Getty Images
’باسٹھ سال کی عمر میں سارے خواب ٹوٹ گئے۔ میں ملزم کے لیے سخت سے سخت سزا چاہتا ہوں۔‘
یہ الفاظ ہیں 31 سالہ ڈاکٹر کے والد کے جن کے قتل اور ریپ نے نہ صرف کولکتہ ہی نہیں بلکہ پورے انڈیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
ان کا بیہمانہ قتل پورے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اس تحریر سے اہلخانہ کے نام اور دیگر تفصیلات ہٹا دی گئی ہیں کیوں کہ انڈیا کے قوانین کے مطابق متاثرہ فرد یا ان کے اہلخانہ کی شناخت نہیں بیان کی جا سکتی۔
ان کے والد کہتے ہیں کہ ہماری ریاست، ملک حتیٰ کہ پوری دنیا ہماری بیٹی کے لیے انصاف مانگ رہی ہے۔ جب وہ بات کر رہے تھے تو اس دوران ان کی اہلیہ خاموشی سے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
انڈیا کے شہر کولکتہ میں ان کی بیٹی آر جے میڈیکل کالج میں نو اگست کی رات ڈیوٹی کے دوران سیمینار ہال میں آرام کر رہی تھیں جب ان کا ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
اس سے چند ہی گھنٹے قبل تقریباً رات گیارہ بجے انھوں نے اپنی والدہ سے بات چیت کی تھی۔
BBCبنگال کے اس واقعے پر پورے ملک میں غم و غصہ پایا جاتا ہے
ان کی والدہ کو یاد ہے کہ فون پر ان کی بیٹی کے آخری الفاظ کیا تھے۔
’اس نے کہا کہ پلیز دھیان رکھیں کہ بابا اپنی دوائی وقت پر لیں۔ میری فکر نہ کریں۔‘
’یہ ہماری آخری بات ہوئی تھی۔ اگلے دن اس کا فون بجتا رہا۔‘
ان کے والد بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا ہیں اور وقت پر دوا لینا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ ہمیشہ خیال رکھتی تھی کہ میری دوا نہ چھوٹ جائے۔‘
’ایک بار دوا ختم ہوئی تو میں نے سوچا اگلے دن خرید لوں گا لیکن اس کو پتہ چل گیا اور رات کے دس، گیارہ بجے کھانے سے پہلے اس نے کہا کہ بابا گھر میں کوئی اس وقت تک کھانا نہیں کھائے گا جب تک دوائی نہیں آ جاتی۔‘
’وہ ایسی ہی تھی، اس نے کبھی مجھے کسی چیز کے بارے میں پریشان نہیں ہونے دیا۔‘
اس ریپ اور قتل کے واقعے نے دو ہزار بارہ میں پیش آنے والے اس جرم کی یاد تازہ کر دی ہے جب دلُی میں ایک چلتی ہوئی بس میں ایک بائیس سالہ خاتون کا ریپ کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد ریپ قوانین کو بدلا گیا تھا لیکن ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور انصاف تک رسائی انڈیا میں خواتین کے لیے اب بھی ایک مسئلہ ہے۔
اس واقعے کے بعد انڈیا میں ریپ اور جنسی ہراسانی کے حوالے سے قوانین کو مزید سخت کردیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ایسے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور انڈیا میں خواتین کی انصاف تک رسائی تاحال ایک مشکل کام ہے۔
کولکتہ میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے سبب ایک بار پھر لوگوں کی توجہ شعبہ صحت میں کام کرنے والے افراد کو درپیش مسائل کی طرف گئی ہے۔
انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس جُرم کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور وفاقی سطح پر خصوصاً خاتون ملازمین کی حفاظت کے لیے قوانین بنائے جائیں۔
BBCرات کے وقت دہلی کے لوک نایک ہسپتال کی تصویر
انڈیا کے وزیرِ صحت جے پی ناڈا نے ڈاکٹرز کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ شعبہ صحت میں کام کرنے والے افراد کی حفاظت اور انھیں محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے سخت اقدامات لیں گے۔
انڈیا میں میڈیکل تعلیم کے ریگولیٹر نیشنل میڈیکل کمیشن نے بھی اس سلسلے میں ایڈوائزری جاری کی ہے اور تمام میڈیکل کالجز اور اداروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ محفوظ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
کولکتہ میں ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد ہزاروں خواتین سڑکوں پر: ’ہماری اوقات گائے، بکریوں سے بھی کم ہے‘کولکتہ ہائی کورٹ کا لڑکیوں کو جنسی خواہشات پر قابو رکھنے کا مشورہ قطعی غلط ہے: انڈین سپریم کورٹسکالرشپ کا جھانسہ دے کر نوجوان لڑکیوں کا ریپ: ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے خاتون کی آواز میں کال کی گئی‘انڈیا: دو بہنوں کا ریپ اور قتل، لاشیں درخت سے لٹکتی ہوئی ملیں’وہ جو جان سے گئی‘
ہم کولکتہ میں قتل ہونے والی ڈاکٹر کے گھر گئے جو شہر سے چند ہی کلومیٹر دور ایک تنگ سی گلی میں واقع تھا۔
اس گھر کے ایک طرف پولیس نے رُکاوٹیں لگائی ہوئی تھیں اور متعدد ٹی وی چینلز کے کیمرہ پرسنز وہاں ہر لمحے کو اپنے کیمروں میں محفوظ کرنے کے لیے موجود تھے۔
دوسری طرف تقریباً 10 سے 15 پولیس اہلکار موجود تھے اور سورج کی روشنی میں ان کے سفید یونیفارم چمک رہے تھے۔
ان کی واحد ذمہ داری یہ تھی کہ وہ کیمرا پرسنز کو رُکاوٹوں کی دوسری طرف نظر آنے والے کسی بھی منظر کو اپنے کیمروں میں محفوظ کرنے سے روکیں۔
ان رُکاوٹوں کی دوسری طرف متاثرہ خاتون کا گھر ہے۔
9 اگست کی رات کو متاثرہ جونیئر ڈاکٹر نائٹ شفٹ پر تھیں اور تھکن کے سبب سیمینار ہال میں آرام کرنے کے لیے گئی تھیں۔
صبح ان کی نیم برہنہ لاش وہاں سے ملی۔
یہ جُرم اتنا سنگین تھا کہ اس کے خلاف غم و غصہ صرف کوکلتہ نہیں بلکہ انڈیا کے متعدد شہروں میں پایا گیا اور ہزاروں لوگ انصاف مانگنے کے لیے سڑکوں پر آ گئے۔
کولکتہ شہر میں ’ری کلیم دا نائٹ‘ مارچ منعقد کیا گیا اور اس میں موجود شرکا نے ملک بھر میں لاکھوں خواتین کو محفوظ بنانے کا مطالبہ کیا۔
متاثرہ ڈاکٹر کے والد کہتے ہیں کہ ہسپتال جیسی جگہ محفوظ ہونی چاہیے لیکن ’یہ وہی ہسپتال وہ ہی جگہ ہے جہاں ڈیوٹی کے دوران میری بیٹی کے ساتھ اتنا گھناؤنا عمل ہوا۔‘
متاثرہ خاتون ڈاکٹر کے آخری الفاظ
اس خاندان کا نقصان اتنا بڑا ہے کہ ان کی زندگیوں میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔
خاتون ڈاکٹر کے والد بتاتے ہیں کہ کیسے ان کی بیٹی ہمشہ دوسروں کو خود پر ترجیح دیتی تھی: ’اس کی شادی تقریباً طے ہو گئی تھی، لیکن وہ کہتی تھی کہ بابا آپ اتنے سارے پیسے کہاں سے لائیں گے؟ آپ پریشان مت ہوں، میں سنبھال لوں گی۔‘
جب وہ بات کر رہے تھے تو ان کی آواز کے پسِ منظر میں ایک ماں کی سسکیاں بھی سُنی جا سکتی تھیں۔
اس گھر کے برآمدے میں متاثرہ ڈاکٹر کے والد کا سامان پھیلا ہوا تھا۔ ان کے والد نے زندگی بھر بطور درزی کام کیا تھا اور اس کمرے میں سلائی مشین، دھاگے، استری اور جگہ جگہ کپڑوں کی کترنیں موجود تھیں۔
برآمدے کے ساتھ ایک سیڑھی تھی جس کا اختتام اہلخانہ کے کمروں پر ہوتا تھا اور وہیں متاثرہ ڈاکٹر کی خواب گاہ بھی موجود ہے۔
اس کمرے کا دروازہ پچھلے 11 دنوں سے بند ہے۔ 10 اگست کے بعد سے ان کے والدین نے اس کمرے میں قدم تک نہیں رکھا۔
ان کے والد اپنی بیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’جب وہ چھوٹی تھی تو ہمیں مالی مشکلات کا سامنا تھا، اس کی عمر کوئی پانچ برس کے لگ بھگ ہوگی۔ اسے پھل اور خصوصاً انار بہت پسند تھے۔‘
’ایک دن باہر نکلتے ہوئے اس نے کچھ پھل دیکھے اور کہا بابا کیا آپ پوجا کے لیے انار نہیں خریدیں گے؟ وہ کبھی بھی اپنے لیے کچھ نہیں مانگتی تھی۔‘
BBCحیدرآباد میں ڈاکٹروں کا مظاہرہ
اس سے پہلے کہ وہ یہ کہانی پوری کرتے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ساتھ ہی کھڑے ایک رشتے دار نے انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ: ’ہمت رکھیں۔‘
ایسے مشکل وقت میں خود کو سنبھالنا بھی ان کے لیے کسی بوجھ سے کم نہیں۔ متاثرہ ڈاکٹر ان کی اکلوتی بیٹی تھی، وہ بیٹی جسے کم عمری سے ہی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اور وہ اپنے استادوں کی پسندیدہ طالبہ تھی۔
ان کے والد کہتے ہیں کہ: ’جب وہ چھوٹی تھی تو اس کے ٹیچر اُسے گود میں لے کر سکول لے جایا کرتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم انتہائی غریب تھے اور ہم نے سب کچھ خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔‘
’لوگ کہتے تھے کہ تم اپنی بیٹی کو ڈاکٹر نہیں بنا سکتے، لیکن میری بیٹی نے سب کو غلط ثابت کیا اور ایک سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔‘
متاثرہ ڈاکٹر کی والدہ سب کچھ سُن رہی تھیں اور خاموشی سے ان لمحات کو یاد کر رہی تھیں۔
وہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں موجود ایک سونے کے کنگن کو بار بار چھو رہی تھیں، یہ وہ کنگن تھا جو انھوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ خریدا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی ہر رات سونے سے پہلے ایک ڈائری لکھا کرتی تھی۔
’اس نے لکھا تھا کہ وہ میڈیکل ڈگری کے ساتھ ساتھ گولڈ میڈل بھی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ ایک اچھی زندگی گزارنا چاہتی ہے اور ہمارا خیال بھی رکھنا چاہتی ہے۔‘
'معلوم نہیں تھا کہ شوہر کا زبردستی سیکس کرنا میریٹل ریپ کہلاتا ہے‘کولکتہ میں ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد ہزاروں خواتین سڑکوں پر: ’ہماری اوقات گائے، بکریوں سے بھی کم ہے‘کولکتہ ہائی کورٹ کا لڑکیوں کو جنسی خواہشات پر قابو رکھنے کا مشورہ قطعی غلط ہے: انڈین سپریم کورٹسکالرشپ کا جھانسہ دے کر نوجوان لڑکیوں کا ریپ: ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے خاتون کی آواز میں کال کی گئی‘انڈیا: دو بہنوں کا ریپ اور قتل، لاشیں درخت سے لٹکتی ہوئی ملیں’سات مردوں نے میرا ریپ کیا‘: انڈیا میں غیرملکی سیاح خاتون کے مبینہ اجتماعی ریپ کے مقدمے میں چار افراد گرفتار