چندریان تھری: انڈین خلائی مشن کی چاند کے قطب جنوبی پر ’لاوا کے قدیم سمندر‘ کی اہم دریافت

بی بی سی اردو  |  Aug 22, 2024

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چاند کا قطب جنوبی کسی زمانے میں پتھر کے پگھلے ہوئے مائع کا سمندر ہوا کرتا تھا۔ اس کی بنیاد وہ سائنسی نظریہ ہے جس کے تحت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تقریبا ساڑے چار ارب سال قبل چاند کی سطح لاوے کی وجہ سے وجود میں آئی تھی۔

گزشہ سال اگست میں انڈیا کے تاریخی خلائی مشن چندریان تھری نے چاند کے قطب جنوبی پر اترنے کے بعد اس سمندر کی باقیات دریافت کی تھیں۔

انڈیا کے خلائی مشن کا مقصد چاند کے اس پراسرار حصے کا جائزہ لینا تھا جہاں اس سے پہلے کوئی بھی خلائی مشن نہیں پہنچا تھا۔ انڈین سائنسدانوں نے اپنی خلائی گاڑی اتارنے کے لیے چاند کے جس حصے کا انتخاب کیا وہ اس سیارے کے قطب جنوبی کا دوردراز خطہ ہے اور مستقل طور پر سائے میں رہنے کی وجہ سے اسے ’چاند کا اندھیرے والا حصہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

تاہم یہ دریافت سائنسی اعتبار سے نہایت اہم ثابت ہوئی کیوں کہ اس کی مدد سے ’لونر میگما اوشیئن‘ نامی نظریے کی تصدیق ممکن ہوئی کہ چاند کیسے بنا تھا۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جب ساڑے چار سال قبل چاند بنا تھا تو یہ ٹھنڈا ہونا شروع ہو گیا اور ’فیروان انورتھوسائیٹ‘ نامی ہلکی وزن کی معدنیات سطح تک پہنچ گئی۔ اسی معدنیات یا پگھلے ہوئے لاوا نے چاند کی موجودہ سطح کو تشکیل دیا۔

نئی دریافت میں شامل ٹیم کو اسی معدنیات کے شواہد چاند کے قطب جنوبی سے ملے ہیں۔

بدھ کے دن نیچر جرنل میں شائع ہونے والے تحقیقی مقاملے کے شریک مصنف ڈاکٹر سنتوش واڈوالے فزیکل ریسرچ لیبارٹری میں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’چاند کی ارتقا کا نظریہ ہماری تحقیق کی روشنی میں زیادہ پختہ ہو جاتا ہے۔‘

اس سے قبل میگما سمندر سے جڑے شواہد چاند کے وسطی خطے میں اپولو پروگرام کے دوران پائے گئے تھے۔

پروفیسر سنتوش چندریان تھری کے مشن کنٹرول کا حصہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت پرجوش وقت تھا جب ہم چاند کی سطح پر چندریان تھری روور کو چلا رہے تھے۔ ایسا تجربہ زندگی میں ایک ہی بار ملتا ہے۔‘

یاد رہے کہ جب انڈیا کے وکرم نامی لینڈر نے قطب جنوبی پر لینڈنگ کی تو اس میں ایک روور موجود تھا جسے چاند کی سطح پر اتارا گیا۔

تقریبا 10 دن تک پروفیسر سنتوش اسے چاند کی سطح پر ادھر ادھر گھماتے رہے اور اس کی مدد سے ڈیٹا اکھٹا کرتے رہے۔

یہ روبوٹ 70 ڈگری سے منفی 10 ڈگری تک درجہ حرارت میں کام کرنے کے قابل بنایا گیا تھا اور چاند کی گڑھوں سے بھرپور سطح پر چلنے کے بارے میں خود فیصلے لینے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔

اس روبوٹ نے ’ایلفا پارٹیکل ایکس رے سپیکٹرومیٹر‘ نامی آلے کی مدد سے پیمائشیں لیں جس کے دوران توانائی کے اخراج کی مدد سے چاند کی مٹی میں موجود معدنیات کی نشان دہی کی جاتی ہے۔

چندریان 3 کی چاند کے جنوبی قطب پر کامیاب لینڈنگ انڈیا کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟’شیو شکتی یا ہندو راشٹر‘ انڈیا میں چندریان تھری کے لینڈنگ مقام کے نام پر تنازع کیوں؟

سائنسدانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ انھیں اسے علاقے سے اربوں سال پہلے گرنے والے ایک بہت بڑے شہابی پتھر کے شواہد بھی ملے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ’ایٹکن بیسن‘ میں پیش آیا تھا جو نظام شمسی میں موجود سب سے بڑا گڑھا ہے اور ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل ہے۔

سائنسدانوں کو میگنیشیئم کی موجودگی کا سراغ بھی ملا جو ان کے خیال میں چاند کی سطح کے کافی اندر موجود تھی لیکن شہابی پتھر کے ٹکرانے کے بعد دھماکے کی وجہ سے سطح کے اوپر پہنچ گئی۔

پروفیسر انیل بھردواج انڈیا کی فزیکل ریسرچ لیبارٹری کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس عمل کے دوران چاند کی سطح کے کافی اندر موجود حصہ بھی باہر نکل آیا ہو گا۔‘

تاہم حالیہ دریافت چندریان تھری کی جانب سے حاصل کردہ ڈیٹا کے ایک حصے پر مشتمل ہے جس کا بنیادی مقصد قطب جنوبی پر ’پانی سے بننے والی برف‘ کی تلاش ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چندریان اس برف کی تلاش میں کامیاب رہتا ہے تو مستقبل میں چاند پر انسانوں کی رہائش میں مدد مل سکتی ہے۔

انڈیا 2025 یا 2026 میں چاند پر ایک اور مشن بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں چاند کی سطح سے اکھٹے ہونے والے نمونے تفصیلی تجزیے کے لیے زمین پر واپس لائے جا سکیں گے۔

انڈیا کا چاند پر جانے کا نیا مشن ’چندریان تھری‘ کیا ہے اور اس کے ذریعے کیا مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں؟بلیو سپر مون: پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں چاند سُرخ کیوں ہوا؟مریخ پر مائع پانی دریافت لیکن یہ وہاں انسانوں کی بستی بنانے والوں کے لیے ’اچھی خبر نہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More