نیوزی لینڈ بحریہ کا جہاز اس لیے نہیں ڈوبا کہ کیپٹن خاتون تھیں، وزیر دفاع کا سخت ردعمل

اردو نیوز  |  Oct 14, 2024

نیوزی لینڈ کی وزیر دفاع نے خاتون کمانڈر کو صنفی تنقید کا نشانہ بنائے جانے والے آن لائن تبصروں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انہیں ’غلیظ‘ اور ’خواتین کے خلاف تعصب‘ قرار دیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق وزیر دفاع جوڈتھ کالنز نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’کیا واقعی یہ 2024 ہے۔ آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔‘

گزشتہ ہفتے نیوزی لینڈ کی بحریہ کا ایک جہاز ڈوب گیا تھا جس کے بعد سے اس کی خاتون کیپٹن یووون گرے کو آن لائن تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس جہاز پر موجود تمام 75 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا تاہم کچھ کو معمولی چوٹیں آئی تھیں۔

وزیر دفاع جوڈیتھ کالنز نے کہا ’ایک بات جو ہمیں معلوم ہے کہ جہاز کے کیپٹن کے جنس کی وجہ سے واقعہ نہیں پیش آیا۔ نیوی کے 30 سالہ تجربے کے ساتھ انہیں خاتون نے اس رات اپنے لوگوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کی کال دی تھی۔‘

جہاز ڈوبنے کا واقعہ پیش آنے کے بعد سے خواتین فوجی اہلکاروں کو نیوزی لینڈ کی گلیوں میں بھی زبانی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

آن لائن تبصروں کا ذکر کرتے ہوئے جوڈیتھ کالنز نے کہا کہ ایک پوسٹر آسٹریلیا سے ایک ٹرک ڈرائیور کا تھا، ’میرے خیال میں انہیں اپنے تبصرے جہاز چلانے والوں کے بجائے ٹرک چلانے والوں تک محدود رکھنے چاہیں۔‘

’ایسے لوگوں کو میں تنقید کا نشانہ بناتی رہوں گی اور اگر یہ کرنے سے ایسے رویے ختم ہو سکتے ہیں تو مجھے ایسا کرنے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے۔‘

نیوزی لینڈ کی عسکری قوت میں سے خواتین 20 فیصد ہیں جبکہ جوڈیتھ کالنز ملک کی پہلی خاتون وزیر دفاع ہیں جنہوں نے رواں سال جون میں یہ عہدہ سنبھالا ہے۔

وزیر دفاع نے کہا ’ہم میرٹ پر بھرتی ہوتے ہیں، نہ کہ جنس پر۔‘

نیوزی لینڈ کی حکومت نے جہاز ڈوبنے کے واقعے پر ملٹری عدالت کے تحت انکوائری کروانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

جہاز پر سائنسدان اور غیر ملکی عسکری اہلکار بھی موجود تھے جنہوں نے مشکل حالات اور اندھیرے میں لائف بوٹس کے ذریعے اپنی جان بچائی تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More