ایواؤ ہاکامادا: 56 برس سے سزائے موت کے منتظر جاپانی باکسر کو عدالت نے بری کر دیا

بی بی سی اردو  |  Sep 26, 2024

Getty Images2014 میں ہاکامادا کو ان کے خلاف مقدمے کے ’ری ٹرائل‘ کا حکم آنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ اپنی بگڑی ہوئی ذہنی حالت کی وجہ سے اپنی بہن کے پاس رہ رہے ہیں

دنیا میں سب سے طویل عرصے سے سزائے موت پر عملدرآمد کے منتظر 88 سالہ شہری کو جاپان کی عدالت نے بری کر دیا ہے۔

ایواؤ ہاکامادا کو 1968 میں اپنے باس، ان کی اہلیہ اور دو نوعمر بچوں کے قتل کا مجرم قرار دے کر موت کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اس سزا پر عملدرآمد کے انتظار میں تھے۔

جمعرات کو شیزوکا میں اس معاملے کا فیصلہ سننے کے لیے کمرۂ عدالت میں تقریباً 500 افراد موجود تھے اور جیسے ہی فیصلہ سنایا گیا، عدالت کے باہر ہاکامادا کے حامیوں نے ’بانزئی‘ کے نعرے لگائے جو کہ جاپان میں خوشی کا اظہار ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہاكامادا کو سب سے طویل مدت تک موت کی سزا کا منتظر قیدی قرار دیا تھا۔

سابق پیشہ ور مکے باز ہاکامادا پر سنہ 1966 میں شیزواوکا میں سویا بین پروسیسنگ فیکٹری میں اپنے باس اور اس کے اہل خانہ کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس کے کنبے کے افراد آتشزدگی کے بعد چاقو کے زخم سے ہلاک پائے گئے تھے۔

ہاکامادا نے اس وقت 20 دنوں کی تفتیش کے بعد اقبال جرم کر لیا تھا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کے دوران ان کو مارا پیٹا گیا تھا۔ بعد میں وہ عدالت میں اپنے بیان سے منحرف ہو گئے تھے۔

جاپان کی پولیس روایتی طور پر اقبال جرم پر مقدمہ چلاتی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اکثر و بیشتر یہ بیان زبردستی لیے جاتے ہیں۔

اس فیصلے سے جاپان کا سب سے طویل اور مشہور مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا ہے۔

سعودی عرب میں خفیہ سزائے موت: ’دفنانے کے لیے لاش ہے، نہ فاتحہ کے لیے قبر‘اسلام آباد: مسیحی خاتون کو سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد شیئر کرنے پر سزائے موت سنا دی گئی عراق میں تین پاکستانیوں کو سزائے موت: ’بھائی مزدوری کرنے گیا تھا، وہ دہشت گردی کیسے کر سکتا ہے‘ ’یہ کیس میری روح پر بوجھ بن گیا‘: 21 برس سے قید شخص جسے اس جرم میں سزائے موت ہوئی ’جو ہوا ہی نہیں‘

2014 میں ہاکامادا کو ان کے خلاف مقدمے کے ’ری ٹرائل‘ کا حکم آنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ اپنی بگڑی ہوئی ذہنی حالت کی وجہ سے اپنی بہن کے پاس رہ رہے ہیں۔

اس وقت عدالت نے ان پر دوبارہ مقدمہ چلانے کی اجازت ان شکوک کی بنیاد پر دیتھی کہ مقدمے کے تفتیش کاروں نے جعلی ثبوت پیش کیے جو چار افراد کے قتل کی سزا کی وجہ بنے۔ ہاکامادا کے وکلا نے یہ ثابت کیا تھا قاتل کے لباس پر خون کے دھبوں سے ملنے والا ڈی این اے ان کے موکل کا نہیں تھا۔

AFPسابق پیشہ ور مکے باز ہاکامادا پر سنہ 1966 میں شیزواوکا میں سویا بین پروسیسنگ فیکٹری میں اپنے باس اور اس کے اہل خانہ کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔

اس وقت جج نے ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'ان کی بے گناہی کا امکان ایک حد تک واضح ہو گیا ہے۔ اس لیے اب انھیں قید میں رکھنا ناانصافی ہے۔' جبکہ معاملے کی سماعت کرنے والے تین ججوں میں سے ایک نے عوامی طور پر کہا کہ وہ ملزم کو بےگناہ تسلیم کرتے ہیں۔

قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہاکامادا کے مقدمے کی دوبارہ کارروائی گذشتہ برس ہی شروع ہو سکی تھی اور جمعرات کو عدالت نے اس بارے میں فیصلہ کیا آیا ہاکامادا کو بری کر دیا جائے یا انھیں پہلے دی گئی سزائے موت برقرار رکھی جائے۔

جاپان کی بعد از جنگ تاریخ میں ہاکامادا صرف پانچویں ایسے فرد ہیں جنھیں سزائے موت سنائے جانے کے بعد ان کا مقدمہ دوبارہ چلانے کا حکم دیا گیا۔

سزائے موت کے قیدی محمد انور جو تختہ دار تک پہنچنے کے بعد رہا ہوئےسعودی عرب میں خفیہ سزائے موت: ’دفنانے کے لیے لاش ہے، نہ فاتحہ کے لیے قبر‘’میں ہر وقت اضطراب میں مبتلا رہتا ہوں‘: وہ قیدی جنھیں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت دی جائے گی’یہ کیس میری روح پر بوجھ بن گیا‘: 21 برس سے قید شخص جسے اس جرم میں سزائے موت ہوئی ’جو ہوا ہی نہیں‘اسلام آباد: مسیحی خاتون کو سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد شیئر کرنے پر سزائے موت سنا دی گئی عراق میں تین پاکستانیوں کو سزائے موت: ’بھائی مزدوری کرنے گیا تھا، وہ دہشت گردی کیسے کر سکتا ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More