کیا صارفین کو آن لائن پرائیویسی کے لیے رقم کی ادائیگی پر مجبور کرنا صحیح ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 25, 2024

Getty Images

آج کال بہت سی ویب سائٹس پر جب آپ جاتے ہیں تو ویب سائٹ کے کھلنے سے پہلے ایک پیغام آتا ہے: اگر ویب سائٹ مفت میں براؤز (استعمال) کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا ڈیٹا ٹریک کرنے اور آپ کی پسندیدگی کے مطابق اشتہارات دکھانے کی اجازت دیں ورنہ کچھ رقم ادا کریں۔

یہ ماڈل جسے ’اجازت یا ادائیگی‘ (Consent or Pay) کے نام سے جانا جاتا ہے بہت تیزی سے مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم اس کے متعلق سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ آیا ایسا کرنا اخلاقی بلکہ قانونی بھی ہے کہ نہیں؟

انفارمیشن کمشنر آفس (آئی سی او) برطانیہ میں ڈیٹا ریگولیشن کا ادارہ ہے جس نے اس پریکٹس پر مشاورت شروع کر دی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ رواں سال کے آخر تک آئی سی او اپنے نتائج جاری کر دے گا۔

آئی سی او کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر، ڈیٹا پروٹیکشن قانون کے تحت ’اجازت یا ادائیگی‘ جیسے کاروباری ماڈلز پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

تاہم برطانوی ڈیٹا ریگیولیٹر کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کاروباری طریقہ کار کو استعمال کرنے والی ویب سائٹس کو یہ بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ آزادانہ طور پر رضامندی دیتے ہوئے صارف کو اس بارے میں مکمل معلومات ہوں اور وہ اس اجازت کو کسی بھی وقت بنا کسی نقصان کے واپس لے سکتا ہو۔

اس کاروباری ماڈل کو لے کر ریگیولیٹرز اور ویب سائٹس کے درمیان کئی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

آئی سی او جیسے ریگولیٹرز اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو لوگوں کو اس بات کا کنٹرول دیا جانا چاہیے کہ ان کے ذاتی ڈیٹا کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

دوسری جانب ویب سائٹس آن لائن تشہیر کے بدلتے ہوئے پس منظر اور انفلوئنسرز کے ہاتھوں آمدنی کھونے کے ڈر سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

فلیپا ڈون ڈیٹا کے تحفظ کے مسائل پر مشاورتی تنظیم ڈی پی این ایسوسی ایٹس سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق بنیادی طور پر یہ کاروبار کرنے اور رازداری کے حق کے درمیان ایک رسہ کشی ہے۔

’انٹرنیٹ پر اگر کچھ مفت میں مل رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ہی پراڈکٹ ہیں‘

انٹرنیٹ بزنس ماڈلز کو سمجھنے کا ایک آسان اور سادہ طریقہ ہے: ’اگر آپ کو کچھ مفت میں مل رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ خود پروڈکٹ ہیں۔‘

عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ویب سائٹس اپنا مواد مفت میں مہیا کرتی ہیں تو اس کے بدلے میں صارف انھیں اپنا ذاتی ڈیٹا جیسے کہ اپنا نام، وہ کہاں سے ہیں، جنس، ازدواجی حیثیت جیسی بنیادی معلومات فراہم کرتے ہیں۔

ویب سائٹس اس معلومات کو آگے فروخت کرتی ہیں تاکہ صارف کی پسندیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کو اشتہارات دکھائے جا سکیں جو اِن سائٹس کے لیے زیادہ منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔

آن لائن مواد تخلیق کر کے لوگ کیسے پیسہ کماتے ہیں اور کیا اس پیشے کو بطور کریئر چنا جا سکتا ہے؟وہ لوگ جو انٹرنیٹ کو صرف استعمال کرنے سے پیسے کماتے ہیں

لیکن سنہ 2018 سے اس ماڈل کو ایک خطرہ لاحق ہے: برطانیہ میں ویب سائٹس کو کوکیز اور اسی طرح کی دوسری ٹریکنگ ٹیکنالوجیز استعمال کرنے کے لیے صارفین سے واضح رضامندی طلب کرنا پڑتی ہے۔

اب آپ جب کسی ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو آپ کو ایک ’پاپ اپ‘ پیغام دکھائی دیتا ہے جو آپ کو آپشن دیتا ہے کہ آپ ساری کوکیز کو اجازت دے دیں یا غیر ضروری کوکیز کو مسترد کر دیں۔

ویب سائٹس کے لیے مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب صارفین ٹریکنگ کو مسترد کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں وہ کم معلومات اکٹھا کر پاتے ہیں اور اس کی وجہ سے انھیں اشتہار دینے والی کمپنیاں انھیں کم معاوضہ ادا کرتی ہیں کیونکہ انھیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ویب سائٹ پر دکھایا جانے والا اشتہار صارف کو پسندید آئے گا بھی کہ نہیں۔

یہاں ’اجازت یا ادائیگی‘ کا ماڈل کام آتا ہے۔ اس کے ذریعے ویب سائٹس اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہیں کہ اگر صارف ڈیٹا اکٹھا اور فروخت کرنے سے انکار کردے تو وہ اشتہاروں کی مد میں ہونے والے نقصان کو صارف سے ہی وصول کر لیں۔

ویب سائٹس کو ملنے والے اشتہارات میں کمی

اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے صنعتوں میں سے ایک آن لائن نیوز ویب سائٹس ہیں جن کا آمدن کا دارو مدار بڑی حد تک آن لائن اشتہارات اور پے والز سے آنے والی رقوم پر ہوتا ہے۔

لیکن آن لائن اشتہار لگانے والی کمپنیاں اب اپنا زیادہ تر بجٹ سوشل میڈیا سائٹس، انفلوئنسرز اور برانڈ ڈیلز پر لگا رہی ہیں جس کی وجہ سے ان نیوز ویب سائٹس کی امدنی میں خاطرخواہ کمی آئی ہے۔

اس کے پیشِ نظر میل آن لائن، دی سن، دی انڈیپینڈنٹ اور اور دی ٹائمز جیسی ویب سائٹس اب ’اجازت یا ادائیگی‘ والا کاروباری ماڈل لاگو کر رہی ہیں۔

فلیپا ڈون کہتی ہیں کہ بنیادی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ ویب سائٹس اپنے صارفین کو آپشن دے رہے ہیں کہ یا تو وہ ادائیگی کر کے اشتہارات سے پاک مضامین تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں یا پھر اپنا ڈیٹا جمع کرنے کی اجازت دیں ورنہ وہ ان کے مضامین کو نہیں پڑھ سکتے ہیں۔

اب آئی سی او اور دیگر اداروں کو جس سوال کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا یہ ایک منصفانہ انتخاب ہے؟

ایوا لو قانونی معاونت فراہم کرنے والی فرم سٹیفنسن ہاروڈ سے منسلک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی بھی شخص کی طرف سے دی جانے والی رضامندی کو آزادانہ کہنے کے لیے اس کو بہت اونچےمعیار ہر جانچا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ کہ کیا صارف کے پاس ’واقعی آزاد طور پر یہ انتخاب کرنے کا اختیار ہے کہ تنظیم ان کے ذاتی ڈیٹا کو کس طرح استعمال کرتی ہے۔‘

لو کے مطابق آیا یہ ماڈل لاگو کیا جاسکتا ہے کہ نہیں اس کا فیصلہ ہر کیس میں الگ ہو سکتا ہے۔

صارفین کو اپنی پرائیوسی کے لیے کتنی رقم ادا کرنی پڑتی ہے اسے مدنظر رکھے جانے کی ضرورت ہے۔

ایک اور عنصر جسے دیکھنے کی ضرورت ہے وہ ہے کمپنی کا سائز اور یہ کہ آیا صارفین کے پاس اس کا کوئی متبادل آپشن موجود ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر بات صرف کسی خبر کی ہے تو وہ آپ کہیں اور بھی پڑھ سکتے ہیں۔

لیکن جب بات فلم اور ٹی وی سٹریمنگ جیسی صنعتوں کی آتی ہے تو ان کے لیے اس کا جواز پیش کرنا کافی مشکل ہو سکتا ہے۔

’اگر میں صارف کے نقطہ نظر سے دیکھوں کہ اگر میں کوئی فلم یا ٹی وی شو دیکھنا چاہتی ہوں اور وہ صرف اسی اسٹریمنگ سروس یا پلیٹ فارم پر دستیاب ہے، تو اس کا متبادل شاید کہیں اور دستیاب نہ ہو۔‘

Getty Images

یورپی یونین میں سوشل میڈیا ویب سائٹس کے حوالے سے یہ سوال پہلے ہی زیرِ بحث آچکا ہے جہاں میٹا نے انسٹاگرام اور فیس بک پر ’اجازت یا ادائیگی‘ کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔

اس ماڈل کے تحت، فیس بک اور انسٹاگرام اب بھی اپنی ایپس کے ذریعے صارفین کے رویے کو ٹریک کرتے ہیں تاکہ انھیں ان کی پسند کا مواد دکھایا جا سکے۔

لیکن وہ اس ڈیٹا کو آپ کو اشتہارات دکھانے کے لیے استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔

جب یورپی یونین میں ریگولیشن کی بات آتی ہے تو عمومی طور پر میٹا جیسی بڑی کمپنیوں کو چھوٹی کمپنیوں کے مقابلے میں کہیں اعلیٰ معیار پر پرکھا جاتا ہے۔

رواں سال جولائی میں یورپی کمیشن نے میٹا کو مطلع کیا کہ ابتدائی نتائج کے مطابق ان کا ’اجازت یا ادائیگی‘ کا ماڈل یورپی یونین کے قانون کے منافی ہے۔

اب میٹا کے پاس یورپی یونین کے جمع کردہ شواہد کا جائزہ لینے اور اپنے دفاع کا حق ہے۔

میٹا کا کہنا ہے کہ وہ قانون کے اندر رہ کر کام کر رہے ہیں اور ’اشتہارات کے بدلے میں سبسکرپشنز‘ بہت سی صنعتوں میں قائم کاروباری ماڈل ہے۔

فی الحال میٹا برطانیہ کے ڈیٹا ریگولیٹر آئی سی او کے ساتھ مستقبل میں اس ماڈل کو برطانیہ میں متعارف کروانے کے بارے میں بات چیت کر رہی ہے۔

کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی بات چیت تعمیری رہی ہے اور مستقبل میں اس بارے مزید معلومات شیئر کی جائیں گی۔ تاحال اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

آن لائن کمائی اور سرمایہ کاری کا جھانسہ: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان فراڈ کا شکار کیسے ہو رہے ہیں؟’چالیس ہزار پاؤنڈ اس شخص کو دے دیے جس سے کبھی نہیں ملی‘آن لائن خریداری کیسے اور کیوں شروع ہوئی؟’آپ چاہتی ہیں ریپ کا پرچہ نہ ہو تو پیسوں کا بندوبست کریں‘: فراڈ جو پاکستانیوں کو جمع پونجی سے محروم کر رہا ہےآن لائن لون ایپس: ’میرے شوہر کی برہنہ تصاویر پھیلانے کے بعد میری تصویریں بھی غلط ویب سائٹ پر ڈالی گئیں‘ملازمت کے جھانسے میں جمع پونجی گنوانے والی لڑکی: ’نوکری کے لیے درخواستیں دے رکھی تھیں، مجھے لگا واٹس ایپ میسیجز سچ ہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More