Getty Images
پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت متعدد حکمرانوں کو سرکاری دفتر میں رہتے ہوئے اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے لیے تحائف قبول کرنے کی وجہ سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عمران خان پر تو سرکاری توشہ خانہ سے تحائف لے جانے پر ایک کے بعد دوسرا ریفرنس بھی قائم کر دیا گیا ہے۔
یہاں یہ بتانا مقصد ہے کہ چاہے امریکہ کے صدر کی بیگم یعنی خاتون اول ہوں یا 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں رہنے والے برطانوی وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کا طرز عمل، دنیا بھر میں سرکاری حیثیت میں رہتے ہوئے تحائف وصول کرنے پر بحث رہتی ہے۔
ہم نے عالمی رہنماؤں اور ان کی شریک حیات کے بارے میں سرکاری تحائف اور عطیات سے متعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے حال ہی میں کہا کہ وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر اور ان کی اہلیہ وکٹوریہ نے لباس کے عطیات کو قبول کیا تاکہ وہ برطانیہ کی نمائندگی کرنے کے لیے ’اپنے بہترین (انداز میں) نظر آئیں۔‘
عطیات کے بارے میں پوچھے جانے پر خارجہ سیکریٹری نے کہا کہ دیگر ممالک کے پاس اپنے لیڈروں کے لباس کے لیے ٹیکس دہندگان کی مالی اعانت سے بھرپور بجٹ موجود ہوتے ہیں۔
ڈیوڈ لیمی ان رپورٹس کا جواب دے رہے تھے کہ سر کیئر نے لیبر پارٹی کے ڈونر لارڈ وحید علی کی طرف سے اپنی اہلیہ کے لیے خریدے گئے کپڑوں کے متعلق اعلان کرنے میں ناکامی کی وجہ سے بظاہر پارلیمانی قوانین کو توڑا ہے۔
انھوں نے اتوار کو لورا کوئنسبرگ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’امریکی صدور اور خاتون اول کے پاس اس کام کے لیے بہت بڑا بجٹ ہوتا ہے اور یہ ٹیکس دہندگان کی جانب سے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ امریکی عوام کی جانب سے بہترین لباس میں نظر آئیں۔‘
درحقیقت امریکی خاتون اول کی لباس کے مخصوص بجٹ تک رسائی نہیں ہے اور بہت سے لوگوں نے وائٹ ہاؤس میں فیشن ایبل رہنے کی قیمت پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
Getty Imagesصدر کے لیے الاؤنس ہے لیکن خاتون اول کے لیے نہیں
کچھ ممالک میں ٹیکس دہندگان اپنے رہنماؤں کے رہنے کے اخراجات میں حصہ ڈالتے ہیں اور اس میں ان کے ملبوسات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدور کے اخراجات کا بجٹ تقریباً 50 ہزار امریکی ڈالر ہے جس کا وہ کپڑے اور دیگر اشیا کی خریداری کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تنخواہ سالانہ چار لاکھ امریکی ڈالر ہے۔
لیکن امریکی صدر کی شریک حیات جنھیں تاریخی طور پر خاتون اول کہا جاتا ہے ان کے لیے سالانہ تنخواہ یا مقررہ اخراجات کا بجٹ نہیں ہوتا ہے اگرچہ ان کے پاس عملہ اور دفتر ہوتا ہے۔
ایسے میں امریکی خاتون اول کے فیشن پر لوگوں کی نظریں رہتی ہیں اور انھیں یہ جاننے کی خواہش ہوتی ہے کہ آخر ان کے مہنگے لباس کے لیے پیسے کہاں سے آتے ہیں۔
قابل ذکر مثالوں میں ملانیا ٹرمپ کی زارا جیکٹ تھی جس پر ’آئی ریئلی ڈونٹ کیئر، ڈو یو‘ یعنی ’مجھے ذرا بھی پرواہ نہیں ہے، کیا آپ کو ہے‘ لکھا ہوا تھا اور اسے انھوں نے اس وقت زیب تن کیا تھا جب وہ تارکین وطن کے حراستی مرکز کے دورے پر تھیں۔
اسی طرح سابق چینی صدر ہوجن تاؤ سے ملاقات کے دوران مشیل اوباما نے جو سرخ رنگ کا الیگزینڈر میک کیوین کا لباس زیب تن کر رکھا تھا اس نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تھی۔
Getty Images
کچھ خاتون اول نے کہا ہے کہ عام طور پر ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کپڑوں کی ادائیگی خود کریں گی۔
جارج ڈبلیو بش کی اہلیہ لارا بش نے سنہ 2010 میں شائع ہونے والی اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ ’وہ ڈیزائنر لباس کی بڑی تعداد سے حیران رہ گئیں کیونکہ ان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ خاتون اول کے طور پر فیشن ایبل نظر آنے کے لیے انھیں خریدیں۔‘
انھوں نے لکھا: ’وائٹ ہاؤس میں ہمارے پہلے سال کے بعد، ہمارے اکاؤنٹنٹ نے جارج سے کہا کہ ’صدر بننے میں بہت زیادہ خرچ آتا ہے‘ اور وہ بنیادی طور پر میرے کپڑوں کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔‘
مشال اوباما کی پریس سیکریٹری جوانا روشلم نے سنہ 2014 میں سی این بی سی کو بتایا: ’مسز اوباما اپنے لباس کی خود ادائیگی کرتی ہیں۔‘
امریکی اشرافیہ اور خاندانی رئیسوں کا لباس بن جانے والا ’مدراس چیک‘ ایک سٹائل کیسے بناتوشہ خانہ کیا ہے اور کون سے سابق حکمران تحائف کے معاملے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں؟
لیکن امریکی خاتون اول بھی حکومت کی جانب سے تحفے کے طور پر کپڑے قبول کر سکتی ہیں۔
کچھ ڈیزائنرز اس تشہیر کا خیرمقدم کرتے ہیں جو انھیں خواتین اول کی جانب سے ان کے لباس زیب تن کرنے کے لیے انھیں ملتی ہے۔
ڈیزائنر ملبوسات کی قیمتوں کے ٹیگ آسانی سے دسیوں ہزار تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں وائٹ ہاؤس کے نسبتاً کم امیر افراد کے لیے سٹار ڈیزائنرز کی جانب سے پہننے کے لیے دیے گئے عطیات ہی واحد راستہ ہے۔
مسز روشلم نے کہا: ’عوامی یا تاریخی اہمیت کی سرکاری تقریبات یا سرکاری دورے کے لیے خاتون اول کے کپڑے کسی ڈیزائنر کے ذریعے تحفے کے طور پر دیے جا سکتے ہیں اور امریکی حکومت کی جانب سے قبول کیے جا سکتے ہیں۔‘
Getty Images
سمیتھسونین میوزیم میں اس وقت موجودہ خاتون اول جل بائیڈن کے اس لباس کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو انھوں نے 2021 کی ایک افتتاحی تقریب میں پہنا تھا۔ اس تقریب میں ان کے شوہر جو بائیڈن بھی تھے۔ ڈیزائنر الیگزینڈریا اونیل نے جل بائیڈن کے اعزاز میں اس تقریب کا اہتمام کیا تھا جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ لباس انھیں ڈیزائنر کی طرف سے ملا تھا۔
اس کے برعکس ان کی پیشرو میلانیا ٹرمپ کو افتتاحی تقریب کا لباس ان کے شوہر جو امریکی تاریخ میں امیر ترین صدر ہیں کی طرف سے تحفے میں ملا تھا۔جسے خود ہیوے پیئر نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انھوں نے اس کے لیے پیسے دیے تھے۔
برطانیہ میں سابق وزیر اعظم گورڈن براؤن کی اہلیہ سارہ براؤن نے ڈاوننگ سٹریٹ میں رہتے ہوئے لباس سمیت دیگر تحائف قبول کرنے میں درپیش مشکلات کے بارے میں بتایا ہے۔
انھوں نے سنہ 2011 میں لکھی گئی اپنی کتاب ’بیہائنڈ دی بلیک ڈور‘ میں ذکر کیا ہے کہ ’یہاں ڈیزائنرز اور ریٹیلرز (تاجروں) کی کوئی کمی نہیں ہے جو آپ کو مفت کپڑوں کی پیش کرتے ہیں۔
تاہم بہت سارے اصول ہیں کہ ارکان پارلیمنٹ (اورشریک حیات) مفت تحائف کے معاملے میں ان کا کیا طرز عمل ہوگا۔
اپنی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے کسی چیز کو حاصل کرنے سے متعلق اخلاقی پہلو والی بات کو ایک طرف رکھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم کے وزرا اور میں نے ایک ایسا حل نکالا جو سب کے لیے قابل قبول ہے۔ جس لباس کو بھی میں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں تو میں اسے خرید سکتی ہوں۔ ایسے کپڑوں یا زیورات کے ریٹیل کی قیمت کے تقریباً دس فیصد ادائیگی کر کے میں ان تحائف کو ’کرائے‘ پر لے سکتی ہوں اور پھر انھیں لوٹا دوں گی۔‘
Getty Imagesدوسرے ممالک میں کیا ہوتا ہے؟
دنیا کے دیگر رہنماؤں کے شریک حیات عام طور پر اپنے طرز انتخاب کے لیے عطیات پر انحصار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
فرانس کی بریگزٹ میکرون کے پاس کپڑوں کے لیے سرکاری بجٹ نہیں ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں پیرس کے اعلیٰ فیشن ہاؤسز جیسے لوئس ووٹن پھر کپڑے تحفے میں دیتے ہیں۔
سنہ 2019 میں لکھی گئی اپنی کتاب Madame La Presidente میں لکھا کہ ’ان کا دفتر اس بات کا ریکارڈ رکھتا ہے کہ انھیں کون سے کپڑے عطیہ کیے گئے ہیں اور کون سے ان کے اپنے ہیں۔‘
لیکن ان کے شوہر صدر ایمانویل میکرون کو ان کے اپنے ’فضول خرچی‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سال ایک اخبار نے انکشاف کیا کہ ان کے دفتر نے پیرس سے برازیل جانے والی پرواز میں صرف اپنے دو سوٹ لے جانے کے لیے تقریباً 4,000 یورو کی لاگت سے بزنس کلاس کی سیٹ بک کروائی تھی۔
جرمنی میں وزرا کو سنہ 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں ہیئر ڈریسرز، میک اپ آرٹسٹوں اور فوٹوگرافروں پر 450,000 یورو خرچ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ لباس کے لیے کوئی مخصوص فنڈ نہیں ہے۔
ڈیوڈ لیمی کے ریمارکس کے بارے میں پوچھے جانے پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
10 ڈاؤننگ سٹریٹ نے سر کیئر کے کپڑے عطیہ کرنے کے اعلان کے بارے میں کہا کہ ’ہم نے دفتر آنے کے بارے میں حکام سے مشورہ مانگا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہمیں یقین تھا کہ ہم تعمیل کر رہے ہیں تاہم اس ماہ مزید پوچھ گچھ کے بعد ہم نے مزید تفصیلات بتائی ہیں۔‘
امریکی اشرافیہ اور خاندانی رئیسوں کا لباس بن جانے والا ’مدراس چیک‘ ایک سٹائل کیسے بناملکہ الزبتھ اول: ’جب تین لاکھ پاؤنڈ کی مقروض مملکت کو مسلمان حکمرانوں نے تباہ کن انجام سے بچایا‘توشہ خانہ کیا ہے اور کون سے سابق حکمران تحائف کے معاملے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں؟خلیفہ ہارون الرشید کے یورپی حکمران شارلیمین کو دیے وہ تحائف جن کا صدیوں تک چرچا رہا'لیڈی ڈیانا سے کہیں اپنی ساس کو ہمارے پاس بھیج دیں'کیا شاہی جوڑے کی پذیرائی ’غلامانہ ذہنیت‘ ہے؟