’ایران اسرائیل کو بڑا نقصان پہنچانا چاہتا تھا، مگر اس مرتبہ اسرائیلی ردعمل نپا تُلا نہیں ہو گا‘

بی بی سی اردو  |  Oct 02, 2024

Getty Images

جب اپریل میں ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ اپنی کوئی بات ثابت کرنا چاہتا ہے۔

لیکن ایران نے جیسے حملہ کیا اور اس حملے کی پیشگی اطلاع دے دی تھی اس کے نتیجے میں اسرائیل اور امریکہ باآسانی ایرانی میزائلوں اور ڈرونز مار گرائے میں کامیاب ہوئے تھے۔

لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اب کی بار ایران واقعی اسرائیل کو سنگین نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔

ایران کی پاسداران انقلاب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس حملے کا مقصد حماس اور حزب اللہ کے سینیئر رہنماؤں کی ہلاکت کا بدلہ لینا ہے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کا جواب دیں گے۔

پچھلی بار جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو سے جواب میں سخت ردعمل نہ دینے کا کہا تھا اور بظاہر انھوں نے امریکی صدر کی بات مان لی تھی۔ لیکن اب کی بار اسرائیل میں جذبات کافی مختلف دکھائی دیتے ہیں۔

اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟آئرن ڈوم اور دیگر اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہیں اور وہ کیسے کام کرتے ہیں؟اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟’داؤد کی غلیل‘: موساد کے دفتر کو حزب اللہ کے میزائل سے بچانے والا ’جادو کی چھڑی‘ جیسا اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہے؟

مثال کے طور پر سابق وزیرِاعظم نفتالی بینیٹ کی گذشتہ رات کی ٹویٹ کو دیکھیں تو دکھائی دیتا ہے کہ انھوں نے بہت سخت زبان استعمال کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 50 سالوں میں مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدلنے کا یہ سب سے بہترین موقع ہے۔ وہ اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی ترغیب دے رہے تھے تاکہ ایرانی حکومت کی کمر ہمیشہ کے لیے توڑی جا سکے۔

وہ اس وقت وزیرِ اعظم تو نہیں ہیں لیکن خیال کیا جا رہا ہے وہ مستقبل میں دوبارہ وزیرِ اعظم بننے جا رہے ہیں اور شاید اس ہی لیے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ سخت موقف لینے کے قابل ہیں۔ لیکن ان کا بیان ملک میں موجود ایک خاص مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔

اس وقت اسرائیل ایران میں کسی بھی جگہ حملہ کر سکتا ہے، چاہے وہ جوہری تنصیبات ہوں یا پیٹرو کیمیکل تنصیبات، غرض کہ ہر وہ شے جس پر حملے سے ایرانی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اسرائیل کے نشانے پر ہوسکتی ہے۔

منظر نامہ ہمیشہ سے ایسا تھا کہ اگر ایران اور اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ ہوتا ہے تو ایران کے پاس لبنان میں حزب اللہ کی شکل میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ایک فورس ہو گی جو اس کے کام آئے گی۔

Reuters

لیکن گذشتہ دو ہفتوں میں امریکی اور اسرائیلی حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کو تقریباً ناکارہ کر دیا ہے اور اس کے نصف ہتھیاروں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔

ایک طرح سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا وہ دفاعی نظام جو اسرائیل کو روکے ہوئے تھا وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے۔

میرے خیال میں اسرائیلی اب ردِعمل دینے میں زیادہ آزاد محسوس کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جو بائیڈن ایک اور طیارہ بردار بحری جہاز بحیرہ روم کی جانب بھیج رہے ہیں جو کہ ایرانیوں کے لیے اشارہ ہے کہ اگر انھوں نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اسے امریکہ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ اس جنگ کے نتیجے میں پھیلنے والے عدم استحکام، ہنگامہ آرائی اور دیگر چیزوں کے بارے میں اپنے خوف کا اظہار کرتے آئے ہیں اور اب یہ سب ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور لگتا یوں ہے کہ فی الحال سفارت کاری کے لیے بہت کم گنجائش بچی ہے۔

حزب اللہ کے نئے ممکنہ سربراہ ہاشم صفی الدین جنھیں ’1994 سے پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا‘دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہایران اور اسرائیل کے درمیان دوستی ’خونیں دشمنی‘ میں کیسے بدلیچین، روس اور امریکہ جیسی عالمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر کھڑے مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی رکوانے میں ناکام کیوں؟لبنان میں اسرائیلی بمباری اور پاکستانی شہری: ’ایسے لگا ابھی کوئی بم ہم پر گرے گا‘ہمدردیوں، دشمنیوں اور سیاسی اتحادوں کا پیچیدہ جال: کثیر المسلکی ملک لبنان میں حزب اللہ کو کتنی حمایت حاصل ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More