’کالے سانپ کے دانت، ڈگی میں بند پرندے اور مین آف دی میچ مولانا‘: رات گئے پارلیمان اور سوشل میڈیا پر کیا کچھ ہوتا رہا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 21, 2024

مہینوں جاری رہنے والے بحث و مباحثے، اتحادی پارٹیوں کے ناراض ہونے اور پھر مان جانے، آدھ درجن کے نزدیک مجوزہ ترمیم کے مسودوں پر گفتگو کے بعد اُن میں ہونے والی کاٹ چھانٹ اور چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے اُن کے اراکین پارلیمان کو مبینہ طور پر اِس ترمیم کے حق میں ووٹ لینے کے لیے ہراساں کیے جانے کے دعوؤں کے بعد بلآخر پیر کی علی الصبح پاکستان کی پارلیمان نے 26ویں آئینی ترمیم کا بِل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا۔

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ سے اس ترمیم کی منظوری کا عمل اتوار کی رات دس بجے مکمل ہوا جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس رات گئے ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوا اور پیر کو علی الصبح پانچ بجے اِس کی تکمیل ہوئی۔

سینیٹ سے اس ترمیم کے حق میں 65 ووٹ پڑے جس میں 23 ووٹ پیپلز پارٹی، 19 ن لیگ، پانچ جے یو آئی ف، چار بلوچستان عوامی پارٹی، تین ایم کیو ایم، تین اے این پی، دو بی این پی، چار آزاد سینیٹرز جبکہ ایک، ایک ووٹ ق لیگ اور نیشنل پارٹی کے اراکین کا تھا جبکہ چار اراکین نے اس ترمیم کی مخالفت کی۔

سینیٹ میں اس ترمیم پر ووٹنگ کے آغاز سے قبل پاکستان تحریک انصاف اور مجلس وحدت المسلمین کے اراکین سینیٹ نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر اتوار کی شام مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد یہ واضح کر چکے تھے کہ اگرچہ شدید تحفظات کے باوجود اُن کی جماعت مشاورت کے عمل میں شریک رہی تاہم وہ اس بل کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔

اس بِل کی منظوری کے لیے حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں 224 اراکین کے ووٹ درکار تھے جنھیں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ چار آزاد امیدواروں اور مسلم لیگ ق کے ایک امیدوار کی مدد سے پورا کیا گیا۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد اب 26ویں آئینی ترمیم کا بل صدر مملکت کو بھیجا جائے گا، جن کی منظوری کے بعد یہ آئین کا حصہ بن جائے گا۔

اتوار کے روز بھی سیاسی رہنماؤں کی ایک دوسرے سے ملاقاتوں کا احوال میڈیا کی زینت بنتا رہا جبکہ بظاہر اس ترمیم کی منظوری کے لیے نمبرز پورے کرنے اور ’اتفاق رائے‘ پیدا کرنے کے لیے دونوں ایوانوں کے اجلاس مؤخر ہوتے رہے۔ کُچھ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے تو ایسے بیانات بھی سامنے آئے کے اُس کے ممبرانِ قومی اسمبلی پر ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور اس سے متعلقہ بیانات سوشل میڈیا پر زیر بحث رہے۔

گذشتہ روز جب سینیٹ سے یہ ترمیم منظور ہوئی تو اُس کے بعد سینیٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں نے جب سینیٹر فیصل واوڈا سے پوچھا کہ کیا 26 ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہو جائے گا؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’بھائی! ابھی تو ڈگّی کھولے بغیر ہی ہو گیا ہے۔ ابھی تو ڈگّی میں بھی اتنے سارے پرندے ہیں۔ ان کو بھی آزاد کرنا ہے۔۔۔‘

یاد رہے کہ اس بل کو سینیٹ سے پاس کروانے کے لیے حکومتی اتحاد کو تحریک انصاف کے سینیٹرز کے ووٹ نہیں پڑی اور بظاہر فیصل واوڈا کا اشارہ بھی اسی جانب تھا۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ سب پلان کا حصہ تھا۔ پاکستانی قوم کو پتا ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی میں ایک بڑا فارورڈ بلاک بننے جا رہا ہے۔ اسے ایک دانشمند سیاستدان لیڈ کریں گے۔‘

تاہم اس کے بعد دیکھا گیا کہ قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے چار اور مسلم لیگ ق کے ایک رُکن نے حکومت کو مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں اپنے ووٹ کے ذریعے مدد دی۔ گذشتہ رات بہت سے پی ٹی آئی ممبران پارلیمان کے بارے میں یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ بطور ریزرو ووٹر پارلیمان کی گیلریوں میں موجود ہیں اور یہ کہ ضرورت پڑنے پر اُن کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

اسی نوعیت کے الزامات کا جواب دینے کے لیے زین قریشی سمیت دیگر پی ٹی آئی ممبران نے سوشل میڈیا کا رُخ کیا اور اس کی تردید کی۔

تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کی مولانا فضل الرحمان کے ساتھ پریس کانفرنس میں مولانا کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ جو ہوا ہے تو اُن کا حق بنتا ہے کہ وہ اس کارروائی میں حصہ نہ لیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مجموعی طور پر ہم نے اس کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں اور اس کا زہر نکال دیا ہے۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف نے بھی اتفاق کیا ہے۔‘

اگرچہ مولانا فضل الرحمان نے کالے سانپ کی وضاحت نہیں کی تاہم بعدازاں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’جس کالے سانپ کی آج یہاں بات ہو رہی ہے وہ افتخار چوہدری والی عدالت ہے۔‘

تاہم بہت سے صارف اس بیان سے متفق نہیں ہوئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’مولانا فضل الرحمان عمران خان کی قید اور پی ٹی آئی کی غیر فعال قیادت کی شکل میں ایک موقع دیکھ رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو پوزیشن کر رہے ہیں خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔ ’کالا ناگ‘ دراصل بانی پی ٹی آئی تھے جن کا اثر انھوں نے پہلے ہی ختم کر دیا ہے۔‘

بلاول بھٹو اور دیگر بہت سے سیاسی رہنماؤں کی طرح بہت سے صارفین بھی اس معاملے میں مولانا فضل الرحمان کیسیاست کی تعریف کرتے نظر آئے۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’26ویں آئینی ترمیم کو آگے بڑھانے میں مولانا فضل الرحمان صاحب کا اہم کردار سیاسی پیچیدگیوں کے بارے میں ان کی غیر معمولی سمجھ کو اجاگر کرتا ہے۔ ان کی قیادت پاکستان کے لیے مشکل وقت میں ایک مینار بنی ہوئی ہے۔‘

علی بلوچ نامی صارف نے لکھا کہ ’26ویں آئینی ترمیم کا ٹیسٹ میچ حکومت نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد جیت لیا، لیکن سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ کم عددی اکثریت رکھنے والے مولانا مین آف دی میچ ثابت ہوئے۔‘

اسی طرح چند صارفین قومی اسمبلی کا اجلاس صبح پانچ بجے تک چلنے پر بھی اپنی آرا دیتے رہے۔ صحافی حامد میر نے لکھا کہ ’پانچ دن پہلے یہ تو پتہ تھا کہ آئینی عدالت نہیں بلکہ آئینی بینچ بنے گا، لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سب کچھ فجر کے قریب ہو گا۔‘

چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہےآئینی معاملات پر حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان بڑھتی خلیج کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟آئینی ترامیم: کیا حکومت کی کنپٹی پر کسی نے سائلنسر گن تانی ہوئی تھی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More