جب بی بی سی کے صحافی و مصنف معذوری کے باعث جہاز میں رینگنے پر مجبور ہوئے

اردو نیوز  |  Oct 03, 2024

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک صحافی جہاز میں اس وقت رینگنے پر مجبور ہو گئے جب عملے کی جانب سے اُن کو معذوری کے باوجود ویل چیئر دینے سے معذرت کر دی گئی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بی بی سی کے نمائندے اور مصنف فرینک گارڈرنر کی جانب سے ایک پوسٹ کی گئی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جب وہ پولینڈ سے لندن کی جانب سفر کر رہے تھے انہیں جہاز کے عملے کی جانب سے ویل چئیر مہیا نہیں کی گئی۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’کیا بات ہے یہ سنہ2024 ہے، لوٹ پولش ائیرلائن میں پرواز کے دوران مجھے ویل چئر نہیں فراہم کی گئی جس کی وجہ سے مجھے رینگ کر بیت الخلا جانا پڑا، عملے کی جانب سے کہا گیا کہ ہمارے پاس ویل چیئر نہیں۔‘

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ ’اگر آپ معذور ہیں اور آپ چل پھر نہیں سکتے تو پھر آپ کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جائے گا۔‘

فرینک گارڈرنر معروف جنگی نامہ نگار اور مصنف ہیں۔

واضح رہے کہ وہ فرائض منصبی انجام دینے کے دوران ایک حملے کی وجہ سے زخمی ہونے کے بعد گزشتہ 20 برس سے معذور ہیں۔

بی بی سی میں شائع ہونے والے مضمون میں فرینک گارڈرنر نے کہا ہے کہ سارا مرحلہ ان کے لیے بڑا ہی تکلیف دہ اور امتیازی سلوک سے بھرپور تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت تضحیک آمیز ہوتا جب آپ کو دوسرے مسافروں کے سامنے جہاز کے فرش میں رینگنا پڑ جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاز کے عملے نے بتایا کہ ویل چیئر رکھنا کمپنی کی پالیسی میں نہیں شامل۔

فرینک گارڈرنر کہتے ہیں یہ معذور افراد کے لیے ناقابل قبول ہے، اس میں کیا دشواری ہے کہ آپ ایک چھوٹی ویل چیئر جہاز میں رکھیں، آج کل تو چھوٹی چھوٹی ویل چیئر آتی ہیں جو باندھ کر کسی لاکر یا کسی چھوٹی الماری میں بآسانی رکھی جا سکتی ہیں، یہ 2024 ہے 1970 نہیں۔‘

فرینک گارڈرنر نے بتایا کہ انہوں نے پہلے کبھی کسی پرواز میں اس قسم کی صورتحال کا سامنا نہیں کیا۔

تاہم انہوں نے جہاز کے عملے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاز کے عملے کی اس میں کوئی غلطی نہیں وہ تو صرف کمپنی کی پالیسی پر عمل کر رہے ہوں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جہاز کا عملہ میرے ساتھ اتنا ہی معذرت خواہانہ اور مددگار تھا جتنا وہ ہو سکتے تھے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More