Getty Imagesکھیرے کے سلاد ان دنوں دنیا بھر میں مقبول ہو رہے ہیں
آئس لینڈ کی سپر مارکٹس کو ایک عجیب قسم کے بحران کا سامنا ہے۔ ایک وائرل ٹک ٹاک ٹرینڈ کے بعد وہاں کھیرے کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور سپر مارکٹس کھیرے کی فراہمی کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔
کھیرے کی مانگ میں اُس وقت زبردست اضافہ نظر آیا جب شمالی یورپ کے اس چھوٹے نارڈک ملک آئس لینڈ میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے کھیرے، تِل کے تیل، لہسن، چاول کے سرکے اور مرچ کے تیل پر مبنی ایک سلاد کی ترکیب شیئر کرنا شروع کیں۔
آئس لینڈ کی کسانوں کی ایسوسی ایشن ہارٹیکلچرسٹس سیلز کمپنی (ایس ایف جی) نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ یہ نسخہ اس قدر ہٹ ہوا ہے کہ ملک کے کسان کھیرے کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔
جبکہ ایک سپر مارکیٹ چین ہیگکوپ نے مانگ اور ٹرینڈ کے درمیان تعلق پر سوال اٹھایا ہے تاہم اس نے تسلیم کیا ہے کہ کھیرے کی خریداری دگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔
ایس ایف جی کی مارکیٹنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ آئس لینڈ میں کسان صارفین کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، لیکن انھیں امید ہے کہ ’ایک ہفتے یا اس سے کچھ زیادہ عرصے میں‘ سپلائی معمول پر آجائے گی۔
ایس ایف جی کی مارکیٹنگ ڈائریکٹر کرسٹین لنڈا سوینسڈوٹر نے کہا کہ سلاد بنانے کی یہ ترکیب ’واقعی مقبول‘ ثابت ہوئی ہے اور سلاد میں شامل کیے جانے والے دوسرے اجزا یا مسالہ جات بھی اُسی مناسبت سے فروخت ہو رہے ہیں۔
بہر حال اس وائرل ٹرینڈ کی جڑیں کینیڈا میں ہیں جہاں ٹک ٹاکر لوگان موفٹ نے مختلف اجزا کے استعمال کے ساتھ کھیرے کے سلاد بنانے کی تراکیب پیش کی ہیں۔ اور انھیں اسی وجہ سے ’کوکمبر گائے‘ یا کھیرے والا کہا جا رہا ہے۔
وہ اپنی بہت سی ویڈیوز کی ابتدا اس جملے سے کرتے ہیں کہ ’کبھی کبھار آپ صرف ایک کھیرا کھا کر ہی سیر ہو جاتے ہیں ۔‘ ان کا یہ جملہ اتنا اثرانگیز ثابت ہوگا انھوں نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔
لوگان موفٹ کے 55 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں اور وہ جولائی سے تقریباً روزانہ کھیرے کی ترکیبیں شیئر کر رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کی تراکیب نے اور بطور خاص کھیرے کے متعلق تراکیب نے آئس لینڈ میں صارفین کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ وہ اس میں عام طور پر تِل کا تیل اور چاول کے سرکہ کا استعمال کرتے ہیں لیکن بعض اوقات وہ اس میں کریم پنیر، ایواکاڈو، اور یہاں تک کہ سموکڈ یا سینکی ہوئی سالمن (ایک قسم کی مچھلی) بھی ملانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
انفلوئنسر کی زبردست آن لائن مقبولیت کے باوجود آئس لینڈ کے ماہرین ملک میں موجود کھیرے کی کمی کو ان کے ویڈیوز کے ساتھ وابستہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
ہیگکوپ نے بی بی سی کو بتایا کہ سال کے اس وقت آئس لینڈ میں کھیرے اور ککڑی کی قلت کا سامنا عام بات ہے۔
جبکہ کمپنی کے فوڈ پروڈکٹ مینیجر ویگنیر برجیسن نے کہا کہ ان کے سٹورز میں تِل کے تیل اور کچھ دوسرے مصالحہ جات جیسے اجزاء کی فروخت ’دگنا‘ ہو گئی ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ کھیرے کی موجودہ کمی صرف ٹِک ٹاک کے رجحان کی وجہ سے نہیں ہے۔
پاکستانی صحافیوں کے ’دو کیمپس‘: وی لاگز کی دنیا جہاں بات ’کھل کر ہوتی ہے‘ اور آمدن ڈالر میںسیکس ٹارشن: ’خاتون نے کہا تین ہزار پاؤنڈ بھجوا دو ورنہ تمھاری زندگی تباہ کر دوں گی‘پابندی کے باوجود ٹک ٹاک افغان خواتین کے لیے اُمید کی کرن: ’مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں‘آم کے صحت کے لیے کیا فوائد ہیں اور کیا ذیابیطس میں مبتلا افراد اس کا استعمال کر سکتے ہیں؟Getty Imagesسبزیاں
ایس ایف جی کی کرسٹین لنڈا سوینسڈوٹر نے بھی اس بابت کچھ شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کھیرے کی اس کمی میں دیگر عوامل کارفرما ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کھیرے کے کچھ کاشتکار سال کے اس وقت اپنے ان پودوں کو بدل لیتے ہیں جو زیادہ پیداوار دینا بند کر دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ سکول گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد پھر سے کھل رہے ہیں جس سے سپلائی پر اضافی دباؤ ہے۔
کرسٹین لنڈا سوینسڈوٹر نے کہا کہ ’ہر چیز ایک ساتھ ہو رہی ہے‘ تاہم انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا ٹرینڈز بھی اس کو متاثر کرنے والے عوامل میں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا ’یہ پہلی بار ہے جب ہمیں اس طرح کی قلت کا سامنا ہے۔‘ کرسٹین لنڈا سوینسڈوٹر نے مزید کہا کہ موسم گرما کے شروع میں جب کھیرے کی پیداوار اپنے عروج پر تھی اس وقت اگر یہ ٹرینڈ مقبول ہوتا تو کمی کا احساس بھی نہ ہوتا۔
کرسٹین لنڈا سوینسڈوٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ آئس لینڈ میں کسان تقریباً 60 لاکھ کھیرے پیدا کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ آئس لینڈ کی آبادی تقریبا چار لاکھ (393600) ہے۔
آئس لینڈ کے شدید موسم کے باوجود وہ جس قدر تازہ پھل اور سبزیاں اگاتے ہیں اس پر انھیں فخر ہے۔
تارکینِ وطن کے لیے ’بہترین‘ ملک میں زندگی کیسی ہے؟ملازمین سے ہفتے میں بس چار دن کام لینے کا تجربہ ’کامیاب رہا‘آئس لینڈ: مردوں کے ختنے پر پابندی کا منصوبہ