EPAاسرائیل نے 1973 کے بعد سے چار بار یورو وژن مقابلہ جیتا ہے

ہالی وڈ میں ایک خط میں ایسی اسرائیلی پروڈکشن کمپنیوں، تہواروں اور براڈکاسٹرز کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا ہے جو’فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی اور نسل پرستی میں ملوث ہیں۔‘ اس خط پر ایک ہفتے میں چار ہزار سے زیادہ افراد نے دستخط کیے ہیں جن میں ایما اسٹون اور ہاویئر بارڈیم جیسی معروف شخصیات بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی فلم اینڈ ٹی وی پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے سی ای او تسویکا گوٹلیب نے اس درخواست کو ’انتہائی گمراہ کن‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یعنی ایسے تخلیق کاروں کو جو متنوع بیانیوں کو آواز اور مکالمے کو فروغ دیتے ہیں، نشانہ بنا کر یہ دستخط کرنے والے اپنے مقصد کو کمزور اور ہمیں خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

پھر کھیل ہے۔ وولٹا ڈی ایسپانا سائیکلنگ ریس میں اسرائیل پریمیئر ٹیک ٹیم کی موجودگی کے خلاف احتجاج کرنے والے گروہوں نے بار بار خلل ڈالا اور نتیجہ مقابلے کے قبل از وقت اختتام اور اختتامی تقریب کی منسوخی پر نکلا۔

ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے ان مظاہروں کو قابلِ فخر قرار دیا ہے لیکن حزب اختلاف کے سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات سے ملک کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سپین میں ہی، شطرنج کے سات اسرائیلی کھلاڑی ایک ٹورنامنٹ سے دستبردار ہو گئے جب انھیں بتایا گیا کہ وہ اپنے پرچم تلے مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔

اسرائیلی حکومت کا ردعمل جسے میڈیا پہلے ہی ’سفارتی سونامی‘ قرار دے چکا ہے عام طور پر ناپسندیدہ رہا ہے۔

اسرائیلی حملے، دوحہ سربراہی اجلاس اور ’عرب نیٹو‘ کا خواب: کیا عرب اور مسلم دنیا ایک ساتھ کھڑی ہو گی؟دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ جس نے ’سفارتکاری کے دروازے بند کر دیے‘اسرائیل کی وہ پالیسیاں جو غزہ میں ’انسانوں کے پیدا کردہ‘ قحط کا باعث بنیںکینیڈا، برطانیہ اور فرانس کا ’سخت لہجے‘ میں دیا گیا مشترکہ بیان: کیا اسرائیل کے لیے عالمی حمایت کمزور پڑنے لگی ہے؟

نیتن یاہو نے سپین پر ’کھلی نسل کشی کی دھمکی‘ کا الزام عائد کیا جب اس کے وزیر اعظم نے کہا کہ ان کا ملک ، جس کے پاس جوہری بم ، طیارہ بردار بحری جہاز یا تیل کے بڑے ذخائر نہیں ہیں، غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو خود نہیں روک سکا۔

بیلجیئم کی جانب سے پابندیوں کے اعلان کے بعد، گیدون سار نے ایکس پر لکھا کہ ’یہ افسوس کی بات ہے کہ یہاں تک کہ جب اسرائیل بقا کے خطرے سے نبرد آزما ہے، ایسے لوگ ہیں جو ان کے اسرائیل مخالف جنون کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘

پیر کے روز، نیتانواہو نے کہا کہ اسرائیل کو دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت پر اپنی صنعتوں کا انحصار کم کرنا چاہیے، جس میں اسلحہ اور دیگر دفاعی مصنوعات شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ صرف تحقیق و ترقی میں بلکہ حقیقی صنعتی پیداوار میں بھی رکاوٹوں کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ پر زیادہ انحصار کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے کا عمل شروع کرنا ہو گا۔‘

Reuters’وولٹا ڈی ایسپانا‘ سائیکلنگ ریس میں اسرائیل پریمیئر ٹیک ٹیم کی موجودگی کے خلاف احتجاج کرنے والے گروہوں نے بار بار خلل ڈالا

لیکن ایسے لوگ جو بیرون ملک اسرائیل کی نمائندگی کر چکے ہیں ان میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔

سنہ 2017 سے 2021 تک جرمنی میں اسرائیل کے سفیر جیریمی اساکاروف نے مجھے بتایا کہ وہ ایسا وقت یاد نہیں کر سکتے جب اسرائیل کی بین الاقوامی حیثیت اتنی ’کمزور‘ ہوئی تھی، لیکن انھوں نے کہا کہ کچھ اقدامات ’انتہائی قابل اعتراض‘ تھے کیونکہ وہ تمام اسرائیلیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی پالیسیوں کو تنہا کرنے کے بجائے، یہ بہت سارے اعتدال پسند اسرائیلیوں کو الگ تھلگ کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے جیسے کچھ اقدامات سے فائدے سے زیادہ نقصان پہنچنے کا امکان ہےکیونکہ اس سے ’سموتریچ اور بین گویر جیسے لوگوں کو گولہ بارود ملتا ہے اور یہاں تک کہ (مغربی کنارے) کو ضم کرنے کے لیے ان کی دلیل بھی مضبوط ہوتی ہے۔‘

ان کے خدشات کے باوجود، سابق سفیر کو یقین نہیں ہے کہ اسرائیل کی سفارتی تنہائی ناقابل واپسی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم ساؤتھ افریقن مومنٹ میں نہیں ہیں لیکن یہ اس کا ممکنہ پیش خیمہ ہے۔‘

دیگر کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اچھوت بننے سے روکنے کے لیے ٹھوس تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ایک اور سابق سفارتکار ایلان باروچ نے مجھے بتایا کہ ہمیں اقوام کے خاندان میں اپنا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے ’ہمیں ہوش و حواس میں واپسی کی ضرورت ہے۔‘

باروچ ، جو نسلی امتیاز کے خاتمے کے ایک دہائی بعد جنوبی افریقہ میں سفیر تھے، نے 2011 میں سفارتی ملازمت سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ اب اسرائیل کے قبضے کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد سےوہ حکومت کے سخت ناقد اور دو ریاستی حل کے حامی رہے ہیں۔

اُن کا خیال ہے کہ حالیہ پابندیاں ضروری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اسی طرح جنوبی افریقہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا تھا۔‘

Reutersامریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے حال ہی میں کہا کہ واشنگٹن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط رہیں گے

باروچ نے مزید کہا کہ ’میں یہ کہوں گا کہ اسرائیل پر کسی بھی طرح سے دباؤ ڈالنے کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے جس کے بارے میں یورپ سمجھتا ہے کہ وہ اس کے اختیار میں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر ضروری ہو تو اس میں ویزا کے نظام میں تبدیلیاں اور ثقافتی بائیکاٹ شامل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا ’میں تکلیف کے لیے تیار ہوں۔‘

لیکن غم و غصے کے تمام اظہار اور دباؤ کی باتوں کے باوجود، کچھ تجربہ کار مبصرین کو شک ہے کہ اسرائیل سفارتی کھائی کے کنارے پر کھڑا ہے۔

سابق اسرائیلی امن مذاکرات کار ڈینیئل لیوی نے مجھے بتایا ’جو لوگ ہسپانوی راستے پر جانے کے لیے تیار ہیں وہ اب بھی چند ہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ یورپی یونین کے اندر اجتماعی کارروائی کرنے کی کوششیں- ایسوسی ایشن کے معاہدے کے عناصر کو ختم کرنا یا یہاں تک کہ، جیسا کہ کچھ لوگوں نے تجویز کیا ہے، اسرائیل کو یورپی یونین کے ہورائزن ریسرچ اینڈ انوویشن پروگرام سے باہر کرنا- ان سب کو مناسب حمایت ملنے کا امکان نہیں ہے۔ جرمنی ، اٹلی اور ہنگری اس طرح کے اقدامات کی مخالفت کرنے والے ارکان میں شامل ہیں۔‘

اسرائیل کو اب بھی امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے، وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کے سرکاری دورے پر روانہ ہونے کے موقع پر کہا تھا کہ واشنگٹن کے اسرائیل کے ساتھ ’تعلقات مضبوط رہیں گے۔‘

لیوی اب بھی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی بین الاقوامی تنہائی ’ناقابل واپسی ہے‘ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی مسلسل حمایت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی تک اس مقام پر نہیں پہنچا ہے جس سے غزہ میں واقعات کا رخ بدل سکے۔

لیوی نے کہا، ’نیتن یاہو کے لیے سڑک ختم ہو رہی ہے لیکن ہم ابھی تک سڑک کے اختتام پر نہیں پہنچے ہیں۔‘

کیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کر کے غزہ پر ’قبضہ‘ کر سکتا ہے؟ پانچ اہم سوالوں کے جوابنڈھال بدن، ہاتھوں پر چھالے اور خوراک کی قلت: غزہ کے ہسپتال میں لاغر اور خوفزدہ بچوں کی کہانیقطر میں اسرائیلی حملے کے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحاد پر کیا اثرات پڑیں گے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More