BBC
ہندوؤں کا ماننا ہے کہ بھگوان کرشنا کی موت کے بعد دوارکا شہر ڈوب گیا تھا۔ اس کے بعد اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہر پانچ مرتبہ تعمیر ہوا ہے اور یہ عقیدہ ایک طویل عرصے سے قائم ہے۔
تاہم اس بات کے سائنسی شواہد نہیں اور نہ ہی آثار قدیمہ اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس بارے میں بھی کافی بحث ہوتی رہی ہے کہ کیا موجودہ دوارکا شہر ہی قدیم دوارکا ہے یا اصل دوارکا کہیں اور ہے۔
اس حوالے سے متضاد آرا اور روایات پائی جاتی ہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ موجودہ دوارکا شہر کے اردگرد مندروں کے کھنڈرات نے اس بحث کو ہوا دی ہے۔
تقسیم کے بعد شہر میں ہونے والی کھدائیوں سے ایسے کچھ عناصر سامنے آئے جنھوں نے قدیم دوارکا سے جڑے عقائدکو تقویت دی۔
ماہرین آثار قدیمہ کو زمین سے سمندر تک مزید کھدائی اور تحقیق کرنے کا ایک نیا موقع ملا۔
1947 میں تقسیم ہند کے ساتھ ساتھ تاریخی اور آثار قدیمہ کی اہمیت کے حامل مقامات کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔ ہڑپہ تہذیب کے تاریخی مقام سمیت کئی اہم مقامات پاکستان میں منتقل ہو چکے ہیں۔
انڈیا کے ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ اس وقت انھی قدیم مقامات پر مرکوز ہے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے تاریخی عمارتوں، قدیم کھنڈرات، مقامی روایات اور پرانے نقشوں پر مبنی نئے ریسرچ پروجیکٹ شروع کیے ہیں۔
گجرات اور مہاراشٹر کی علیحدگی کے تین سال بعد پونے میں دکن کالج کے ڈاکٹر ہس مکھ سنکالیا نے دوارکا میں ایک اہم پروجیکٹ شروع کیا ہے۔
گجرات کا محکمہ آثار قدیمہ بھی اس کوشش کا حصہ ہے۔
BBCکھدائی میں کیا چیلنجز ہیں؟
اس تلاش کے بارے میں دکن کالج نے ایک کتاب ’ایویکیویشکن آف دوارکا‘ شائع کی ہے جس کا پہلا باب ڈاکٹر سنکالیا نے لکھا ہے۔
دوارکا میں آثار قدیمہ کی کھدائی شروع ہونے سے پہلے ڈاکٹر جینتی لال ٹھاکر نامی ایک مقامی شخص نے ذاتی طور پر دوارکا اور اس کے آس پاس کی زمین پر تحقیق کی۔
ڈاکٹر ٹھاکر کے مطابق ’دوارکا دیش مندر کے اردگرد 35-40 فٹ تک محتاط انداز میں کھدائی کرنے سے اہم باقیات سامنے آنے کا امکان ہے۔‘
ڈاکٹر سنکالیا اس تحقیق کو منطقی اور معقول سمجھتے ہیں۔ کتاب میں ڈاکٹر سنکالیا نے کھدائی کے عمل کے دوران درپیش چیلنجوں کا ذکر کیا ہے۔
وہ انگریز جس نے برطانیہ میں کرشنا مندر بنانے کے لیے اپنا بنگلہ اور زمین عطیہ کیے زیرِ آب گمشدہ شہر کی تلاش جو ’کرشن کی موت کے بعد پانی میں ڈوب گیا‘ختنے کی رسم یہودیوں میں کیوں باقی رہی اور مسیحیوں نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟یوسف اوک: سٹیڈیم سے ملنے والے قرآن کے گرد آلود نسخے سے قبولِ اسلام تک کا سفر
مندر کے شمال مغرب میں ایک گھر میں کھدائی کی گئی۔ یہ گھر مندر کی طرح اردگرد کے علاقے کے مقابلے میں قدرے بلندی پر واقع ہے۔ کھدائی کی جگہ اور مندر کے درمیان صرف ایک چھوٹی سی گلی ہے۔
اس سے کھدائی کے دوران شواہد ملنے کے امکانات بڑھ گئے۔
تاہم کچھ چیلنجز ہیں۔ مثلاً گھر کے سامنے تنگ گلی کی وجہ سے وہاں کام کرنے سے پہلے گہری کھائی کھودنا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ آس پاس کے بہت سے گھروں میں سیمنٹ اور چونے کا پلاسٹر نہیں ہوا۔
اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ قریبی مکانات کو نقصان نہ پہنچے اور علاقہ مکینوں کی نقل و حرکت کے دوران مٹی نہ گرے۔ لہذا کھدائی کے دوران ریتیلی مٹی کی وجہ سے کھائی کے اردگرد دیواریں گرنے لگیں۔
بعد میں فرش کو گرنے سے بچانے کے لیے لکڑیوں کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔
محققین بالآخر تقریباً 38 فٹ کی گہرائی تک پہنچ گئے جہاں انھیں پتھریلی زمین ملی۔ یہ اس وقت سمندر کی سطح ہے۔
BBCکھدائی میں کیا ملا؟
یہ عقیدہ کہ ’جہاں کوئی مذہبی مقام تباہ ہوا ہو، اسے اسی جگہ پر دوبارہ تعمیر کیا جانا چاہیے‘ نے بھی مندر کے اردگرد اونچی زمین کی کھدائی کرنے میں محققین کی حوصلہ افزائی کی۔
آئیے اس کو ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھتے ہیں۔ ایک کتاب سات سیریز میں شائع ہوئی ہے۔ ایک سے سات تک کتابیں میز پر ایک دوسرے کے اوپر رکھی ہیں۔ تاریخ کے لحاظ سے سب سے اوپر نئی کتاب ہے اور نیچے سب سے پرانی کتاب۔
کھدائی کے دوران دریافت ہونے والی ساتویں تہہ (نچلی کتاب) ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ غالباً پہلی یا دوسری صدی قبل مسیح سے ہے۔ اس کی موٹائی تقریباً پانچ میٹر ہے اور یہاں سے پینٹ شدہ برتنوں کے ٹکڑے، شیشہ، لوہے کا ٹکڑا بھی ملا ہے۔
اگلی قطار چوتھی صدی عیسوی کی ہے اور تقریباً ڈھائی میٹر موٹی ہے۔ اس میں دیگر برتنوں کے ساتھ ساتھ سرخ برتن اور جار بھی ملے ہیں۔ ایسے برتن عام طور پر مغربی انڈیا کے بندرگاہی علاقوں میں شراب اور تیل کی تجارت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
یہ نتائج بتاتے ہیں کہ اس وقت اس علاقے میں کون سی نسل کے لوگ رہتے تھے۔ آنے والے دنوں میں یہاں سے پتھر کے نقش و نگار کی باقیات دریافت ہوئیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ان سب کا تعلق وہاں کے ایک قدیم مندر سے ہے۔
پہلی تین قطاروں میں گجرات سلطنت کے دور کے سکے، پولی کروم شیشے اور چمکدار برتن ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اشیا کا تعلق حالیہ دور سے ہے۔
کانچ کی چوڑیاں، چمکدار مٹی کے برتن عموماً اسلامی دور سے وابستہ ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ 10ویں صدی کے آس پاس، اوکھا منڈل کے علاقے کے لوگ بحیرہ روم کے علاقے سے آنے والوں کے ساتھ سمندر کے راستے تجارت کیا کرتے تھے۔
کھدائی سے بہت کم نمونے ملے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انھیں سمندر کے پانی کی نمی سے نقصان پہنچا ہو۔ آثار قدیمہ کے لحاظ سے ان کے صحیح دور کا تعین کرنا بھی مشکل ہے۔
پانچ مندر
1980 کی دہائی میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) سے منسلک ایس آر راؤ نے دوارکا کے مندر کے علاقے میں تحقیق کی۔
راؤ نے اپنی کتاب ’میرین آرکیالوجی‘ (صفحہ 50-54) میں بتایا ہے کہ دوارکا کتنی بار تباہ ہوا اور اس سے کیا شواہد ملے تھے۔
ان کے مطابق پہلی مرتبہ دوارکا 14ویں-15ویں صدی قبل مسیح میں سمندر میں ڈوبا۔ محققین کو اس دور کے ثبوت کے طور پر سرخ مٹی کے برتن ملے ہیں۔
دوسری مرتبہ یہ 10ویں صدی قبل مسیح میں سمندر میں ڈوبا تھا۔
پھر ایک طویل وقفے کے بعد کشترپا دور (پہلی صدی قبل مسیح) میں تیسری بار یہاں بستیاں تعمیر کی گئیں۔ یہاں سے سرخ مٹی کے برتن اور اس دور کے سکے بھی ملے تھے۔ اسی دور میں یہاں پہلا مندر وجود میں آیا۔
مندر کے پتھر میں چونا ہے اور اس پر کچھ اعداد و شمار لکھے نظر آتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ دوسرا مندر پہلے مندر کی باقیات پر بنایا گیا ہو گا۔ تاہم یہ بھی سمندر میں ڈوب گیا۔
راؤ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ شاید یہ مندر تیسری اور ساتویں صدی عیسوی کے درمیان بنا ہو گا۔
تیسرا مندر نویں صدی عیسوی میں بنایا گیا تھا۔ تاہم اس کی چھت 12ویں صدی میں طوفانوں سے تباہ ہو گئی تھی مگر بنیادیں اور دیواریں کھڑی ہیں۔ اس کے بعد چوتھا مندر فوراً بنایا گیا۔ اور موجودہ مندر اس سلسلے کا پانچواں مندر ہے۔
یہ پانچ مندر دوارکا کے تین سے سات ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں اور آج کا موجودہ اور جدید قصبہ دوارکا کی آٹھویں بستی ہے۔
یاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟’معجزوں‘ سے مریضوں کو صحتیاب کرنے والا پادری جو دنیا بھر سے آئی خواتین کا ہفتے میں کئی بار ریپ کرتاحج کے دوران ’شدید گرمی سے سینکڑوں حاجیوں کی ہلاکت‘ اور بدانتظامی کی شکایات: ’سات کلومیٹر طویل راستے پر پانی تھا نہ کوئی سایہ‘مسجدِ نبوی: مٹی کے کمرے سے دنیا کی دوسری بڑی مسجد تک