انڈین فوجی افسر اور ان کی منگیتر کا پولیس پر جنسی تشدد کا الزام: ’انھوں نے میرے ہی سکارف سے میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیے‘

بی بی سی اردو  |  Sep 21, 2024

Getty Images

انتباہ: اس کہانی میں ایسی تفصیلات ہیں جو قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں!

انڈیا کی مشرقی ریاست اڑیسہ (اوڈیشہ) میں پولیس سٹیشن پر فوجی افسر اور ان کی منگیتر کے ساتھ مبینہ ’وحشیانہ حملے‘ اور ’جنسی تشدد‘ کے ایک واقعے نے انڈیا میں پولیس کے طرز عمل پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

اس واقعے میں متاثرہ خاتون کی طرف سے بیان کی گئیں تفصیلات کافی لرزہ خیز ہیں۔

انڈین فوج میں میجر کے رینک پر فائز افسر اور ان کی منگیتر نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ جب وہ 14 ستمبر کو رات گئےلڑکوں کی چھیڑ چھاڑ اور بدتمیزی کی رپورٹ درج کروانے بھرت پور تھانے آئے تو ’پولیس نے ان کی مدد کرنے کے بجائے ان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا اور خاتون کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’وہاں صرف ایک خاتون افسر موجود تھیں اور انھوں نے ان کی مدد کے بجائے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔‘

خاتون کے مطابق ’پولیس کی ایک پیٹرولنگ ٹیم جب وہاں پہنچی تو انھوں نے فوجی کو حراست میں لے لیا۔ جب میں نے کہا کہ آپ ایک فوجی افسر کو حراست میں نہیں لے سکتے، یہ غیر قانونی ہے تو دو خواتین پولیس اہلکاروں نے میرے بال پکڑ کے زور سے کھینچے اور مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پھر وہ مجھے کوریڈور سے کھینچتے ہوئے لے جانے لگے اور جب ایک لیڈی کانسٹیبل نے میرا گلا دبانے کی کوشش کی تو میں نے اس کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے میرے ہی سکارف سے میرے ہاتھ پیچھے کی جانب باندھ دیے۔ اور ایک لیڈی کانسٹیبل نے میرے پاؤں باندھ کر مجھے کمرے میں بند کر دیا۔‘

ان الزامات پر فوج کے لیفٹنینٹ جنرل پی ایس شیخاوت نے اڑیسہ کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر از خود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔

اب یہ خط سوشل میڈیا پر گشت کر رہا ہے اور اس کے ساتھ فوجی افسر کی منگیتر کی ویڈیو بھی بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہے جس میں وہ اپنی روداد سنا رہی ہیں۔

دوسری جانب پولیس نے ان تمام الزامات کی تردید کرتےہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اتوار کی صبح جب فوجی افسر اور ان کی منگیتر بھرت پور تھانے پہنچے ’تو دونوں نشے میں تھے۔‘

وزیر اعلی موہن چرن ماجھی نے مجرموں کو سخت سزا دینے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

’میرا برا اتار کر چھاتی پر لگاتار کک مارنا شروع کر دیں‘

یاد رہے کہ ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وزیر اعلی کے دفتر نے کہا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد پر حکومت کی ’زیرو ٹالرینس کی پالیسی‘ ہے۔ جبکہ وزیر اعلی موہن چرن مانجھی نے جمعے کو کہا کہ اس معاملے میں ’مثالی سزا‘ دی جائے گی۔

فوجی میجر کی منگیتر نے میڈیا سے جو بات کی وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

متاثرہ خاتون نے میڈیا کو بتایا کہ 15 ستمبر کو بھونیشور پولیس نے انھیں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا اور حراست میں رکھا۔

انھوں نے جمعرات کو ہسپتال سے ڈسچارج کیے جانے کے بعد اپنے الزامات میں کہا کہ انھیں مارا پیٹا گیا، لاتیں ماری گئیں اور راہداریوں میں گھسیٹ کر لے جایا گیا اور حراست میں انھیں ایک پولیس انسپکٹر نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔

انھوں نے روتے ہوئے مزید بتایا کہ اس کے بعد ایک مرد پولیس افسر آیا اور اس نے ’میرا برا اتار کر میری چھاتی پر لگا تار کک مارنا شروع کر دیں۔‘

بھوبنیشور کے ایمس ہسپتال میں ان خاتون کے جبڑے کے ٹوٹنے سمیت جسم پر موجود کئی زخموں کا علاج کیا جا رہا تھا۔

تھانے پہنچے تو دونوں نشے میں تھے: پولیس کا مؤقف

17 ستمبر کو بھونیشور کے ڈپٹی پولیس کمشنر پرتیک سنگھ نے کہا تھا کہ اتوار کی صبح جب فوجی افسر اور ان کی منگیتر بھرت پور تھانے پہنچے تو دونوں نشے کی حالت میں تھے۔

پولیس کمشنر نے کہا کہ ’انھوں نے تھانے میں ہنگامہ برپا کیا، وہاں موجود اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی، جب ایک خاتون افسر نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے اس کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ انھوں نے تھانے میں توڑ پھوڑ کی اور ایک کمپیوٹر کو بھی نقصان پہنچایا، اس لیے ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں حراست میں لے لیا گیا۔‘

پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ افسر کی کار سے شراب کی دو بوتلیں برآمد ہوئی ہیں اور ان دونوں نے شراب کے لیے کرائے جانے والے ’بریتھ اینالائزر ٹیسٹ‘ سے انکار کر دیا تھا۔

دوسری جانب بھرت پور تھانے میں واقعہ کی رات کی ویڈیو وائرل ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک فوجی افسر کو ایک کاغذ پر شکایت لکھتے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ان کی منگیتر ان کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔

ایک دوسری ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں متاثرہ خاتون کو یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے کہ ’آپ کسی آرمی آفیسر کو اس طرح لاک اپ میں نہیں رکھ سکتے۔‘

اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے خواتین کے قومی کمیشن نے اوڈیشہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وائی بی کھرانیا کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان سے تین دن کے اندر ’کارروائی کی رپورٹ‘ داخل کرنے کو کہا گیا ہے۔

عام شہری کس سے مدد کی امید رکھے: راہل گاندھی

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب فوج کے لیفٹنینٹ جنرل پی ایس شیخاوت نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نام 18 ستمبر کو ایک خط لکھا اور انھیں اس معاملے پر از خود نوٹس لینے کی درخواست کی۔

اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد سے انڈیا بھر میں اس کی تنقید کی جا رہی ہے۔

انڈیا میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے اس واقعے پر سخت تنقید کی ہے جبکہ ریاست کے سابق وزیر اعلی نوین پٹنائک نے اس معاملے کی عدالتی تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر اعلی کے دفتر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا: 'چونکہ یہ واقعہ انتہائی حساس ہے اس لیے کرائم برانچ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر واقعے کی تحقیقات کرے اور مقررہ وقت کے اندر رپورٹ پیش کرے۔'

ان کا کہنا ہے کہ 'تحقیقاتی رپورٹ آتے ہی مجرموں کو عبرتناک سزا دی جائے گی، حکومت کی خواتین پر تشدد کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔'

شدید تنقید اور دباؤ کے بعد پولیس سٹیشن کے پانچ اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔۔

حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا: اڑیسہ میں پیش آنے والے خوفناک واقعے نے ملک کی امن و امان کی صورتحال پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

راہل گاندھی نے لکھا 'پولیس سے مدد لینے گئے فوجی اہلکار کو وحشیانہ طریقے سے مارا پیٹا گیا اور ان کی منگیتر کو حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ پوری انسانیت کے لیے شرمناک ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ’بی جے پی حکومت میں خواتین کے خلاف جرائم مکمل طور پر بے قابو اور بے لگام ہو چکے ہیں۔ جب ناانصافی پروان چڑھتی ہے اور اسے حکومتی نظام میں ہی پناہ ملتی ہے تو پھر عام شہری کس سے مدد کی امید رکھے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’اس واقعے کے تمام مجرم سخت ترین قانونی سزا کے مستحق ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کرکے انڈین عوام بالخصوص خواتین کے سامنے انصاف اور تحفظ کی مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے۔‘

’جہاں فوجی بھی محفوظ نہیں‘: انڈیا کے شہر اندور میں فوجی اہلکاروں پر تشدد، خاتون دوست کا مبینہ ریپسکالرشپ کا جھانسہ دے کر نوجوان لڑکیوں کا ریپ: ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے خاتون کی آواز میں کال کی گئی‘انڈیا کے مقدس شہر میں ’سڑک کنارے ریپ کو روکنے کی بجائے ویڈیو بنائی گئی‘کولکتہ میں ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد ہزاروں خواتین سڑکوں پر: ’ہماری اوقات گائے، بکریوں سے بھی کم ہے‘سابق فوجیوں کا احتجاج

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اس خاتون کو پولیس نے ان پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا لیکن انھیں بدھ کو اڑیسہ ہائی کورٹ کے حکم پر ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

ہائی کورٹ 26 ستمبر کو ان کے اور فوجی افسر کے خلاف درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کو منسوخ کرنے کی درخواست پر سماعت کرے گی۔

حراست سے رہائی کے بعد فوجی افسر نے بدھ کو بھرت پور پولیس سٹیشن میں اہلکاروں کے خلاف باضابطہ شکایت درج کرائی ہے۔

اس معاملے پر فوج اور اس کے ریٹائرڈ افسران نے احتجاج کیا ہے۔

اس واقعے کے بعد فوج کی سنٹرل کمان نے اپنی ایکس ہینڈل سوریہ کمانڈ سے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ فوج اس واقعے کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور مناسب کارروائی کے لیے ریاستی حکام سے رابطے میں ہے۔

اس واقعہ پر ریٹائرڈ افسران نے پولیس کمشنر کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے قصوروار پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد اس معاملے کی جانچ کرائم برانچ کو سونپی گئی اور پانچوں پولیس والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

سینٹرل انڈین ایریا کے فوج کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) لیفٹیننٹ جنرل پی ایس شیخاوت نے چیف جسٹس کے نام ایک خط میں لکھا کہ 'ایک حاضر سروس فوجی افسر کے وقار کو مجروح کیا گیا ہے۔

’انھوں نے کہا کہ ان کی منگیتر جو کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کی بیٹی بھی ہیں ان عصمت اور وقار کو 'پولیس حکام کی طرف سے مجروح کیا گیا ہے۔‘

اڑیسہ کے سابق وزیر اعلی اور بی جے ڈی کے رہنما نوین پٹنائک نے کہا:

’ایک آرمی میجر اور اس کی منگیتر کے ساتھ پولیس سٹیشن میں جس طرح کا سلوک کیا گیا وہ حیران کن اور سمجھ سے بالاتر ہے۔ پولیس نے ان کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا ہے اس نے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بی جے ڈی اس گھناؤنے فعل کی سختی سے مذمت کرتی ہے اور بی جے پی حکومت سے توقع کرتی ہے کہ وہ تمام ملوث افراد کے خلاف سخت ترین ممکنہ کارروائی کرے گی۔‘

ماڈل پولیس سٹیشن کے سی سی ٹی وی کہاں گئے

اڑیسہ کے دارالحکومت بھونیشور سے صحافی سندیپ ساہو نے بتایا کہ بھرت پور پولیس سٹیشن کے افتتاح کے دوران جہاں یہ معاملہ سامنے آیا ہے کمشنر سنجیو پانڈا نے کہا تھا کہ یہ ایک ’ماڈل‘ پولیس سٹیشن ہے جس میں سی سی ٹی وی سمیت ہر طرح کی جدید سہولیات موجود ہیں۔

لیکن 17 ستمبر کو جب کرائم برانچ کی ٹیم اس معاملے کی جانچ کے لیے تھانے پہنچی تو انھیں معلوم ہوا کہ وہاں سی سی ٹی وی نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ تھانے میں شروع سے سی سی ٹی وی نصب نہیں تھے یا پھر ملزم پولیس اہلکاروں کی حفاظت کے لیے واردات کے بعد جان بوجھ کر سی سی ٹی وی غائب کر دیے گئے۔

’یہ آپ کی آبائی ریاست اڑیسہ میں ہوا ہے‘

سوشل میڈیا پر یہ اس واقعے کا موازنہ کولکتہ میں گذشتہ ماہ ایک ڈاکٹر کے ریپ سے بھی کیا جا رہا ہے۔

کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے ایکس پر لکھا:

’ملک بھر میں بی جے پی حکومتیں پولیس کو محافظوں سے شکاریوں میں تبدیل کرنے کی پالیسی پر کام کر رہی ہیں۔ بی جے پی کی حکومتوں میں خواتین کے خلاف جرائم کے بارے میں پولیس کا مجرمانہ رویہ دراصل اقتدار میں رہنے والوں سے تحفظ حاصل کرکے پروان چڑھا ہے۔‘

پریہ برت بسوال نامی ایک صارف نے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور آرمی چیف کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا،

’میڈم صدر آپ ہماری انڈین مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف ہیں اور آپ کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور فوجی سربراہ اس گھناؤنے جرم پر خاموش؟ یہ آپ کی آبائی ریاست اڑیسہ میں ہوا ہے۔‘

کوہو گھوش نامی ایک صارف لکھتی ہیں،

’انڈین فوج کا ایک کیپٹن اپنی منگیتر کے ساتھ بھرت پور پولیس سٹیشن دس 12 لوگوں کے خلاف شکایت درج کرانے پہنچتا ہے جو تین کاروں میں سوار تھے اور انھوں نے انھیں مارا پیٹا اور انھیں دھمکی دی۔ اس پر پولیس نے مبینہ طور پر ان کی منگیتر کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔‘

انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’ہم کس دور میں رہ رہے ہیں؟‘

بہت سے صارفین کی طرح پروین مینا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’کولکتہ ریپ پر آواز اٹھانے والو! اب اڑیسہ کی بیٹی کے ساتھ ہوئے سلوک پر خاموش کیوں ہو؟ چاہے کولکتہ ہو، اڑیسہ ہو، اترپردیش ہو مدھیہ پردیش ہو کوئی بھی ریاست ہو سب کی بیٹی ایک جیسی ہے۔ سب کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔‘

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق فوجی افسر کی منگیتر کے والد خود فوجی ہیں اور انھوں نے پریس کانفرنس کرکے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

اے این آئی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’اس وقت پولیس سٹیشن میں موجود اہلکاروں نے غیرقانونی کام کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک فوجی افسر کو گرفتار نہیں کرسکتے لیکن پھر بھی انھیں لاک اپ میں ڈالا۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ جانتے تھے کہ جب کوئی پولیس سٹیشن میں مدد کے لیے آتا ہے تو انھیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔ ’مدد کے بجائے انھوں نے مارا پیٹا اور حوالات میں بند کر دیا، ان کے خلاف مقدمہ بکر جیل میں بند کیا۔ اس سے برا اور کیا ہو سکتا ہے؟‘

’جہاں فوجی بھی محفوظ نہیں‘: انڈیا کے شہر اندور میں فوجی اہلکاروں پر تشدد، خاتون دوست کا مبینہ ریپ’سات مردوں نے میرا ریپ کیا‘: انڈیا میں غیرملکی سیاح خاتون کے مبینہ اجتماعی ریپ کے مقدمے میں چار افراد گرفتارڈاکٹر کا ریپ اور قتل: کولکتہ میں ’درد سر‘ بن جانے والا ڈاکٹروں کا احتجاج جو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ختم نہیں ہو رہاساس کے قتل کی واردات جس کے لیے بہو نے دو لاکھ کی ’سپاری‘ دیانڈیا کے مقدس شہر میں ’سڑک کنارے ریپ کو روکنے کی بجائے ویڈیو بنائی گئی‘سکالرشپ کا جھانسہ دے کر نوجوان لڑکیوں کا ریپ: ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے خاتون کی آواز میں کال کی گئی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More