800 ٹن سونا اگلنے والی کان جسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک فوجی افسر نے دریافت کیا

بی بی سی اردو  |  Aug 21, 2024

Getty Images

بنگلورو سے تقریباً 90 کلومیٹر دور کولار کی کان انڈیا کی سب سے بڑی سونے کی کان ہے۔ کولار میں سونے کی صنعتی کان کنی 1880 کی دہائی میں شروع ہوئی اور 2001 میں بند کر دی گئی۔

اس دوران اس کان سے 800 ٹن سے زیادہ سونا نکالا گیا تاہم دنیا کی سونے کی پیداوار میں کولار کا حصہ صرف دو فیصد تھا۔

کرناٹیکا کی اس کان سے قیمتی دھات (سونا) نکالنے کے لیے تقریباً 1,360 کلومیٹر لمبی زیر زمین سرنگیں کھودی گئیں۔ یہ سرنگ زمین سے تقریباً تین کلومیٹر نیچے کھودی گئی جو دنیا کی دوسری گہری سرنگ تھی۔

کولار سے سونے کی کان کنی کا آغاز 19 ویں صدی کے اواخر میں ہوا لیکن اس سے جڑی داستانیں صدیوں پرانی ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس سے پہلے وہاں کتنا سونا نکالا گیا تھا۔

اور یہ داستانیں انڈیا کی فلموں میں بھی جگہ بناتی رہی ہیں، کے جی ایف، کے جی ایف 2 اور اب حال ہی میں تمل زبان میں ریلیز ہونے والی فلم تھگالانگ بھی کولار کی سونے کی کان کے گرد گھومتی ہے۔

افسانوی سلطنت ’ایل ڈوراڈو‘ کی تلاش

مغربی معاشرے میں ’ایل ڈوراڈو‘ کے بارے میں ایک افسانہ ہے کہ اس نام سے سونے کا ایک شہر یا سلطنت ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح انڈیا میں بھی کولار گولڈ فیلڈ کے بارے میں بہت سے افسانے ہیں۔

بریجٹ وائٹ اپنی کتاب ’کولار گولڈ فیلڈ ڈاؤن میموری لین‘ میں لکھتی ہیں کہ پانچویں صدی میں گپتا دور میں بھی اس کان سے سونا نکالا گیا تھا۔

وینکٹاسوامی نے ’کولار گولڈ مائنز‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جسے جیولوجیکل سروے آف انڈیا نے شائع کیا۔ جس میں وینکٹاسوامی لکھتے ہیں کہ یہ کان بھی وادی سندھ کی تہذیب کے زیر استعمال تھی۔

کسی زمانے میں یہ علاقہ گنگا، چولہ، ہویسالہ اور وجئے نگر کے حکمرانوں کے تابع تھا۔ اس کے بعد یہ سلطنت بیجاپور، بعد میں میسور کے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے زیر انتظام آئی۔

ٹیپو سلطان کی موت میسور کی چوتھی جنگ میں ہوئی۔ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے میسور کے سروے کے لیے جان وارن نامی ایک فوجی افسر کو مقرر کیا۔

جب وہ ایراکونڈا کے پہاڑی علاقے میں پہنچے تو انھیں ارگاون اور ماریکوپم کے علاقوں سے سونا پائے جانے کہ بارے میں علم ہوا۔ اس علاقے کے لوگ مٹی اور پتھر سے سونا نکالنے کے فن میں ماہر تھے۔

وارن نے علاقے کی مٹی کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کولار گولڈ مائنز کی کتاب کے مطابق تھیرو اور ڈیڈو برادری کے 12 افراد نے اس کام میں مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی، جن میں سے تین مزدوروں کو روزانہ ایک چاندی کا سکہ دیا گیا۔

سونے کے بارے میں سن کر جب بہت سے لوگ سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہوئے تو جان وارن نے اعلان کیا کہ جو بھی سونے کی کان کی جگہ تلاش کرے گا اسے انعام دیا جائے گا۔

جس کے بعد وارنگھم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ایک قدیم کان کنی کے مقام پر سونے کی تلاش شروع کی اور اسے وہاں سے بڑی مقدار میں سونا ملا۔

وارن نے سونے کے معیار کو جانچ کے لیے مدراس (اب چنئی) بھیجا۔ جانچ کے دوران یہ سونا اعلیٰ درجے کا پایا گیا لیکن اس وقت حکومت کی سونے کی کان کنی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

Getty Imagesسونے کی تلاش کی مہم

مائیکل لاویلی اس وقت بنگلور میں بطور سپاہی کام کر رہے تھے۔ انھیں سونے کی دریافت کی اطلاع ملی، تو انھوں نے کولار میں سونے کی کان کی اجازت کے لیے میسور حکومت کو درخواست دی۔ بڑی مشکل کے بعد 1875 میں مائیکل کو کان کنی کی اجازت مل گئی تاہم اگلے ہی سال انھوں نے یہ لائسنس کسی اور کو منتقل کر دیا۔

اس وقت بہت سے لوگوں نے مل کر پانچ ہزار پاؤنڈز کی بھاری سرمایہ کاری کی اور اسے ’کولار کنسیشنیئر‘ کا نام دیا۔ اس مہم میں پہلے تو بہت کم سونا ملا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس کی مقدار بڑھنے لگی۔

اس کے بعد چنئی اور اوریگم کمپنی نے 10 ہزار پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کی۔ پھر میسور مائنز کمپنی اور نندی درگا نے بھی پیسہ لگایا۔ اس کے بعد کولار میں حقیقی معنوں میں کان کنی شروع ہوئی۔

سنہ 1885 کے آس پاس کیپٹن پلمر نے ماریکوپم میں موجود سونے کی کان میں مزید سونے کی تلاش کو ایک نئی سمت میں تلاش کرنا شروع تو سونے کے ساتھ ساتھ ان کی قسمت بھی چمکنے لگی کیونکہ اس تلاش کے دوران انھیں ایک جگہ سے تقریباً چھ ہزار اونس سونا ملا۔

سال 1894 میں بنگلور اور کولار کے درمیان میٹر گیج ریلوے ٹریک بچھایا گیا تھا۔ ابتدائی برسوں میں کان کنی لالٹین اور ٹارچ کے ذریعے کی جاتی تھی لیکن اس کی رفتار بڑھانے کے لیے قریبی شیواسمدرم ڈیم (سال 1902) سے پانی اور بجلی یہاں لائی گئی۔ کولار جنوبی انڈیا کا پہلا شہر تھا جہاں بجلی دستیاب ہوئی۔

یہ بھی پڑھیےدنیا میں اب کتنا سونا باقی رہ گیا ہے؟’مائع سونا‘: قدیم روم جہاں پیشاب دانت چمکانے اور کپڑوں کی دھلائی میں استعمال ہوتا اور اس کی خرید و فروخت پر ٹیکس تھاکولار کے سونے کی چمک

جلد ہی کولار میں کان کنی کی سرگرمیاں بڑھنے لگیں۔ تمل ناڈو کے قبائلی لوگوں کو یہاں بڑی تعداد میں مزدوری کے طور پر لایا گیا تھا۔ کان کنی کے ابتدائی دنوں میں حفاظتی انتظامات کا فقدان تھا اور کئی مزدور حادثات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران یہاں 32 ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ اس کے بعد یہاں سے سونا کم ہونے لگا اور کان کنی کمپنیوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔

انڈیا کی آزادی کے بعد میسور کے شاہی خاندان نے انڈیا میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جب ہنومنتایا میسور ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے سونے کی کانوں کو قومیانے کا پرزور مطالبہ کیا۔

28 نومبر 1956 کو ایس نجلنگپا کے زمانے میں اس کان پر ریاستی حکومت کا غلبہ آیا۔ جان ٹیلر اینڈ کمپنی نے کان ریاستی حکومت کے حوالے کر دی۔ کولار گولڈ مائننگ انڈرٹیکنگز نامی ایک عوامی منصوبے نے کان کنی شروع کی۔ اسی سال اس وقت کی میسور ریاست سے علیحدہ ریاست کرناٹک کا قیام عمل میں آیا۔

ریاستی حکومت کی طرف سے کولار میں بہت گہری کانیں کھودی گئیں لیکن بہت کم سونا ملا۔ پبلک وینچر کمپنی بننے کے بعد کان سے سونے کی پیداوار میں مسلسل کمی ہوتی گئی۔ سال 1956 سے 1962 کے دوران 20 کروڑ روپے مالیت کا سونا نکالا گیا۔

کرناٹک کی حکومت نے محسوس کیا کہ اب کان کنی کی کمپنی کو چلانے سے نقصان ہو رہا ہے، اس لیے اسے انڈیا کی مرکزی حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔ مرکزی حکومت کے محکمہ کان کنی و معدنیات نے سال 1972 میں ’انڈیا گولڈ مائنز لمیٹڈ‘ نامی کمپنی قائم کی۔

BBC’کولار گولڈ مائینز 2 کا آغاز‘

انڈیا کی مرکزی حکومت کے اقدام کے باوجود کان سے نکلنے والے سونے کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوا۔کولار کی کانوں میں سونا نکالنے کے لیے تقریباً 3,200 میٹر کی گہرائی تک کھدائی کی گئی۔ ایک موقع پر، ایک ٹن مٹی سے 14 گرام سونا نکلا مگر پھر یہ آہستہ آہستہ کم ہو کر چار گرام رہ گیا۔

سال 1998 میں کولار گولڈ فیلڈ کے سونے کے ذخار معدوم ہو گئے۔ چنانچہ سال 2001 میں کمپنی کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تقریباً 3,800 کارکنوں نے احتجاج کیا لیکن وقت ان کے ساتھ نہیں تھا۔

کولار جس نے کسی زمانے میں کان کنی کی دنیا میں ہلچل مچائی تھی وہاں آج کل بہت کم آبادی ہے۔ مقامی لوگ روزگار کے لیے بنگلور اور دوسرے شہروں میں ہجرت کر چکے ہیں۔ سونے کی کانوں کی خستہ حال مشینری اور عمارتیں کھنڈرات میں بدل چکی ہیں مگر یہ کولار گولڈ فیلڈز کی کبھی شان و شوکت کی گواہ ہیں۔

تاجر کے گھر سے دو کروڑ روپے، 70 تولہ سونا لوٹنے کے کیس میں گرفتار ڈی ایس پی جسمانی ریمانڈ پر کراچی پولیس کے حوالےآسٹریلیا: عام میٹل ڈیٹیکٹر سے دو کلو سے زائد سونا ڈھونڈ نکالنے والا خوش قسمت شخصچوڑیوں کے لیے مشہور انڈیا کا شہر، جہاں نالیوں میں سونا بہتا تھا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More