’انتظامی اُمور کا تجربہ رکھنے والے‘ سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کون ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Oct 23, 2024

پاکستان کی سپریم کورٹ کے اگلے سربراہ کے انتخاب کے لیے قائم کردہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے عدالت عظمیٰ میں سنیارٹی میں نمبر تین پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کو ملک کا نیا چیف جسٹس نامزد کر دیا ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق منگل کی رات ہونے والے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جسٹس یحییٰ آفریدی کو دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس نامزد کر کے اس ضمن میں ایک سمری وزیراعظم شہباز شریف کو ارسال کر دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔

26 ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس منگل کو ہوا۔ پی ٹی آئی اور سُنی اتحاد کونسل کے نمائندے اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور انھوں نے کمیٹی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔

اس اجلاس میں چیف جسٹس کی تقرری کے لیے سیکریٹری قانون کی جانب سے بھیجے گئے سپریم کورٹ کے تین انتہائی سینیئر ججوں کے نام پیش کیے گئے۔ اِن ججز میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔

بند کمرہ اجلاس میں طویل بحث کے بعد کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام پر اتفاق کر لیا۔

26ویں آئینی ترمیم کے مطابق خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے تجویز کردہ نام کی سمری اب وزیراعظم شہباز شریف صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو ارسال کریں گے جو چیف جسٹس کی تقرری کے حکم نامے پر دستخط کریں گے۔

Reutersجسٹس یحییٰ آفریدی کون ہیں؟

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلعڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی بطور چیف جسٹس نامزدگی کے وقت سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں۔

جسٹس آفریدی نے ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچیسن کالج سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا جبکہ انھوں نے قانون کی تعلیم برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔

جسٹس آفریدی نے 1990 میں ہائیکورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی جبکہ 2004 میں سپریم کورٹ میں وکالت کا آغاز کیا۔

اس دوران وہ خیبر پختونخوا کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی عہدے پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔

سنہ 2010 میں پشاور ہائیکورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات ہونے سے پہلے وہ ’آفریدی، شاہ اور من اللہ‘ لا فرم کا حصہ تھے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس کے دیگر دو شراکت دار وکیل منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ بھی جسٹس آفریدی کی طرح سپریم کورٹ کے جج بنے۔

سنہ 2012 میں جب جسٹس آفریدی کو پشاور ہائیکورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا تو انھوں نے اس لا فرم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

ہائیکورٹ میں چار سال کام کے بعد 30 دسمبر 2016 کو جسٹس آفریدی کو پشاور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔

اس عرصے کے دوران جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چل رہا تھا تو انھوں نے کچھ عرصے کے لیے اس خصوصی بینچ کی سربراہی کی تھی، تاہم پھر وہ اس خصوصی بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔

پشاور ہائیکورٹ میں چھ برس کا عرصہ گزارنے کے بعد 28 جون 2018 کو انھیں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔ تاہم حال ہی میں وہ چیف جسٹس قاضی فائز کے ساتھ اُن چار ججوں میں شامل تھے جنھوں نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کی عمر اِس وقت 59 سال ہے اور چیف جسٹس کے طور پر نام کی منظوری ہونے پر انھیں ریٹائرمنٹ کی مقررہ عمر تک پہنچنے سے تین برس قبل ہی ریٹائر ہونا پڑے گا۔

اس کی وجہ 26 ویں آئینی ترمیم ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک کے چیف جسٹس کا تقرر تین سال کے لیے ہو گا اور یہ مدت مکمل ہونے کے بعد اس چیف جسٹس کو ریٹائر ہی سمجھا جائے گا، چاہے وہ 65 سال کی عمر کو نہ بھی پہنچا ہو۔

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی دوڑ میں شامل دو ججوں یعنی جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی کا لیگل کیرئر بہت بہتر ہے اور وہ دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں جبکہ انھیں ایڈمنسٹریشن کا تجربہ بھی حاصل ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جسٹس یحیی آفریدی نے متعدد ایسے فیصلے دیے ہیں جن کو وکلا کمیونٹی میں بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے۔

چوہدری اکرام ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے کسی بھی معاملے میں اپنے آپ کو متنازع نہیں بنایا اور وہ آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ دیتے رہے۔

تاریخ میں پہلی بار پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کا انتخاب

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ کی حالیہ تاریخ میں الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔

26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی سے متعلق تشکیل پانے والی پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔

اس آئینی ترمیم کے پاس ہونے سے پہلے آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت ججوں کی تعیناتی سے متعلق جو پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کی سربراہی بھی وزیر دفاع خواجہ آصف کر رہے تھے تاہم اس پارلیمانی کمیٹی کا کردار ربر سٹیمپ سے زیادہ نہیں تھا۔

پارلیمان کی خصوصی 12 رکنی کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی نمائندگی خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑاور شائستہ پرویز ملک کر رہے تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک کو نامزد کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضی، ایم کیو ایم کی رعنا انصار، پاکستان تحریک انصاف کے بیرسٹر گوہر علی خان اور بیرسٹر علی ظفر، جبکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے حامد رضا بھی اس کمیٹی کا حصہ تھے۔

تحریکِ انصاف نے اگرچہ اس کمیٹی کے لیے اپنے نمائندوں کو نامزد کیا تاہم بیرسٹر گوہر نے چیف جسٹس کے چناؤ کے عمل میں حصہ لینے اور پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا۔

آئینی معاملات پر حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان بڑھتی خلیج کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہےچیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہے26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟’کالے سانپ کے دانت، ڈگی میں بند پرندے اور مین آف دی میچ مولانا‘: رات گئے پارلیمان اور سوشل میڈیا پر کیا کچھ ہوتا رہا؟چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہےجسٹس مظاہر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری: سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے خلاف کارروائی کیسے کرتی ہے؟چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہے26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More