وہ متنازع فیچرز جو ٹیلی گرام کی مقبولیت کی وجہ بنے

بی بی سی اردو  |  Aug 26, 2024

Getty Images

دنیا بھر میں استعمال کی جانے والی مقبول ایپ ٹیلی گرام کی بنیاد 2013 میں ایک روسی کاروباری شخصیت پاول دروف نے رکھی تھی۔ یہ مسیجنگ ایپ روس، یوکرین اور انڈیا سمیت کئی ملکوں میں مواصلات کا ایک طاقتور ٹول ہے کیونکہ اس کے ذریعے معلومات تک رسائی اور تبادلہ خیال لوگوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتا ہے۔

شاید اسی لیے سنیچر کی یہ پیشرفت سبھی کے لیے قابل غور تھی کہ فرانس میں پاول دروف کو گرفتار کر لیا گیا۔ مگر ٹیلی گرام کا کہنا ہے کہ پاول دروف کے پاس ’کچھ چھپانے کو نہیں ہے۔‘

فرانسیسی حکام کے مطابق ان کے خلاف اسی ایپ سے جڑے کچھ الزامات کی بنیاد پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے تھے۔

فرانس میں عدالتی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ دروف کی حراست میں اتوار کو توسیع ہوئی ہے۔ فرانسیسی قوانین کے مطابق ابتدائی طور پر کسی ملزم کو 24 گھنٹوں تک حراست میں رکھنے کے بعد الزامات کی سنگینی کی بنیاد پر تحویل میں 96 گھنٹوں کی توسیع ہو سکتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق صارفین کی نامناسب نگرانی کی وجہ سے ان کے خلاف ایک تحقیقات چل رہی ہے۔ دروف پر الزام ہے کہ وہ ٹیلی گرام پر سرگرم جرائم پیشہ افراد کو روکنے میں ناکام رہے۔

اس ایپ پر یہ بھی الزام لگتا رہتا ہے کہ یہ شدت پسندی، منشیات کی سمگلنگ، بچوں سے متعلق جنسی مواد اور فراڈ جیسے سنگین جرائم پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔

تاہم ایک بیان میں ٹیلی گرام کا کہنا ہے کہ صارفین اور مواد کی نگرانی کے لیے اس کی ماڈریشن ’انڈسٹری کے معیار کے مطابق ہے اور اس میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔‘

’یہ ایک بے ہودہ دعویٰ ہے کہ ایک پلیٹ فارم اور اس کا ملک پلیٹ فارم کے غلط استعمال کے ذمہ دار ہیں۔‘

ٹیلی گرام نے یہ بھی کہا کہ دروف اکثر یورپ کا سفر کرتے ہیں اور وہ یورپی یونین کے قوانین کی پیروی کرتے ہیں جس میں ڈیجیٹل سروسز ایکٹ سامل ہے۔ اس قانون میں آن لائن ماحول کو محفوظ بنانے اور کسی بھی بے ضابطگی کی صورت میں احتساب پر زور دیا گیا ہے۔

ٹیلی گرام کے مطابق پوری دنیا میں اس کے قریب ایک ارب صارفین ہیں جو مواصلات اور معلومات تک رسائی کے لیے اس ایپ کا استعمال کرتے ہیں۔

مقبول میسجنگ ایپ ٹیلی گرام کے بانی پاول دروف کون ہیں؟

39 سالہ پاول دروف روس میں پیدا ہوئے تھے مگر اب وہ دبئی میں رہتے ہیں۔ ٹیلی گرام ایپ کو بھی دبئی سے چلایا جا رہا ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق دروف کے پاس 15.5 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔

دروف نے 2013 کے دوران ٹیلی گرام کی بنیاد رکھی تھی۔ انھوں نے 2014 میں روس چھوڑ دیا تھا جب حکومت نے ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’وی کے‘ پر حزب اختلاف کی سرگرمیوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی وہ کمپنی فروخت کر دی تھی۔

دروف کی جانب سے صارفین کا ڈیٹا دینے سے انکار پر روس میں 2018 کے دوران ٹیلی گرام پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مگر 2021 میں یہ پابندی ہٹا دی گئی تھی۔

فیس بک، یوٹیوب، واٹس ایپ، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور وی چیٹ کی طرح ٹیلی گرام کو بھی بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر روس، یوکرین اور سابقہ سوویت یونین ریاستوں میں ایک مقبول میسجنگ ایپ ہے۔

’آپ چاہتی ہیں ریپ کا پرچہ نہ ہو تو پیسوں کا بندوبست کریں‘: فراڈ جو پاکستانیوں کو جمع پونجی سے محروم کر رہا ہےپاکستانی فری لانسر، مالی لالچ اور جھوٹ: برطانیہ میں ’انتہاپسندوں کا ہتھیار‘ بننے والی ویب سائٹ کی کہانی

دروف کے پاس فرانس اور متحدہ عرب امارات دونوں کی شہریت ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ روس اب بھی انھیں ایک روسی شہری تصور کرتا ہے۔

روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ فرانس میں روسی سفارتخانے نے اس گرفتاری کے بعد فوری اقدامات کیے ہیں، اس کے باوجود کہ انھیں دروف کے نمائندوں کی طرف سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی۔ سفارتخانے کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس گرفتاری پر وضاحت طلب کی ہے اور دروف کو قونصلر رسائی اور تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام روس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ٹیلی گرام پر یہ سوال پوچھا ہے کہ کیا انسانی حقوق کی مغربی تنظیمیں دروف کی گرفتاری پر خاموش رہیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے دوران روس میں ٹیلی گرام کی بندش پر انھی تنظیموں نے تنقید کی تھی۔

Getty Imagesٹیلی گرام کے متنازع فیچرز

ٹیلی گرام دراصل آئی میسج یا واٹس ایپ سے ملتی جلتی ایک میسجنگ ایپ ہے۔ اس کے بانی اظہار رائے کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ یہاں صارفین اور مواد کی نگرانی میں نرمی کی بدولت لوگ باآسانی ایک دوسرے سے رابطہ رکھ سکتے ہیں، احتجاج کے لیے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور اپنی شناخت چھپا سکتے ہیں۔

تاہم اس کے بعض فیچرز ایسے ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے صارفین یا مواد کی نگرانی کو کافی مشکل بنا دیتے ہیں۔

آپ ٹیلی گرام پر اپنے موبائل نمبر کو خفیہ رکھ سکتے ہیں اور بغیر سِم کارڈ کے بھی سائن اپ کر سکتے ہیں۔ گروپس اور چینلز میں صارفین دوسروں کے موبائل نمبر نہیں دیکھ سکتے۔

ٹیلی گرام پر صارفین اپنی چیٹس میں آٹو ڈیلیٹ کا فیچر استعمال کر سکتے ہیں۔ صارفین یہاں موصول ہونے والے یا بھیجے گئے پیغامات کو دونوں طرف سے حذف کر سکتے ہیں۔ ٹیلی گرام کا دعویٰ ہے کہ واٹس ایپ کے مقابلے یہاں پیغامات زیادہ محفوظ ہیں اور ان کی بہتر اِنکرپشن ہے۔

ان میں سے ایک فیچر یہ ہے کہ صارفین ایسے چینلز اور گروپس کی میزبانی کر سکتے ہیں جن میں لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی فیچر اس کی مقبولیت کی وجہ بھی ہے۔

ٹیلی گرام میں آپ دو لاکھ صارفین پر مشتمل گروپ بنا سکتے ہیں۔ یہ فیچر ایک ایسے وقت میں متنازع ہوا ہے کہ جب دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (جیسے واٹس ایپ) جعلی خبروں اور غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے گروپ میں صارفین کی تعداد کو محدود کر رہے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹیلی گرام پر بلا نگرانی وسیع پیمانے پر معلومات کی ترسیل سے تیزی سے فیک نیوز پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔ یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ٹیلی گرام کی وجہ سے شدت پسندی، سازشی نظریات اور بچوں سے متعلق جنسی مواد پھیل رہا ہے۔

مثلاً برطانیہ میں ٹیلی گرام پر اس وقت تنقید کی گئی جب رواں ماہ کئی شہروں میں دائیں بازو کے گروہوں کے مظاہروں کے دوران پُرتشدد واقعات ہوئے۔ ٹیلی گرام ایپ پر دائیں بازو کے خیالات کے حامی گروہوں کے چینلز ہیں اور یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ منتظمین نے انھی چینلز کی مدد سے کئی شہروں میں مظاہرے کیے۔

ٹیلی گرام نے ایسے کچھ گروپس کو حذف کیا ہے۔ تاہم سائبر سکیورٹی کے ماہرین کے مطابق شدت پسندی اور جرائم سے متعلق مواد کے لیے اس کا نگرانی کا نظام دیگر سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپس کے مقابلے کافی کمزور ہے۔

ناقدین کے مطابق ایپ کی کمزور نگرانی کی وجہ سے ایسے افراد اور گروہ ٹیلی گرام پر باآسانی آپریٹ کر سکتے ہیں جن پر شاید ایکس یا فیس بک پر پابندی عائد ہوجائے۔

دریں اثنا ٹیلی گرام پر صارفین بڑی فائلز شیئر کر سکتے ہیں۔ چینلز میں صارفین سے روابط قائم کرنے کے لیے لنکس یا بوٹس استعمال کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ یوں سماجی سطح پر لوگوں کو جمع کرنے یا تعاون برقرار رکھنے کے لیے اسے ایک طاقتور ٹول کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

یہ کمپنی اپنی ایپ پر اشتہارات، خرید و فروخت، سبسکرپشن اور دیگر طریقوں سے منافع بھی کماتی ہے۔ دروف نے اخبار دی فنانشل ٹائمز کو بتایا تھا کہ ٹیلی گراپ منافع بخش کمپنی بننے کے قریب ہے اور ایسی صورت میں اسے سٹاک مارکیٹ پر لسٹ کیا جائے گا۔

پاکستانی فری لانسر، مالی لالچ اور جھوٹ: برطانیہ میں ’انتہاپسندوں کا ہتھیار‘ بننے والی ویب سائٹ کی کہانیڈیپ فیک پورنوگرافی: ’ میرا چہرہ پورن ویڈیو پر لگایا گیا تھا‘مستقبل کی وہ دس نوکریاں جو آپ کی تقدیر بدل سکتی ہیں’آپ چاہتی ہیں ریپ کا پرچہ نہ ہو تو پیسوں کا بندوبست کریں‘: فراڈ جو پاکستانیوں کو جمع پونجی سے محروم کر رہا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More