پرتشدد مظاہروں کے دوران ڈھاکہ میں پھنسے پاکستانی طلبہ: ’ہمیں سننا پڑا اچھا تو پاکستانی اب بنگلہ دیش پڑھنے آئے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Jul 19, 2024

’احتجاج شروع ہونے کے بعد ہاسٹل میں ہمارا وقت انتہائی خوف کے عالم میں گزر رہا تھا۔ کوٹہ سسٹم کے مخالفین اور حامیوں میں کسی بھی وقت جھڑپیں شروع ہو جاتی تھیں۔‘

’کوٹہ سسٹم کے حامی مخالفین پر پاکستانی ایجنٹ ہونے کی پھبتی کستے اور ان کے خلاف نعرے بھی پاکستانی ایجنٹ ہونے کے لگاتے ہیں۔‘

یہ الفاظ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں زیرتعلیم پاکستانی طالبہ شہناز فرضی نام کے ہیں جہاں سرکاری نوکریوں میں کوٹے کے نظام کے خلاف پرتشدد احتجاج کے دوران جھڑپوں میں اب تک 25 افراد کی ہلاکت جبکہ سینکڑوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔

شہناز کا اصلی نام ان کی درخواست پر ہی تبدیل کیا گیا جس کی وجہ بنگلہ دیش میں پرتشدد احتجاج کے دوران پاکستان مخالف نعرے بازی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال ہے۔

ڈھاکا ہی کے ایک میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ایک اور پاکستانی طالب علم، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی، کا کہنا تھا کہ ’کہنے کو تو یہ احتجاج کوٹہ سسٹم کے حق یا مخالفت میں ہو رہا ہے مگر اس میں پاکستان ایجنٹ ہونا یا پاکستان مخالف ہونا بہت شدت سے زیر بحث ہے۔‘

’کوٹہ سسٹم کے حامی اس کے مخالفین کو بنگلہ دیش کا غدار اور بنگلہ دیش کی 1971 کی تحریک آزادی میں مارے جانے والوں کے خون سے غداری قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دونوں طرف جذبات عروج پر ہیں۔‘

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں کوٹہ کے خلاف احتجاج میں شریک مقامی طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھیں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے حالیہ بیان نے طیش دلایا جس میں ان طلبا کے مطابق وزیر اعظم نے کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے ’رضاکاروں‘ سے تشبیہ دی۔ بنگلہ دیش میں یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر 1971 کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ اس خطاب کے بعد سے ہی احتجاج کرنے والے طلبہ اور برسراقتدار عوامی لیگ کی طلبا یونین کے درمیان جھڑپوں میں شدت آئی اورصرف ڈھاکہ میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش اور خصوصا ڈھاکہ میں تمام بھی جامعات بند ہیں، پاکستانی طلبہ اور طالبات کیا محسوس کر رہے ہیں؟

بی بی سی نے بنگلہ دیش میں موجود ان طلبہ سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے جھڑپوں کے دوران کیا دیکھا اور وہ خود کس حالت میں ہیں؟ ان طلبہ اور طالبات نے نام اور تعلیمی ادارہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی۔

Getty Imagesپرتشدد احتجاج کے دوران جھڑپوں میں اب تک 25 افراد کی ہلاکت جبکہ سینکڑوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے’گزشتہ رات بہت خوفناک تھی‘

شہناز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گزشتہ رات تو بہت خوفناک تھی۔‘ یہ وہ وقت تھا جب وہ اپنی جامعہ کے ہاسٹل میں ہی مقیم تھیں جبکہ باہر احتجاج اور جھڑپوں میں شدت آتی جا رہی تھی۔

شہناز بتاتی ہیں کہ ’کئی مرتبہ شدید شور شرابہ ہوا۔‘

واضح رہے کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ اور فون کی سروس بھی متاثر ہو چکی تھی۔ تاہم ڈھاکہ میں موجود پاکستانی سفارت خانے نے ہاسٹلوں میں مقیم طلبا کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدمات کیے۔

ایک طالبہ کے والد حامد نصیر نے بتایا کہ ’تمام طالب علم رابطے میں تھے اور سفارت خانے ہی نے کالجوں اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اعتماد میں لیا جس کے بعد جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو ان کے لیےگاڑیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔‘

شہناز نے بتایا کہ ’سفارت خانے کی جانب سے ہمیں محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا جس کے بعد ہم نے سکون کا سانس لیا ہے۔‘

ڈھاکہ میں پاکستان کے سفارت خانے نے بی بی سی کو بتایا کہ بنگلہ دیش بالخصوص ڈھاکہ میں مقیم طالب علموں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے ہاسٹل کے کمروں میں ہی رہیں اور اس دوران سفارت خانہ متعلقہ کالجز اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر پاکستانی طالب علموں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا رہا۔

سفارت خانے کے مطابق ’جمعرات کی شب جب حالات زیادہ خراب ہوئے تو طالب علموں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ہاسٹلوں سے نکل کر پاکستانی سفارت خانے پہنچیں۔‘

بعد میں ان طلبہ کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

پاکستانی سفارت خانے کے مطابق 144 پاکستانی طالب علم بنگلہ دیش میں مقیم ہیں جن میں سے تقریبا 80 ڈھاکہ میں ہیں۔ ان 144 میں سے نصف تعداد طالبات کی ہے جبکہ اکثریت میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم ہیں اور چند انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

سفارت خانے کے مطابق ڈھاکہ کے علاوہ دیگر شہروں میں زیادہ پرتشدد مظاہروں کی اطلاعات نہیں ہیں تاہم وہاں مقیم پاکستانی طالب علموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مشاورت سے محفوظ راستہ اپناتے ہوئے سفارت خانے تک پہنچیں تاکہ ان کو بھی محفوظ مقام تک منتقل کیا جا سکے۔

Getty Imagesپاکستانی سفارت خانے کے مطابق 144 پاکستانی طالب علم بنگلہ دیش میں مقیم ہیں جن میں سے نصف طالبات کی ہےبنگلہ دیش میں طلبہ کا احتجاج شدت اختیار کر گیا: پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم 25 ہلاک، ملک میں انٹرنیٹ سروس بھی معطلبنگلہ دیش کی فوج میں بغاوت، جوابی بغاوت اور فوجی افسران کے درمیان اقتدار کی جنگ کی داستان

پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے منظور احمد کی بیٹی بنگلہ دیش کے شہر راج شاہی کے ایک میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’راج شاہی میں دو دن پہلے پرتشدد احتجاج بھی ہوا تھا جس کے بعد سے وہاں موبائل اور انٹرنیٹ بند ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’رابطوں میں مشکلات کا سامنا ہے تاہم میری بیٹی نے مجھے بتایا کہ وہ محفوظ ہے اور کالج کی انتظامیہ کے علاوہ سفارت خانے سے بھی رابطے میں ہے۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے میرپور کے رہائشی ذوالفقار احمد کے بیٹے ڈھاکہ میں زیرتعلیم ہیں جو اب سفارت خانے کی مدد سے محفوظ مقام پر پہنچ چکے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ حالات بہتر ہونے تک پاکستانی طالب علموں کو چارٹر طیارے کے ذریعے واپس پاکستان بھیجا جائے۔‘

منظور احمد بھی یہ ہی چاہتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ طالب علموں کا وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ ’حکومت اور سفارت خانے کو چاہیے کہ وہ پاکستان طالب علموں کے لیے آن لان کلاسز کا انتظام کریں۔‘

’اچھا تو پاکستانی بنگلہ دیش پڑھنے آئے ہیں‘

واضح رہے کہ پاکستانی طالب علم سارک ممالک کے ایکسچینج پروگرام کے تحت بنگلہ دیش میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ایک پاکستانی طالبہ، جو تین سال سے ڈھاکہ میں زیر تعلیم ہیں، کا کہنا تھا کہ جب وہ پہلے دن کلاس میں پہنچیں تو وہ دن کافی ناقابل فراموش تھا۔

’جب کلاس میں ہمارا تعارف ہوا تو اس وقت ایک ساتھی طالب علم نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ اچھا تو پاکستانی بنگلہ دیش پڑھنے آئے ہیں۔‘

’ساتھ میں انھوں نے کہا کہ واہ واہ، اب پاکستان کو یہ حالات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔‘

پاکستانی طالبہ کا کہنا تھا کہ ’ہمیں تو یہ بھی سننا پڑا تھا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستان سے طالب علموں کو بلا کر مقامی طالب علموں کی حق تلفی کی ہے۔‘

طالبہ نے بتایا کہ ’اس وقت استاد نے مداخلت کی اور کہا کہ پاکستان میں بنگلہ دیش کے زیادہ طالب علم پڑھنے جاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے ساتھی طالب علم ہم پر چوٹ کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔‘

ایک اور طالب علم نے بتایا کہ ’یہ بات درست ہے کہ یہاں پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں مگر مجھے نہیں یاد کہ کبھی کسی پاکستانی طالب علم کو براہ راست تنگ کیا گیا ہو یا بات تشدد تک پہنچی ہو۔‘

اس طالب علم کا کہنا تھا کہ ’یہ بھی یاد رہے کہ سو فیصد پاکستان مخالف جذبات نہیں ہیں۔ کچھ تنظیمیں اور طالب علم پاکستان کے حق میں بھی بات کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بنگالی طالب علم پاکستان کے حالات کے بارے میں ہمیشہ جاننا چاہتے ہیں۔‘

جب بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان میانوالی جیل سے رہا ہو کر انڈیا پہنچے اور ’جئے ہند‘ کا نعرہ لگایاڈھاکہ کی ایک خونیں شب: چار سیاست دانوں کا جیل میں قتل اور ایک فوجی بغاوت کی داستان قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے ’شیر بنگال‘ مولوی فضل حق، محب وطن تھے یا غدار؟’مشرقی پاکستان کے سبز کو سرخ کر دیا جائے گا‘ کس نے اور کیوں کہا تھا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More