’صحیح پتا یہاں درج کریں ورنہ ڈیلیوری کینسل‘: پاکستان میں صارفین کو موصول ہونے والا یہ مشکوک پیغام کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 24, 2024

Getty Images

’کوریئر آپ کا پارسل ڈیلیور کرنے میں ناکام رہا۔۔۔‘ یہ وہ پیغام ہے جو پاکستان میں کئی لوگوں کو اپنے موبائل فون پر موصول ہو رہا ہے۔

اس پیغام میں صارفین سے کہا جا رہا ہے کہ ان کے آن لائن آرڈر درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان تک نہیں پہنچایا جا سکا لہٰذا وہ دوبارہ ڈیلیوری کے لیے دیے گئے لِنک پر کلک کر کے اپنا درست پتا درج کریں۔

ہو سکتا ہے کہ انگریزی میں تحریر شدہ یہ پیغام بعض صارفین کو مشکوک بھی نہ لگے کیونکہ اکثر گھر میں کسی نہ کسی فرد نے آن لائن کچھ منگوایا ہوتا ہے اور آرڈر کا انتظار رہتا ہے۔

مگر یہ درحقیقت آن لائن جعلسازی کا ایک نیا رجحان ہے جس میں پیغام میں موجودہ لِنک پر کلک کرنے کی صورت میں درست پتے کے علاوہ بینک کارڈ کی تفصیلات بھی مانگی جاتی ہیں۔

ڈیجیٹل ادائیگی سے متعلق اپنی تفصیلات درج کر کے صارف ایک جال میں پھنس جاتے ہیں جسے انٹرنیٹ کی دنیا میں ’فشنگ سکیم‘ کہتے ہیں۔

کریڈٹ کارڈز بنانے والی عالمی کمپنی ویزا نے 2023 کے دوران پاکستان میں آن لائن شاپنگ اور ڈیجیٹل ادائیگیوں پر ایک سروے کیا تھا۔ اس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 91 فیصد پاکستانی صارفین جعلسازوں کے پیغامات پر جواب دے سکتے ہیں۔

سروے میں شامل لوگوں میں سے 52 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کے فراڈ کا شکار ہو چکے تھے۔

بی بی سی نے اس بارے میں پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام سے بھی بات کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

صارفین کو ’فِشنگ سکیم‘ کے ذریعے کیسے نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

انٹرنیٹ پر جعلساز ’فِشنگ سکیم‘ کے ذریعے لوگوں کو ایک ویب سائٹ کا لِنک دیتے ہیں جس پر کلک کرنے سے متاثرین کی ذاتی معلومات حاصل کر لی جاتی ہیں۔

ان معلومات کو غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے شناخت کی چوری یا بینک اکاؤنٹ سے پیسے چُرا لینا۔

سائبر سکیورٹی کے ماہرین ایسے کسی انجان لِنک پر کلک کرنے سے منع کرتے ہیں مگر اس مذکورہ کیس میں بعض صارفین نے سوشل میڈیا پر بتایا ہے کہ جب انھوں نے اس پر کِلک کیا تو وہ ایک ایسی ویب سائٹ پر پہنچ گئے جس پر پاکستان کی سرکاری پوسٹ سروس ’پاکستان پوسٹ‘ کا نام اور لوگو درج تھے۔

ایک سکرین شاٹ میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ صارفین سے ان کے اے ٹی ایم کارڈ کا نمبر اور دیگر تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ اس پر لکھا ہے کہ ’دوبارہ ڈیلیوری کے لیے سروس فیس (89.17 روپے) لاگو ہوگی۔ پیمنٹ کے بعد آپ کے پیکج کی دوبارہ ڈیلیوری کی جائے گی۔‘

یہ بھی پڑھیےآن لائن کمائی اور سرمایہ کاری کا جھانسہ: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان فراڈ کا شکار کیسے ہو رہے ہیں؟ایک سافٹ ویئر اپڈیٹ جس نے دنیا بھر میں آئی ٹی اور ٹرانسپورٹ کا نظام بٹھا دیا

سید عون عباس بخاری پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے تقریباً دس سال منسلک رہے ہیں اور آج کل وہ ایک نجی بینک میں بطور انفارمیشن سکیورٹی چیف کام کر رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ جیسے کسی مچھلی کو پکڑنے کے لیے کنڈا لگایا جاتا ہے ویسے ہی فشنگ سکیم میں جعلساز لوگوں کو ایسے جھانسے دیتے ہیں۔

اس مذکورہ فشنگ سکیم کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں کسی انعامی رقم کا تذکرہ نہیں بلکہ ڈیلیوری کے لیے ایڈریس کی تصحیح کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ویزا کمپنی کی طرف سے متنبہ کیا جا چکا ہے کہ بعض صارفین ایسے پیغامات پر جلد یقین کر لیتے ہیں جن میں کسی چیز کی ڈیلیوری یا شپنگ کا ذکر ہو یا اس میں کوئی ڈسکاؤنٹ آفر شامل ہو۔

Getty Imagesجعلساز آپ کی کون سی معلومات تک رسائی چاہتے ہیں؟

سائبر سکیورٹی کے ماہر سید عون عباس بخاری کے بقول اے ٹی ایم کارڈ کی معلومات کے علاوہ صارفین کو دیگر معلومات دینے کے حوالے سے بھی محتاط رہنا ہوگا۔

وہ دیگر فشنگ سکیمز کا حوالہ دیتے ہیں جن میں جعلساز صارفین سے ان کا ای میل ایڈریس یا پاس ورڈ مانگتے ہیں۔

اکثر لوگ ایک ہی ای میل اکاؤنٹ پر سوشل میڈیا سائٹز جیسے فیس بُک اور انسٹاگرام وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ یہی ای میل وہ آن لائن بینکنگ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

’جب آپ کا ای میل ایڈریس اور پاس ورڈ جعلساز کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس کی لاٹری لگ جاتی ہے۔ اگر آپ ایک کاروباری شخصیت ہیں تو آپ کے کاروبار کے حوالے سے خفیہ معلومات کا بھی غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ایک عام انٹرنیٹ صارف ہیں تو جعلساز آپ کے فیس بُک اکاؤنٹ سے آپ کے دوست احباب سے پیسے مانگنے کی گزارش کرتے ہیں۔ وہ اس کے علاوہ آپ کے بینک اکاؤنٹ سے پیسے بھی نکال سکتے ہیں۔‘

ان کا مشورہ ہے کہ ’دنیا میں کوئی بھی چیز مفت نہیں ملتی۔‘

’ہر ایسی چیز جو آپ کے نزدیک اہم ہے یا قدرے قیمتی ہے، وہ بغیر پیسے دیے آپ کو کیسے مل سکتی ہے؟‘

انھوں نے بتایا کہ جعلساز صارفین کے تجسس کے علاوہ ان کی بیچارگی کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

انھوں نے ایک فراڈ کا ذکر کیا جس میں جعلسازوں نے لوگوں کو ایسے پیغامات بھیجے تھے جن میں انھیں بغیر انٹرویو کے نوکری کی پیشکش کی گئی تھی۔

’پیغام میں ایک لنک شامل تھا جس پر کلک کر کے صارف کی ذاتی تفصیلات کے علاوہ کچھ رقم مانگی جاتی تھی۔ صارف کو مطلع کیا جاتا تھا کہ اس رقم کی ادائیگی کے بعد ان کی نوکری پکّی ہوگی۔ بہت سے لوگ اس سکیم کا شکار ہوئے۔‘

Getty Imagesوہ کون سی علامات ہیں جن سے آپ فشنگ سکیم کو پہچان سکتے ہیں؟

سائبر سکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے صارفین کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ پیغام اصل کمپنی کی جانب سے آیا ہے یا نہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عون عباس نے بتایا کہ ’اگر آپ کو کسی نامعلوم نمبر سے پیغام موصول ہوتا ہے تو اس کو رد کر دینا چاہیے۔ کمپنیاں اپنے آفیشل نمبر کے ذریعے ہی آپ سے رابطہ کرتی ہیں، نہ کہ کسی ذاتی نمبر سے۔‘

’تاہم اگر آپ کے جاننے والوں میں سے کوئی آپ کو اس طرح کا پیغام بھیجے تو ان سے اس میسج اور لنک کی تصدیق کریں کہ آیا یہ وائرس تو نہیں۔‘

’اگر تسلّی نہ ہو تو ایسے لنک پر کلک کرنے سے گریز کریں۔‘

صارفین کو خبر دار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اکثر اس طرح کے لنِک جائز ویب سائٹ ایڈریس کے برعکس بہت چھوٹے ہوتے ہیں یا انھیں عجیب و غریب طرح سے لکھا جاتا ہے۔

ایسے لنکس میں ’وائرس ہوسکتا ہے یا اس پر کلک کرنے کے بعد صارف سے کہا جا سکتا ہے کہ فلانی چیز ڈاؤن لوڈ کریں۔‘

’اگر آپ سے کوئی بھی چیز ڈاؤن لوڈ یا انسٹال کرنے کے لیے کہا جائے تو سمجھ جائیں کہ اس میں گڑبڑ ہے۔‘

انھوں نے ایسے آن لائن ٹولز اور ویب سائٹس کا بھی حوالہ دیا ہے جہاں لوگ کوئی لنک ڈال کر فشنگ سکیم کا خدشہ دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ایسی ویب سائٹ پر صرف انھی لنکس کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں جن کو کسی اور صارف نے رپورٹ کیا ہوتا ہے۔

اگر آپ فشنگ سکیم کا شکار ہو جائیں تو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق اپنے بینک اور پولیس کو فوراً مطلع کریں۔ اگر جعلساز کے پاس آپ کے بینک اکاؤنٹ سے متعلق تفصیلات موجود ہیں تو ممکن ہے آپ کا اکاؤنٹ عارضی طور پر بند کیا جائے گا۔

ڈیپ فیک پورنوگرافی: ’ میرا چہرہ پورن ویڈیو پر لگایا گیا تھا‘تیل کے بعد وہ قیمتی ٹیکنالوجی جس پر چین اور امریکہ لڑ رہے ہیں مگر امریکہ یہ ’جنگ‘ کیسے جیت رہا ہے؟انڈیا کی نامورخاتون صحافی کے ساتھ ہارورڈ میں نوکری کے نام پر دھوکہآن لائن کمائی اور سرمایہ کاری کا جھانسہ: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان فراڈ کا شکار کیسے ہو رہے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More