Getty Images
بالآخر راولپنڈی کی پچ نے اپنا وہ جادو واپس پا لیا جو پچھلی رُتوں میں پی سی بی کے بے مغز فیصلوں سے کہیں کھو گیا تھا۔ سنیچر کی صبح جب اس پچ کے چہرے سے نقاب اترا تو اس میں نمی بھی تھی، ہریالی بھی تھی، پیس بھی تھی اور باؤنس بھی۔
آسٹریلوی کیوریٹر ٹونی ہیمنگز راولپنڈی کے اس موسم کے بھی ممنون ہوں گے کہ جس کے طفیل ان کی سوچ کے مطابق پچ ممکن ہو پائی۔ یہاں وہ اس اضافی شکرئیے کے بھی مستحق ہیں کہ ان کی بنائی، اس باؤنسی پچ نے سپنرز کو بھی اتنا ٹرن فراہم کیا کہ مہدی حسن معراجدن اپنے نام کر گئے۔
عموماً ایسی باؤنسی پچز پہ اگر پہلے روز کوئی بولر پانچ وکٹیں حاصل کرے تو وہ سیمر ہوا کرتا ہے۔ مگر جہاں کہیں بنگلہ دیشی سیمرز اپنی کاوش میں دھیمے پڑے، وہیں مہدی حسن نے ان کے حصے کا بوجھ بھی اپنے کندھے اٹھا لیا۔
بنگلہ دیش کے لیے ٹیم سلیکشن میں جو ممکنہ سر درد ہو سکتا تھا، وہ شورف الاسلام کی انجری نے ختم کر دیا اور تسکین احمد کی واپسی کے باوجود نوجوان پیسر ناہید رانا اپنی جگہ برقرار رکھ پائے۔ ناہید کی خاصیت ہے کہ وہ بڑے بلے بازوں کی وکٹیں حاصل کرتے ہیں اور پچھلے میچ ہی کی طرح یہاں بھی انہوں نے ویسا ہی کیا۔
پاکستان کے لیے ٹاس ہارنے کے بعد مشکل کنڈیشنز میں بیٹنگ کی دعوت ملنا ہی کچھ خوش کُن نہیں تھا کہ عبداللہ شفیق بھی تسکین احمد کی ایک شاندار گیند پہ ڈھیر ہو گئے۔ لیکن پاکستان کے لیے خوش آئند یہ رہا کہ کپتان شان مسعود کی بیٹنگ فارم کچھ بحال ہوئی۔
ایمان خلیف میڈل راؤنڈ میں: ’میرے ساتھ ناانصافی ہوئی، مگر اللہ میرے ساتھ ہے‘شاہین بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے باہر: ’یہ پاکستان کے باقی کھلاڑیوں کے لیے پیغام ہے‘قتل کے مقدمے میں نامزدگی پر شکیب خاموش مگر بنگلہ دیشی کھلاڑی حمایت میں پیش پیش: ’وہ ایسے غیر انسانی فعل میں ملوث نہیں ہو سکتے‘آخری اوور میں صرف پانچ رنز کی ضرورت لیکن مخالف ٹیم نے چھ گیندوں پر چھ وکٹیں لے کر میچ جیت لیا
پاکستان کے کرکٹ کلچر میں کامیاب کپتانوں کی زندگی بھی آسان نہیں ہوتی جبکہ شان مسعود کی تو ناکامیوں کا سلسلہ ہی تھم کے نہیں دے رہا تھا۔ یہ رنز ٹیم کے علاوہ شان مسعود کے مستقبل کے لیے بھی نہایت ضروری تھے۔ ان کی شاٹ سلیکشن قابلِ تحسین تھی کہ نئی گیند اور سازگار پچ کے باوجود لنچ تک بنگلہ دیشی اٹیک کو دباؤ میں لائے رکھا۔
مگر لنچ کے بعد چیزیں پلٹنے لگیں کہ جس نوعیت کا باؤنس اور ٹرن یہاں مہدی حسن معراج کی آف سپن کو مل رہا تھا، پاکستانی مڈل آرڈر کا یہ انہدام یقینی تھا۔ انھوں نے آف سٹمپ چینل کے باہر وہ اٹیکنگ لائن تھامے رکھی جہاں سے نہ تو کھیلنا آسان ہوتا ہے اور نہ ہی چھوڑنا۔
جو تسلسل اور صبر بنگلہ دیشی اٹیک نے لنچ کے بعد اپنایا، اس نے چار سے زیادہ رن ریٹ پہ آگے بڑھتی پاکستانی اننگز کو لگام ڈال دی۔ پاکستانی مڈل آرڈر کے پاس اس صبر کا جواب نہ تھا اور پھر پچ کا ٹرن اور باؤنس بھی ہرگز مددگار نہ تھا۔
بنگلہ دیش نے اپنی لائن لینتھ کے انتخاب اور ضبط میں وہ ڈسپلن دکھایا جو کلاسک ٹیسٹ کرکٹ کا خاصہ ہے۔ جبکہ پاکستانی مڈل آرڈر نے رنز کا حبس توڑنے کو وہ اپروچ اپنانے کی کوشش کی جو ون ڈے کرکٹ میں تو کامیاب ہو جاتی ہے مگر ٹیسٹ کرکٹ میں اس کا زور نہیں چلتا۔
لیکن اگر کچھ پاکستانی بلے بازوں کی شاٹ سلیکشن قابلِ بحث تھی بھی تو بھی یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ بنگلہ دیشی بولنگ کا بہترین ڈسپلن اور پچ کا اضافی باؤنس تھا جو بیشتر بلے بازوں کے لیے حرزِ جاں ثابت ہوا۔
یہ پاکستان کی خوش قسمتی رہی کہ بچے کھچے بلے بازوں کے ساتھ سلمان آغا اچھی اننگز کھیل گئے اور ٹیم کو ایسے مجموعے تک پہنچا گئے جہاں بولرز کے لئے لڑنے کو بھی کچھ جمع پونجی رہے گی۔ اور اگر تیسرے روز بھی راولپنڈی میں دھوپ مدھم رہی تو یہاں بنگلہ دیشی بیٹنگ کا بھرپور امتحان ہو سکتا ہے۔
ٹیم سلیکشن میں شاہین آفریدی کو ڈراپ کر کے اور نسیم شاہ کو آرام دے کر، پاکستان نے ایک جرات آموز فیصلہ کیا ہے۔ اگر پچ یونہی زندگی سے بھرپور رہی تو یہ میچ پاکستانی فاسٹ بولنگ کے لئے بھی ایک نئی اپروچ کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
مگر یہ ممکن ہو پانے میں لازم ہے کہ پاکستانی سیمرز بھی لائن لینتھ کے ڈسپلن میں وہی صبر اور تسلسل دکھائیں جو بنگلہ دیشی بولرز نے نبھایا۔ سیریز کے پہلے میچ میں پاکستانی بولنگ نے بہت کچھ ایسا کیا جو نہیں کرنا چاہئے تھا۔
یہاں یہ مشاہدہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ دونوں سینئر بولرز سے محروم پاکستانی پیس اٹیک اپنے ڈسپلن میں کیا بدلاؤ لا سکتا ہے۔
ہلال امتیاز، سونے کا تاج اور کروڑوں روپے: پاکستان کے لیے اولمپکس میں 40 برس بعد گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم پر انعامات کی بارش قتل کے مقدمے میں نامزدگی پر شکیب خاموش مگر بنگلہ دیشی کھلاڑی حمایت میں پیش پیش: ’وہ ایسے غیر انسانی فعل میں ملوث نہیں ہو سکتے‘ایمان خلیف میڈل راؤنڈ میں: ’میرے ساتھ ناانصافی ہوئی، مگر اللہ میرے ساتھ ہے‘ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو دھمکیاں: ’کیا ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں، کرکٹ کب دھمکیوں اور گالیوں تک جا پہنچا‘