جسٹس یحیی آفریدی پاکستان کے نئے چیف جسٹس کے لیے نامزد: ’پارلیمانی کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے فیصلہ کیا‘

بی بی سی اردو  |  Oct 22, 2024

پاکستان کے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹینے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا ہے۔

منگل کی رات ہونے والے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جسٹس یحییٰ آفریدی کو دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس نامزد کرکے ان نام بطور چیف جسٹس آف پاکستان وزیراعظم شہباز شریف کو ارسال کر دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔

26 ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پی ٹی آئی اور سُنی اتحاد کونسل نے کمیٹی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

کمیٹی میں چیف جسٹس کی تقرری کے لیے سیکرٹری قانون کے بھیجےگئے 3 ججز کے نام پیشکیے گئے۔

سیکرٹری قانون نے حال ہی میں منظوع ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم کے تیت تین سینئر موسٹ ججز کے ناموں کا پینل کمیٹی کو بھجوایا تھا۔ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔

بند کمرہ اجلاس میں طویل بحث کے بعد کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام پر اتفاق کرلیا۔

اجلاس کے بعد ومیر قانون نے میڈیا سے مختصر گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس نامزد کیا گیا ہے۔

Reutersپاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ کی حالیہ تاریخ میں الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔

26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی سے متعلق تشکیل پانے والی پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندے شامل ہیں۔

اس آئینی ترمیم کے پاس ہونے سے پہلے آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت ججوں کی تعیناتی سے متعلق جو پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کی سربراہی بھی وزیر دفاع خواجہ آصف کر رہے تھے تاہم اس پارلیمانی کمیٹی کا کردار ربر سٹیمپ سے زیادہ نہیں تھا۔

پارلیمان کی 12 رکنی کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی نمائندگی خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑاور شائستہ پرویز ملک کر رہے ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک کو نامزد کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضی، ایم کیو ایم کی رعنا انصار، پاکستان تحریک انصاف کے بیرسٹر گوہر علی خان اور بیرسٹر علی ظفر جبکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے حامد رضا بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔

تحریکِ انصاف نے اگرچہ اس کمیٹی کے لیے اپنے نمائندوں کو نامزد کیا تاہم جماعت نے چیف جسٹس کے چناؤ کے عمل میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔

چیف جسٹس کا انتخاب کیسے ہو گا

آئینی ترمیم کے بعد اب وزارتِ قانون کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین سب سے سینیئر ججوں کے نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیے گئے تھے۔

رجسٹرار آفس کے حکام نے بی بی سی کو تصدیق کی تھی کہ یہ عمل منگل کی دوپہر مکمل ہو گیا ہے۔

اب کمیٹی کو ان میں سے ایک جج کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کی منظوری دو تہائی اکثریت سے دینی ہو گی یعنی 12 میں سے آٹھ ارکان جس جج کی حمایت کریں گے وہ پاکستان کا اگلا چیف جسٹس ہو گا۔

وزارت قانون کے ایک اہلکار کے مطابق ان کی وزارت کو یہ نام منگل کو ہی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے اس لیے ضروری تھے کیونکہ نئی آئینی ترمیم کے تحت موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین دن قبل پارلیمانی کمیٹی کو کسی ایک جج کے نام پر اتفاق کرکے ضابطے کی کارروائی کو آگے بڑھانا لازم ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا بطور جج کا قانونی کریئر کیسا رہا ، آپ کے آگے بتاتے ہیں۔

آئینی معاملات پر حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان بڑھتی خلیج کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہےچیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہے26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟جسٹس یحییٰ آفریدی

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع سے تعلق رکھنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی اس وقت سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کی طرح انھوں نے بھی قانون کی ابتدائی تعلیم پاکستان سے حاصل کرنے کے بعد برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔

سنہ 2010 میں پشاور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات ہونے سے پہلے وہ آفریدی، شاہ اور من اللہ لا فرم کا حصہ تھے۔

2012 میں جب انھیں پشاور ہائی کورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا تو انھوں نے اس ادارے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

ہائیکورٹ میں چار سال کام کے بعد 30 دسمبر 2016 کو جسٹس آفریدی کو پشاور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔

اس عرصے کے دوران جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چل رہا تھا تو انھوں نے کچھ عرصے کے لیے اس خصوصی بینچ کی سربراہی کی تھی تاہم پھر وہ اس خصوصی بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔

پشاور ہائیکورٹ میں چھ برس کا عرصہ گزارنے کے بعد 28 جون 2018 کو انھیں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں قاضی فائز عیسی کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔

تاہم حال ہی میں وہ چیف جسٹس کے ساتھ ان چار ججوں میں شامل تھے جنھوں نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کی مخالفت کی تھی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کی عمر اس وقت 59 سال ہے اور اگر ان کا نام بطور چیف جسٹس منظور کر لیا جاتا ہے تو پھر بھی انھیں ریٹائرمنٹ کی مقررہ عمر تک پہنچنے سے تین برس قبل ہی ریٹائر ہونا پڑے گا۔

اس کی وجہ 26 ویں آئینی ترمیم ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک کے چیف جسٹس کا تقرر تین سال کے لیے ہو گا اور یہ مدت مکمل ہونے کے بعد اس چیف جسٹس کو ریٹائر ہی سمجھا جائے گا چاہے وہ 65 سال کی عمر کو نہ بھی پہنچا ہو۔

جسٹس یحیی آفریدی نے کسی بھی معاملے میں اپنے آپ کو متنازع نہیں بنایا

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے ان تین ججز میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی کا لیگل کیرئر بہت بہتر ہے اور وہ دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں اس انھیں ایڈمنسٹریشن کا تجربہ بھی حاصل ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی نے متعدد ایسے فیصلے دیے ہیں جن کو وکلا کمیونٹی میں بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کو سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا تھا جس پر وکلا برادری نے احتجاج بھی کیا تھا۔

امجد شاہ کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں اور جسٹس منیب اختر دن گیارہ بجے تک عاممقدمات کی سماعت کے لیے دستاب ہوتے تھے اور گیارہ بجے کے بعد وہ مقدمات کی سماعت نہیں کرتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی جسٹس منیب اختر کو جو خط لکھا اس میں ان کی گیارہ بجے کے بعد عدم دستیابی کا ذکرکیا گیا جبکہ ان کے جونئیر ججز اور بالخصوص ایڈہاک ججز کے ساتھ بدتمیزی اور ناروا سلوک کا بھی ذکر کیا گیا۔

چوہدری اکرام ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ جو جج سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہتر جج ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ عدالتی اصلاحات کے بہت بڑے حامی ہیں اور وہ خود کہتے ہیں کہ کسی بھی اہم عہدے کے لیے محض سنیارٹی نہیں بلکہ قابلیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ جسٹس یحی آفریدی نے کسی بھی معاملے میں اپنے آپ کو متنازع نہیں بنایا اور وہ آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ دیتے رہے جبکہ جسٹس منیب اختر متعدد مقدمات کی سماعت میں ریمارکس اور اپنے رویے کی وجہ سے متنازع رہے ہیں۔

’کالے سانپ کے دانت، ڈگی میں بند پرندے اور مین آف دی میچ مولانا‘: رات گئے پارلیمان اور سوشل میڈیا پر کیا کچھ ہوتا رہا؟چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہےجسٹس مظاہر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری: سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے خلاف کارروائی کیسے کرتی ہے؟چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہے26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More