ڈیرہ اسماعیل خان میں شدت پسندوں کا نشانہ بننے والی ہیلتھ ورکرز: ’یہاں حملہ ہوا ہے، بس یہ پیغام ملا اور فون خاموش ہو گیا‘

بی بی سی اردو  |  Jul 22, 2024

’ہم نیم شب کے وقت سو رہے تھے جب ہماری بھابھی کے موبائل فون سے میسج آیا کہ ہم پر حملہ ہو گیا ہے لیکن ہم نہیں دیکھ سکے کیونکہ نیٹ ورک کا مسئلہ تھا، اس کے بعد دوپہر کو جب میسج دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ جب رابطے کی کوشش کی تو ان کا موبائل فون خاموش تھا۔‘

شوکت حیات، دیہی ہیلتھ سینٹر کڑی شموزئی میں کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکر گلشن نجیب کے دیور ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ان کے گھر میں ماتم ہے اور لوگ فاتحہ خوانی کے لیے آ رہے ہیں۔

16 جولائی کو ڈیرہ اسماعیل خان سے 85 کلومیٹر دور شدت پسندوں نے ایک ایسے صحت مرکز پر حملہ کر دیا تھا جس کے احاطے میں سکیورٹی اہلکار بھی موجود تھے۔

فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 15 اور 16 جولائی کی درمیانی شب ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کڑی شموزئی میں دیہی ہیلتھ سینٹر پر شدت پسندوں نے حملہ کیا جس میں پانچ شہری، جن میں دو لیڈی ہیلتھ ورکررز، ان کے دو بچے اور ایک چوکیدار ہلاک ہو گئے۔

اس بیان میں کہا گیا کہ سکیورٹی فورسز نے فوری رد عمل میں تین حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا اور اس جھڑپ میں دو سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی مارے گئے۔

’یہاں حملہ ہوا ہے، بس یہ میسج ملا اور فون خاموش ہو گیا‘

اس سینٹر کے ایک حصے میں خواتین کو زچگی کے لیے سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اس میں دو لیڈی ہیلتھ ورکرز گلشن نجیب اور سفین سحر ڈیوٹی پر موجود تھیں۔

سفین سحر کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی ان کے ساتھ موجود تھے جبکہ اس سینٹر کا ایک چوکیدار ڈیوٹی پر معمور تھا۔

پیرا میڈکس اسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری خضر حیات نے بتایا کہ ’جس وقت حملہ ہوا اس وقت یہ سب ایک کمرے میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے جہاں ان پر فائرنگ ہوئی۔‘

گلشن کے شوہر قیصر حیات کا گھر ڈیرہ اسماعیل خان سے 70 کلومیٹر دور پنیالہ میں ہے جبکہ وہ ڈیڑھ سو سے دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کڑی شموزئی جاتی تھیں۔

اکثر وہ آٹھ سے دس دن مکمل ڈیوٹی کر کے آتی تھیں تاکہ کچھ وقت گھر میں گزاریں اور روٹیشن میں دوسری ورکرز پھر ڈیوٹیاں دیتی تھیں۔

گلشن کے بڑے دیور ظفر حیات نے بتایا کہ اگرچہ واقعہ رات کو کوئی ڈیڑھ اور دو بجے کے قریب پیش آیا اور اس دوران ان کی بھابھی نے وائس میسج کیے تھے لیکن نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے انھیں میسج دوپہر کے وقت ملے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی بھابھی نے رات کو اپنی بہنوں سے بات کی تھی اور انھیں بتا رہی تھیں کہ ’سینٹر کے قریب زور دار فائرنگ ہو رہی ہے اور تھوڑی دیر کے بعد بتایا کہ اب تو سینٹر کے اندر فائرنگ ہو رہی ہے اور پھر موبائل فون خاموش ہو گیا ہم جب صبح کال کر رہے تھے تو موبائل فون مکمل خاموش تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے جسموں پر متعدد گولیوں کے نشان تھے۔‘

گلشن کے شوہر پولیس میں ہیں اور ان کا ایک چھوٹا بیٹا اور ایک بیٹی ہیں جن کی عمریں ساڑھے چار سال اور ڈھائی سال بتائی گئی ہیں۔

گلشن دو سال سے محکمہ صحت کے ایک پراجیکٹ میں لیڈی ہیلتھ ورکر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیےآپریشن عزمِ استحکام: سیاسی مخالفت اور کامیابی کا امکان’آپریشن عزم استحکام‘: کیا چین کے سکیورٹی اور اندرونی استحکام کے مطالبے نے پاکستان کو متحرک کیا؟دیامیر میں ’شدت پسند کمانڈر‘ کی ہلاکت: گلگت بلتستان میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشن کی ضرورت کیوں پڑی؟کیا اس سینٹر پر حملے کا خطرہ تھا؟

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر قریبی علاقوں میں تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس دوران پولیس، سکیورٹی اہلکاروں اور چوکیوں پر حملوں کی اطلاعات آئے روز موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن کسی صحت کے مرکز پر حملہ جہاں خاص طور پر خواتین کو صحت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہوں، کی نظیر نہیں ملتی۔

پیرا میڈیکس اسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری خضر حیات نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور ایسے میں ہیلتھ ورکرز کے لیے دور دراز علاقوں میں کام کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سینٹر 24 گھنٹے خدمات فراہم کر رہا تھا جہاں صرف زچگی کے حوالے سے خواتین مریض آتی تھیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بظاہر اس سینٹر پر حملے کی کوئی پیشگی اطلاع یا تھریٹ کا انھیں علم نہیں۔

اس بارے میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی ہیلتھ افسر ڈاکٹر سید محمد محسود سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جس میں سینٹر کا عملہ نشانہ بنا۔

انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں کسی بھی ہسپتال یا صحت کے مرکز پر حملے کی کوئی اطلاع یا تھریٹ الرٹ نہیں تھی، سکیورٹی فورسز پر حملے کے بارے میں انھیں کچھ معلوم نہیں۔

خیبر پختونخوا میں صحت مراکز اور ہسپتال کتنے محفوظ ہیں اس بارے میں خیبر پختونخوا حکومت کے وزیر صحت قاسم علی شاہ سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ہیلتھ ورکز کی جانب سے تشویش کا اظہار

خیبر پختونخوا میں دور دراز علاقوں میں سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ہیلتھ ورکز پریشان ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہیلتھ ورکرز اور دیگر صحت کے عملے نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم لوگ بیمار لوگوں کو صحت کی طرف اور زندگی کی طرف لوٹانے کا کام کرنے والے ہیں، پھر کیوں ہم پر حملے ہو رہے ہیں۔‘

ہیلتھ ورکرز کا کہنا تھا کہ ’ان کے ساتھی تو چلے گئے ہیں لیکن اب آئندہ کیا ہو گا اس بارے میں سوچنا ہو گا۔‘

ایک ہیلتھ ورکر جمیلہ کے مطابق وہ اور ان کی دیگر ساتھی ’جس مشکل سے ان خطرناک علاقوں میں سفر کر کے جاتے ہیں، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ان کی دو ساتھی اور ان میں سے ایک کے دو بچے اور ایک چوکیدار اس حملے میں ہلاک ہوئے ہیں ان کے لیے کم سے کم شہدا پیکج کا اعلان فوری طور پر کیا جائے اور ان کے اہلخانہ کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ڈیرہ اسماعیل خان اور اس کے مضافات میں سکیورٹی کی صورتحال پریشان کن ہے اور ایسے میں جب ہم ان علاقوں کا سفر کرتی ہیں تو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے۔‘

دیامیر میں ’شدت پسند کمانڈر‘ کی ہلاکت: گلگت بلتستان میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشن کی ضرورت کیوں پڑی؟’آپریشن عزم استحکام‘: کیا چین کے سکیورٹی اور اندرونی استحکام کے مطالبے نے پاکستان کو متحرک کیا؟’یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے‘: قبائلی عوام ایک اور آپریشن سے نالاں مگر حکومت پُرعزم’دہشتگردی میں شدت کے بعد ہمیں ایک نئی صف آرائی کی ضرورت تھی‘، خواجہ آصف کا انٹرویوآپریشن عزمِ استحکام: سیاسی مخالفت اور کامیابی کا امکان
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More