ایک غلام سے تین خلفا کے تخت کی طاقت بن جانے والی ’خیزران‘ کون تھیں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 25, 2024

Getty Images

مسلمانوں کے لیے مکہ میں وہ گھربہت خاص تھا کہ اس میں پیغمبراسلام پیدا ہوئے تھے۔ ہجرت کے بعد سے یہ ایک (عقیل بن ابی طالب) کے بعد دوسرے (محمد بن یوسف الثقفی) خاندان کی ملکیت میں چلا آرہا تھا۔ سنہ 788 میں خیزران حج پر گئیں تو اسے خرید لیا۔

اسی مکہ میں حج ہی کے موقعے پر عباسی خلیفہ المہدی نے انھیں غلاموں کے ایک تاجر سے خریدا تھا اور بعد میں اپنی ملکہ بنایا تھا۔

ٹورنٹو یونیورسٹی کے استاد آدم علی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’اس گھر میں خیزران نے چھوٹی سی مسجد بنوائی اور پیغمبر اسلام کی جائے پیدائش کو زیارت کا مقام بنایا۔‘

بیسویں صدی کے وسط میں اسے دو منزلہ لائبریری میں بدل دیا گیا۔ اب یہ مسجد حرام کے پاس ہی واقع ہے۔

اس سے پہلے خیزران نے المہدی سے تحفے میں ملے دارالارقم کے ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے بھی مسجد بنوا دیا تھا۔

یہ وہ گھر تھا جہاں اسلام کی ابتدا میں پیغمبراسلام دعوتِ دین دیتے اور ابتدائی مسلمان خفیہ نماز پڑھتے تھے۔ (دوسرے عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے یہ گھر خرید کر اپنے بیٹے المہدی کو دیا تھا۔ انھوں نے اسے اپنی بیوی خیزران کوتحفہ میں دے دیا جن سے منسوب ہوکر یہ مکان دارالخیزران مشہورہوا)۔

یہ مقام اب مسجدِ حرام کا حصہ ہے اور باب دار الارقم کے پاس ہے۔

اب لوٹتے ہیں خیزران کی جانب۔

Getty Images

’تاریخِ کوکن‘ میں مومن محی الدین لکھتے ہیں کہ بانس جسے عربی زبان میں خیزران کہتے ہیں نزاکت حسن اور قامت محبوب کا معیار پایا تھا۔ بغداد کے عشرت کدوں میں نازک اندام حسیناؤں کو خیزران سے تشبیہ دی جاتی تھی اور یہی نام مہذب سوسائیٹی کی خواتین میں بھی مقبول تھا۔

لیکن نبیہ ایبٹ اپنی کتاب ’ٹو کوئینز آف بغداد: مدراینڈ وائف آف ہارون الرشید‘ میں لکھتی ہیں کہ خیزران نے اپنی کامیابی کے لیے شاید ہی کبھی خوبصورتی پر انحصار کیا ہو۔

’وہ ذہین تھیں، آزادانہ طور پر شاعری کا حوالہ دیتی تھیں اور معروف علما سے قرآن، حدیث اور قانون کا مطالعہ کرتی تھیں۔‘

مراکشی ماہرسماجیات فاطمہ مرنیسی اپنی کتاب ’اسلامز فارگاٹن کوئینز‘ (اسلام کی بھولی ہوئی ملکائیں) میں لکھتی ہیں کہ حرم کی لونڈیاں، جنھیں جاریہ یا جواری کہا جاتا تھا، اپنے مالک کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے موسیقی، علمِ نجوم، ریاضی اور علم الٰہیات سیکھتیں اور خیزران نے تو فقہ کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔‘

المہدی کی زندگی میں خیزران سے پہلے بھی کچھ لونڈیاں آئیں لیکن، مرنیسی کے مطابق، وہ بالآخر المہدی کی پسندیدہ بن گئیں۔

وہ دونوں عملی لطیفوں سے لطف اندوز ہوتے۔ کئی بار المنصور کے غصّے کی نقل بھی کرتیں۔

سنہ 775 میں المہدی خلیفہ بنے تو خیزران نے انھیں آزاد کر کے شادی کرنے پر راضی کرلیا۔

مورخ ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب خلیفہ سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اشرافیہ میں شادی کریں گے، خیزران کو ملکہ بنانا ’جرات مندانہ طور پر روایت سے ہٹ کر تھا۔‘

ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ المہدی کی زندگی میں خیزران حج پر گئیں تو انھیں مکہ میں خط لکھا کہ وہ ان کے بغیر وحشت محسوس کرتے ہیں اور کچھ اشعار کے ذریعے اپنے شوق کا اظہار کیا۔

یوں پہلی بیوی ریطہ کے بیٹوں کی بجائے خیزران کے بیٹوں، موسیٰ الہادی اور ہارون الرشید، کو اپنے تخت کا وارثبنایا۔

تاریخ ریطہ اور خیزران کے درمیان براہ راست کشیدگی کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتی ہے۔ لیکن ایبٹ کا قیاس ہے کہریطہ نے جان لیا ہوگا کہ خیزران کی مخالفت کا کوئی فائدہ نہیں۔

ملکہ کے طور پر، خیزران اب خلیفہ کے حرم میں بھی اعلیٰ اختیار رکھتی تھیں اور سلطنت کی بھی سب سے طاقت ور اور بااثر خاتون تھیں۔

عربی اور اسلامی علوم کے ماہر ولیم منٹگمری واٹ کی انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے لیے تحقیق ہے کہ خیزران ایک مضبوط شخصیت کی حامل خاتون تھیں جن کا اپنے شوہر اور پھر بیٹوں کے دورِِ حکومت میں امورِ مملکت میں بہت اثر تھا۔

مرنیسی لکھتی ہیں کہ جب بھی المہدی دربار میں آتے وہ ان کے ساتھ ہوتیں۔

’وہ ایک پردے کے پیچھے چھپی ہوتیں اور اگر کسی بات سے متفق نہیں ہوتی تھیں، تو وہ ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیتی تھیں۔ انھیں ہر وقت خلیفہ تک براہِ راست رسائی حاصل تھی۔ ان کی تجاویز کو ہمیشہ قبول کیا جاتا تھا۔ ان کی سفارشسے انعام یا ترقی اور سزا میں معافی ملتی۔‘

دربارمیں برمکیوں سے ان کا اتحاد تھا۔ خالد برمکی تب ساتھ تھے جب خیزران کو المہدی نے خریدا تھا اور ان کے ملکہ بننے کی پیش گوئی کی تھی۔ ان کے بیٹے اورہارون الرشید کے استاد یحییٰ برمکی کی بیوی ام فضل نے ہارون کو اپنا دودھ پلایا تھا اور ہارون کی والدہ خیزران نے یحییٰ کے بیٹے فضل کو اپنا دودھ پلایا تھا۔

یہ بھی پڑھیےرضیہ سلطان: چوغہ اور پگڑی پہننے والی جنوبی ایشیا کی پہلی خاتون حکمران، جنھیں محبت کی کہانیوں سے نفرت تھی’شفا‘: وہ خاتون جنھیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ منتظم‘ مقرر کیا گیاحضرت خدیجہ: جن کی کاروباری ذہانت نے دنیا کی تاریخ بدل ڈالیخلیفہ ہارون الرشید کی زندگی کی کہانی: کتنی حقیقت، کتنا افسانہ؟

مرنیسی کے مطابق وہ تمام فوجی اور ریاستی امور پر تبادلہ خیال کرتیں اور فیصلہ میں مدد دیتیں۔ وہ درخواست گزاروں، مرد اور خواتین، دونوں سے ملاقات کرتیں۔ انھیں غیر ملکی سفیروں سے ملنے، سیاسی طاقت استعمال کرنے اور امورِِ سلطنت چلانے کے لیے سرکاری کاغذات پر دستخط کی اجازت بھی تھی۔‘

’خیزران کے محل کی حفاظت سپاہی کرتے اور ان کی زمینیں دارالحکومت بغداد کے مضافات میں پھیلی ہوئی تھیں۔متعدد کاروباری ادارے اور کارخانے بھی چلاتیں اور بیرونِ ملک بھی بڑا کاروبار تھا۔ ان کے پاس سینکڑوں غلام تھے اور کئی خواتین ملازمائیں تھیں۔ ایک پرتعیش طرزِ زندگی تھا۔‘

ان کی سالانہ آمدن خلافت کی آمدن کا ایک تہائی تھی، جو ان کے بیٹوں الہادی اور ہارون الرشید کی خلافت کے دوران دوگنا ہو کر خلافت کی کل آمدنی کے نصف سے زیادہہوگئی۔‘

نبیہ ایبٹ لکھتی ہیں کہ خیزران کی ذاتی دولت نے انھیں ’بلاشبہ، (ان کے بیٹے خلیفہ ہارون الرشید) کے بعد، اپنے دور کی مُسلم دنیا کی سب سے امیر ترین شخصیت بنا دیا تھا۔‘

لیکن وہ خیرات بھی اسی نسبت سے کرتی تھیں۔

خیزران کو مکہ میں اور اس کے راستوں کے ساتھ کنویں کھودنے اور پینے کے پانی کے چشمے لگانے کا سہرا بھی دیا جاتا ہے۔

طالب ہاشمی کے مطابق ایک دفعہ خیزرانکو ایک نوکر نے اطلاع دی کہ اموی خلیفہ مروان دوم کی بیوہ مزنہ دروازے پر ہے۔

’مزنہ کے حالات نے خیزران کے دل کو اس قدر متاثر کیا کہ پھر موت تک انھیں شاہی سرپرستی حاصل رہی۔‘

جیسے جیسے ان کے شوہر کی عمر بڑھتی گئی، دربارمیں ان کی طاقت بڑھتی گئی اور انھوں نے اپنے کچھ رشتہ داروں کو بھی عہدوں سے نوازا۔

مرنیسی لکھتی ہیں کہ جب المہدی بغداد سے دور ہوتے تو وہ ان کی طرف سے حکومتی معاملات کو سنبھالتی تھیں۔

’اپنی والدہ، دو بہنوں اور دو بھائیوں کو بھی بلوا لیا اور اپنی ایک بہن، سلسال، کی شادی المہدی کے بھائی جعفر سے کی، اور اپنے بھائی کو یمن کا گورنر نامزد کیا۔‘

دو بیٹوں کے علاوہ المہدی اور خیزران کی ایک بیٹی بھی تھیں جن کا نام بانوقہ تھا۔

بینسن بورک نے اپنی کتاب ’دی کیلفس سپلینڈر: اسلام اینڈ دی ویسٹ ان دی گولڈن ایج آف بغداد‘ میں لکھا ہے کہ المہدی ان سے اتنا پیار کرتے تھے کہ انھیں لڑکوں کا لباس پہناکر سفر میں ساتھ لے جاتے۔

’جب 16 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تو المہدی نے تعزیتِ عامطلب کی جس پر اعتراض اٹھا کیوں کہ تب بیٹی کی وفات پر عوامی تعزیت کو درست نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘

سلطنت عثمانیہ میں جانشینی کی ’خونیں دنیا‘ جہاں طاقتور لونڈیاں بادشاہ گر تھیںیوکرین کی روکسیلانا جو سلطنت عثمانیہ کی حوریم سلطان بنیںاستنبول کی ’طوائف گلی‘ کی تھیوڈورا سلطنت روم کی ملکہ کیسے بنی؟ختلون: منگول شہزادی جس نے رشتے کے طلبگاروں کو کشتی میں ہرانے کا چیلنج دیکر ہزاروں گھوڑے جیتے

دس سال ڈیڑھ ماہ کی حکومت کے بعد المہدی کی وفات اگست 785 میں سرکاری طور پر جانشین مقرر کیے بغیر ہو گئی۔ الہادی خلیفہ ہوئے اور ہارون نے رضامندی ظاہر کی۔

مرنیسی لکھتی ہیں کہ خیزران نے وزیروں کو حکم دیا کہ وہ فوج کی اجرت ادا کریں تاکہ امن و امان قائم رہے۔ پھر ان سے اپنے بیٹے کی غیر موجودگی میں نئے خلیفہ کے طور پر بیعت لی۔

خیزران اپنے بیٹے موسیٰ الہادی کے دورِ حکومت میں بھی ویسا ہی غلبہ چاہتی تھیں جیسا کہ اپنے شوہر المہدی کے دور میں حاصل تھا۔

’وہ (الہادی) سے مشورہ کیے بغیر فیصلے کرنے لگیں۔ تاہم، الہادی نے ریاستی امور میں ان کی شرکت کی مخالفت کی۔‘

’یہ تنازع بالآخر عوام کے سامنے اس وقت کھلا جب خیزران نے ایک درخواست گزار عبداللہ بن مالک کے حق میںسفارش کی اور کھلے عام اپنے بیٹے سے جواب طلب کیا۔‘

’الہادی غصہ میں کھلم کھلا ان پر چلائے اور کہا: ’میری بات کان کھول کرسنیں۔۔۔ میرے لوگوں میں سے جو کوئی آپ کے پاس درخواست لے کر آئے گا اس کا سر کاٹ دیا جائے گا اور اس کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔ آپ کے پاس یہ جمگھٹا کیوں لگا رہتا ہے؟ اللہ اللہ کریں۔ خبردارجو کسی کے بھی حق میں منہ کھولا۔‘

ولیم منٹگمری واٹ کے مطابق جب الہادی ستمبر 786 میں پراسرار طور پر وفات پا گئے تو افواہ تھی کہ موت کے پیچھے خیزران کا ہاتھ ہے۔

ابوجعفرمحمد بن جریر الطَبَری نے تاریخ طبَری میں لکھا ہے کہ بعض ارباب نے بیان کیا ہے ان کے پیٹ میں ایک دنبل(پھوڑا) ہوا تھا وہی وجہ ہلاکت ہوا۔ دوسرے ارباب یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی ماں خیزران کے اشارے اور حکم سے بعض لونڈیوں نے ان کو ہلاک کیا کیوں کہ الہادی نے انھیں زہر دینے کی کوشش کی۔

وہ لکھتے ہیں کہ الہادی نے ایک دن اپنی ماں کو پکے ہوئے چاول بھیجے۔ وہ چاول امتحان کے طورپر کتے کو کھلائے گئے تو اس کا تمام گوشت ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرپڑا۔

ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ خیزران کو معلوم ہوا کہ الہادی اپنے بھائی ہارون الرشید کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ انسائکلوپیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے کہ اپنے مختصر دورِ حکومت میں الہادی نے اپنے بھائی ہارون الرشید کے حق وراثت کو منسوخ کرنے کی کوشش کی۔

طَبَری میں فضل بن سعید سے روایت ہے کہ خیزران نے قسم کھائی تھی کہ وہ موسیٰ الہادی سے بات نہیں کریں گی۔

’جب الہادی کی موت کا وقت قریب آیا اور قاصد نے اطلاع دی تو انھوں نے کہا میں کیا کروں۔ وضو کے لیے پانی لاؤ تاکہ نماز پڑھ لوں۔ آج رات ایک خلیفہ مرے گا، دوسرا برسرِ خلافت ہوگا اور تیسرا پیدا ہوگا۔ موسیٰ الہادی کی وفات ہوئی، ہارون الرشید خلیفہ ہوئے اور مامون الرشید پیدا ہوئے۔‘

ہارون الرشید 14 ستمبر 786 کو خلیفہ بنے تو خلافت مغربی بحیرہ روم سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔

Getty Images

خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بھائی کے برعکس اپنی والدہ کے امور مملکت میں حصہ لینے کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کی سیاسی قابلیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور ان کے شانہ بشانہ حکومت کی۔

مرنیسی کے مطابق وہ یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے کہ انھیں خیزران جیسی قابلیت اور ذہانت کی کسی عورت کے ساتھ اپنی طاقت سانجھی کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں۔

جب خیزران کی 789 میں وفات ہوئی تو ان کے بیٹے ہارون الرشید نے قواعد کو توڑتے ہوئے عوامی طور پر اپنے دُکھ کا اظہار کیا اور ان کے جنازے میں شرکت کی۔

تاریخ میں خیزران کے سیاسی کارناموں کی زیادہ تفصیل نہیں ملتی لیکن ٹام وردے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان کے نام پر سکے ڈھالے گئے، محلات ان کے نام سے منسوب کیے گئے اور جس قبرستان میں بعد کے عباسی حکمرانوں کو سپرد خاک کیا گیا، اس میں بھی ان کا نام موجود ہے۔

’یہ سب نہ صرف ان کی حیثیت کی گواہی دیتے ہیں بلکہ یہی میراث اَمت العزیز تک پہنچتی ہے جنھیں تاریخ میں زبیدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘

زبیدہ سلسال کی بیٹی اور خیزران کی بھانجی اور ہارون الرشید کی بیوی ہونے کے باعث ان کی بہو تھیں۔ جہاں ہارون الرشید، اَلف لیلہ و لیلہ (1001 راتیں) کے خلیفہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خیزران اور زبیدہ کے مضبوط کردارہیں جو افسانوی شہر زاد کی حقیقی زندگی کی بنیاد تھے۔

آدم علی کہتے ہیں کہ خیزران ایک غیر معمولی خاتون تھیں۔

’وہ اپنی مضبوط قوت ارادی، عزم، ذہانت، دانشمندی، استقامت اور بے رحمی کی بدولت غلام سے مادر ملکہ کے درجے تک پہنچیں۔ وہ تین خلفا کے تخت کی طاقت تھیں۔‘

سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطانعثمانی فوج کا طاقتور دستہ جس نے اپنے ہی تین سلطان معزول اور قتل کیےسقوط غرناطہ: ابوعبداللہ وہ مسلمان حکمران جنھوں نے ’جنت کی کنجیاں‘ مسیحی بادشاہوں کے حوالے کیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More